ڈرامہ ” اعتبار ” میں جبری زیادتی اور مردانہ سوچ کی عکاسی


پاکستانی ڈرامہ دیکھے ہوئے زمانے ہوئے لیکن ڈان اخبار پڑھتے ہوئے اچانک ایک تحریر نے توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔ اس تحریر میں سوال اٹھایا گیا تھا اور تنقید کی گئی تھی کہ ہم کب تک جبری زیادتی کا شکار عورت کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہراتے رہیں گے؟

ہم ٹی وی کے ڈرامے ”اعتبار“ کے ایک سین میں ہوتا کچھ یوں ہے کہ ایک امیر لڑکا ایک شادی شدہ لڑکی کی عصمت دری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لڑکی اس سے لڑتی ہے اور اس سے پہلے کہ وہ لڑکا کچھ کرتا، لڑکی اس سے جان چھڑا کر بھاگ نکلتی ہے۔

لڑکی گھر آ کر اپنے شوہر کو سارا واقعہ اور روداد سناتی ہے جس پر اس کا شوہر اس لڑکی کو ہی لعن طعن کرتا ہے۔ پری اور حمزہ کے درمیان مکالمے کچھ یوں ہیں کہ

پری: مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ تمہیں میرے وجود سے الجھن ہو رہی ہے۔
حمزہ اپنی بیوی سے دور بیٹھتا ہے اور آنکھیں کتراتا ہے۔

پری: حمزہ تم مجھے اپنے پہلے جیسے حمزہ کیوں نہیں لگ رہے؟ تم اجنبی کیوں لگ رہے ہو؟ یہ سب کچھ بھلانے کے لئے مجھے اس وقت تمھارے پیار اور ساتھ کی ضرورت ہے۔ حمزہ پلیز!

حمزہ: میں بھی بھلانا چاہتا ہوں لیکن وہ لمحہ حائل ہو گیا ہے ہمارے بیچ۔ میں بھلا نہیں پا رہا کہ کسی غیر نے تمہیں چھوا ہے۔

پری روتے ہوئے : حمزہ نہیں ہوا کچھ۔ تمہاری پری آج بھی ویسی ہے جیسی تھی۔ کچھ نہیں بدلا۔
حمزہ: سب بدل گیا ہے پری۔ میں یقین نہیں کر سکتا، نہ تمہارا نہ تمہاری کسی بات کا۔

پری روتے ہوئے : تمہیں اپنی پری کا بھروسا نہیں ہے؟ میں نے آج تک تم سے کوئی جھوٹ بولا ہے؟ پلیز میرا یقین کرو!

حمزہ: تم مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ تمہارا سامنا کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے۔ پلیز چلی جاؤ!
حمزہ غصے سے اور اونچی آواز میں پری کو گھر سے نکل جانے کا کہتا ہے۔

شہریوں اور ڈرامہ دیکھنے والوں کی بڑی تعداد نے لکھنے والے کو مورد الزام ٹھہرایا ہے کہ یہاں بھی وکٹم بلیمنگ! لوگوں کا کہنا تھا کہ اگر اس منظر میں شوہر اپنی بیوی کے ساتھ کھڑا ہو جاتا اور اس کو گلے لگاتا تو شاید ایک بہتر پیغام ہم اپنے معاشرے تک پہنچا سکتے تھے۔

دوسری طرف لوگوں کا کہنا تھا کہ یہی ہمارے معاشرے کی صحیح عکاسی ہے۔ اپنے آپ کو بہت مضبوط اور طاقتور ظاہر کرنے والے مرد کی انا بس اتنی ہی کمزور ہوتی ہے۔ ڈرامہ دیکھنے والے مثال دیتے ہیں کہ جب موٹروے پر ایک عورت کی اس کے بچوں کے سامنے عصمت دری کی گئی تو لاہور پولیس چیف کا کیا بیان تھا کہ اس لڑکی کو رات کو نکلنے کی ضرورت کیا تھی؟

لوگ اور دلائل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب اس ملک کا موجودہ وزیراعظم ہی بیان دے کہ مرد روبوٹ نہیں ہے اور عورت اگر چھوٹا لباس پہنے گی تو ردعمل ہو گا۔

جب صبح کے شوز میں ندا یاسر اور دوسرے میزبان ٹی وی پر بلا کر ان لڑکیوں سے نجی اور چبھتے ہوئے سوالات کرتی ہیں تو لکھنے والا اور کیا لکھے۔ سچ لکھے یا پھر معاشرے کو حوصلہ دینے کے لئے ایک ایسا فرضی کردار تراشے جو پری کو گلے لگاتا۔ اس کا حوصلہ بڑھاتا؟

پری کے ساتھ کچھ بھی نہیں ہوا تھا لیکن اگر کچھ ہو بھی جاتا تب بھی حمزہ کو اس وقت اپنی بیوی کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ اس کے دکھ کا درماں کرنا چاہیے تھا۔ پری کو پہلے سے زیادہ پیار کرنا چاہیے تھا۔ عورت کس کرب سے گزرتی ہے اس کا اندازہ ہم مرد نہیں کر سکتے۔ مرد کا تو کچھ نہیں جاتا لیکن عورت کی زندگی پر اس چیز کا گہرا اثر پڑتا ہے اور اسے اس وقت اپنے شوہر اور دیگر خاندان کے افراد کی مکمل ہمدردی اور محبت چاہیے ہوتی ہے۔

میں خود بھی فیصلہ نہیں کر پا رہا ہوں کہ لکھنے والے نے معاشرے کی سچائی دکھا کر اچھا کام کیا ہے اور ہمیں جگانے کی کوشش کی ہے یا واقعی اس کا حمزہ والا کردار اگر پری کو گلے لگاتا اور اس کو پہلے سے زیادہ پیار اور عزت دیتا اور اس کو یہ احساس دلاتا کہ وہ تنہا نہیں ہے تو ہو سکتا تھا کہ معاشرے پر کوئی مثبت اثر پڑتا۔

مجھے خواتین کی رہنمائی چاہیے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments