اب مسیحی فوبیا پر بھی نظر کرلیں


وزیراعظم پاکستان عمران خان اقتدار میں آنے کے بعد پوری شدت سے دنیا کے ہر فورم پر اسلامو فوبیا کے حوالے سے آواز اٹھاتے رہے ہیں اور یہ عمران خان کی ذات کا ہی کرشمہ ہے کہ دنیا کے با اثر ممالک اسلامو فوبیا کے تدارک کے لئے اقدامات اٹھانے پر آمادہ دکھائی دے رہے ہیں۔

کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کا کہنا ہے کہ ہمیں اس نفرت انگیز عمل کو مکمل طور پر روکنے اور اپنی کمیونٹیز کو کینیڈا میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے محفوظ بنانے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لیے ہم اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے ایک نمائندہ خصوصی مقرر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کینیڈین وزیراعظم سے قبل روسی صدر ولادمیر پیوٹن نے بھی اسلامو فوبیا کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ نبی ﷺ کی توہین آزادی اظہار رائے نہیں ہے۔

یہ درست ہے کہ مذہب کی توہین کسی صورت برداشت نہیں ہے اور کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کے لئے عرصہ حیات تنگ کرنے کا کسی کو بھی اختیار نہیں ہے۔ جہاں ہم لفظ فوبیا سنتے ہیں تو وہیں اسلامو فوبیا ذہن میں آ جاتا ہے کیونکہ پاکستان میں یہ لفظ بکثرت استعمال کیا جاتا ہے لیکن اگر ہم پاکستان میں موجود اقلیتوں کی حالت زار کا جائزہ لیں تو احساس ہوتا ہے کہ پاکستان میں مسیحی فوبیا کا مرض بڑھتا جا رہا ہے۔

فوبیا کسی چیز کا خوف یا اس سے نفرت کی بھی ایک شکل ہے اور اگر ہم پاکستان میں مسیحی فوبیا کا جائزہ لیں تو حقیقت جان کر آنکھیں کھلی رہ جائیں گی۔ پاکستان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے اور صحت کے شعبہ میں گرانقدر خدمات کے باوجود مسیحیوں کو تیسرے درجہ کا شہری مانا جاتا ہے۔

ملک میں شدت پسند عناصر کی طرف سے ہر روز کہیں نہ کہیں مسیحیوں کو صرف مذہب کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے مسیحی مذہبی شدت پسندی اور ریاست مخالف سرگرمیوں میں کبھی ملوث نہیں رہے بلکہ مسیحی پوری ایمانداری سے اپنی فرائض منصبی انجام دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کو برابر کے شہری کا درجہ نہیں دیا جاتا، نوعمر بچیوں کو اغواء کر کے جبری مذہب تبدیلی اور نوکریوں کے نام پر خاکروب کی اسامیاں مسیحی فوبیا کی روشن مثالیں ہیں۔

پاکستان میں شدت پسندوں کے ہاتھوں مسیحیوں کے گھر محفوظ ہیں نہ عزتیں، مال محفوظ ہے نہ جان لیکن دنیا اسلامو فوبیا کا تدارک کرے؟ پاکستان میں اگر صرف چند واقعات پر نظر ڈالیں تو روح کانپ اٹھے۔

شہباز بھٹی کا قتل ہویا مردان کے سینٹ پال چرچ پر حملہ، جوزف کالونی کے سو سے زائد مسیحی گھر ہوں یا گوجرہ کے مسیحی گھر، پشاور کے چرچ کا دھماکہ ہویا حاملہ شمع اور شہزاد کا زندہ جلایا جانا، یوحنا آباد کے چرچ پر حملہ ہویا ایسٹر دھماکہ، پشاور میں پادری کا قتل، درجنوں مسیحی بچیوں کا اغواء اور جبری مذہب تبدیلی ہویا خاکروب کی آسامیاں یہی نہیں ایسی درجنوں مثالیں پاکستان میں مسیحی فوبیا کا ثبوت ہیں۔

یہاں سوال یہ نہیں کہ اسلامو فوبیا کا خاتمہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ سوال یہ ہے کہ دوسروں کے گھر کا حال بتانے والے اپنے گھر میں بڑھتی آگ کو کبھی بجھائیں گے کیونکہ یہاں محض دشمنی کے لئے جھوٹے الزامات لگا کر مسیحیوں کے گھر جلا دیے جاتے ہیں اور دہشت گردی کے لئے آنے والی نورین لغاری جیسی خطرناک دہشت گرد کو باعزت گھر بھیج دیا جاتا ہے۔

یہ روس، کینیڈا اور دیگر ممالک کا اعلیٰ ظرف ہے کہ انہوں نے آپ کے ایک مدعا کو نظر انداز کرنے کے بجائے اس کو مسئلہ بننے سے پہلے روکنے کے لئے تیاری شروع کردی ہے لیکن پاکستان میں ایک نہیں سیکڑوں واقعات کے باوجود کوئی اس مسئلے کو سنجیدہ لینے کو تیار نہیں۔

یورپ میں چند ایک مثالیں ضرور ہو سکتی ہیں جس میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہاں مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مغربی ممالک میں ہی ذات پات اور مذہب پوچھے بغیر مسلمانوں کو اعلیٰ حکومتی عہدوں سے نوازا جاتا ہے لیکن پاکستان میں کوئی مسیحی کسی کلیدی عہدے پر نہیں جاسکتا۔

کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور سچ ہر حال میں اپنا اپ منوا لیتا ہے۔ تو کینیڈا میں اسلامو فوبیا کے بیان پر خوشی سے بغلیں بجانے والے اگر یورپ اور کینیڈین امیگریشن میں پاکستانی مسلمانوں کی پناہ کی درخواستیں دیکھ لیں تو شاید اس بغل میں منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے دنیا میں اسلامو فوبیا کا مسئلہ اٹھا کر مسلمانوں کے لئے ایک اہم اقدام اٹھایا ہے اور اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں بڑھتی مذہبی شدت پسند کی روک تھام کے لئے بھی اقدامات اٹھائیں تاکہ پاکستان میں مسیحی فوبیا کا بھی تدارک کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments