نان ایشوز۔ سیاستدانوں کا معتمد ترین ہتھیار


انگریزوں کا ایک مقولہ بہت معروف ہوا کہ ”لڑاوٴ اور حکومت کرو“ ۔ انہوں نے اس پر عمل کیا اور کامیاب رہے۔ اور وہ اس مقولے اور فارمولے پر آج تک کسی نہ کسی صورت میں عمل پیرا ہیں۔

تین سو سال قبل مسیح ایک ہندو کوٹلیہ چانکیہ کی کتاب ارتھ شاستر میں سیاست میں کامیابی کے گر لکھے ہیں۔ جس میں  تمام حدوں کو پار کرنے کے سیاسی داوٴ پیچ جائز لکھے گئے ہیں۔ ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ اور ”محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے“ جیسے مقولے بھی کوٹلیہ چانکیہ سے ہی منسوب ہیں۔

ہمارے ملک میں رائج الوقت سیاست بھی شعوری یا غیر شعوری طور پر چانکیائی انداز سیاست کے اطوار بہر طور رکھتی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کے نزدیک جھوٹے نعرے، وعدے، سبز باغ دکھا کر عوام کو بے وقوف بنانا جائز، درجۂ کو پہنچا ہوا بلکہ فرض عین ہے۔ ایسے میں ریاست، حکومت اور اپوزیشن سب مل کر عوام کو نان ایشوز میں الجھائے رکھتے ہیں

ریاست و حکومت ایک طرح کے نان ایشوز پر عوام کو بے وقوف بناتے ہیں تو اپوزیشن کے سیاستدان دوسری طرح کے نان ایشوز کو ایسے پیش کرتے ہیں جیسے عوام کی زندگی کو درپیش ترجیحی مسئلہ ہی یہی ہو۔

کشمیر ریاست کا مسئلہ ہے مگر بظاہر یوں لگتا ہے کہ اس پر سودے بازی ہو چکی ہے۔ 75 سال میں کبھی جنگ کشمیر تو کبھی جہاد کشمیر، کبھی یوم یکجہتی کشمیر تو کبھی کشمیر کمیٹی کے اجلاسوں میں عوامی احتجاج کے فیصلے، کبھی عافیہ صدیقی قوم کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا جاتا ہے تو کبھی صوبے کا نام تبدیل کرنا۔ کبھی صوبائی تقسیم تو کبھی قومی، لسانی بنیادوں پر نئے صوبوں کی ڈیمانڈ۔

یوں سمجھئے ملک میں فرقہ واریت، مذہبی و مسلکی منافرت، صوبائیت، لسانیت، قومیت کی بنیاد پر جھگڑے، کبھی جمہوریت، کبھی آمریت کے الجھاوٴ، کبھی پارلیمانی نظام اور کبھی صدارتی نظام یہ سب 1 فیصد مقتدر قوتوں کے اقتدار کے حصول کے ہتھیار ہیں۔ اور یہ درحقیقت 99 فیصد غریب، مزدور، مڈل کلاس عوام کے لئے نان ایشوز ہیں مگر ہم سب ان میں ہی الجھے ہوئے ہیں جبکہ ہمیں یہ باور کرا دیا جاتا ہے کہ یہی تو ہمارے حقیقی مسائل ہیں۔

اگر آپ نے لیڈر شپ پڑھی ہے تو یقیناً پروپیگنڈا کی تین اہم اقسام وائٹ پروپیگنڈا، گرے پروپیگنڈا اور بلیک پروپیگنڈا ضرور پڑھی ہونگی اور اگر نہیں پڑھیں تو گوگل سے ضرور پڑھ لیں۔

یقین مانیے ان پروپیگنڈا کے طریقوں میں چانکیائی چالوں کا رنگ جھلکے گا۔ آپ کو کسی حد تک احساس ہو جائے گا کہ آپ کس طرح پروپیگنڈا کی ان اقسام کے ذریعے نان ایشوز میں الجھائے جاتے رہے ہیں

درج بالا بہت سی چیزیں جنہیں میں نے نان ایشوز لکھا ہے یہ ریاست کے ایشوز ہیں جنہیں ریاست نے بہرصورت حل کرنا ہے جبکہ عوام کے ایشوز میں سرفہرست بیروزگاری، مکان، تعلیم، صحت، حصول انصاف میں مشکلات جیسے ایشوز ہیں۔

ملک میں بیروزگاروں کو روزگار کے حصول کے لئے دھرنے دینے چاہیے۔ بے سائبانوں کو کم از کم تین اور پانچ مرلہ مفت سکیم کے مطالبے کے لئے جلوس نکالنے چاہیے۔ والدین اور طلبا و طالبات کو تعلیم 100 فیصد مفت کرنے کے لئے مظاہرے کرنے چاہیے۔ عوام کو صحت و انصاف کے حصول کے لئے ہڑتالیں کرنی چاہیے۔ عوام کو مقتدرین کو مہیا بے تحاشا تنخواہوں، الاوٴنسز اور دیگر سہولیات میں کمی اور ان کے احتساب کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ مزدوروں کو کم از کم تنخواہ پچاس ہزار روپے کروانے کے لئے ہڑتال کرنی چاہیے۔

دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ کیا کبھی ان ایشوز پر عملدرآمد کی بابت آپ کو سوچنے بھی دیا گیا؟ آپ کو ہمیشہ نان ایشوز میں ملوث کر کے الجھایا گیا ہے۔ جبکہ اصل ایشوز کی طرف آپ کے ذہن کو جانے ہی نہیں دیا جاتا۔

امیر شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلۂ مذہب کبھی بنام وطن
اب اگر آپ نے اس نان ایشوز کے گرداب سے باہر نکلنے کی سعی نہ کی تو آپ کی آئندہ نسلیں بھی ”عافیہ صدیقی کو رہا کرو“ اور ”کشمیر بنے گا پاکستان“ جیسے نعرے مارتی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments