پنجاب کی تعلیمی پالیسی اور اقلیتی طلبا کے تحفظات


پنجاب میں تعلیمی اصلاحات کا سلسلہ جاری ہے۔ صوبائی اسمبلی ’گورنر پنجاب اور وزیر تعلیم پنجاب کی جانب سے 2020۔ 21 کے دوران بہت سے تعلیمی اصلاحات متعارف کروائی گئی ہیں جن کے بارے میں کہا تو یہ گیا ہے کہ یہ اصلاحات طلباء کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور جدید طریقہ تعلیم کو متعارف کروانے کے لئے کی جا رہی ہیں مگر اقلیتی حلقوں کا کہنا ہے کہ ان تمام اصلاحات کا تعلق مذہب سے ہے اور ان اصلاحات کے نفاذ سے تعلیمی پالیسی کے ترقی پسند مقاصد کا حصول مشکل نظر آتا ہے۔

حکومت پنجاب کی حالیہ پالیسیوں سے لگتا ہے کہ طلباء پر زبردستی مذہبی سوچ مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے پنجاب حکومت کی جانب سے جو اقدامات کیے گئے ہیں چونکا دینے والے اور حیران کن ہیں۔ پنجاب اسمبلی نے جون 2020 میں کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ ایکٹ 2015 میں ترمیم کرتے ہوئے سیکشن 10 میں ( 2 (bکا اضافہ کیا ہے جس کے تحت متحدہ علماء بورڈ کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ پنجاب میں درسی کتب کی اشاعت سے قبل نصابی کتب کا جائزہ لینے کے بعد اشاعت کے لئے منظوری دیں گے۔

اس ترمیم کے نتائج فوری ہی سامنے آ گئے تھے جب مختلف پبلشرز کی جانب سے شائع کردہ کتب میں ملالہ یوسف اور آئزک نیوٹن کی تصاویر کے حوالے سے تنازعات نے جنم لیا۔ یاد رہے کہ پنجاب کے علاوہ ملک کے کسی بھی صوبے میں نصابی کتب کا جائزہ لینے کے لئے آئینی بورڈ تشکیل نہیں دیا گیا ہے اس حوالے سے ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کا یہ اقدام قومی کریکولم پالیسی پر وفاقی حکومت کے ملک بھر میں اتفاق رائے کے دعوؤں کی نفی کرتا ہے۔

جون 2020 میں گورنر پنجاب نے غیر مسلم طلباء کے لئے متبادل تجویز کیے بغیر اعلی تعلیم کے لئے قرآن پاک کا مطالعہ لازمی قرار دے دیا جبکہThe punjab CompulsoryTeaching of Holy Quran Act 2018 تحت قرآن پاک کا مطالعہ پہلے ہی مڈل اور سیکنڈری تعلیم کا حصہ ہے۔ اس پر اقلیتی حلقوں کی جانب سے یہ سوال اٹھا یا گیا ہے کہ کیا قرآن پاک کا لازم مطالعہ سکول اور یونیورسٹی دونوں سطح پر ضروری ہے جب مڈل اور سیکنڈری سطح پر یہ تعلیم کا حصہ ہے تو پھر اعلی تعلیم کے لئے اس کو حصہ بنایا جانا کیوں ضروری ہے‘ دوسری جانب اقلیتی طلباء کے لئے اس کے متبادل نہ ہونے کی وجہ سے کیا یہ ان کی حق تلفی نہیں ہے۔

بات یہی پر ختم نہیں ہوتی۔ اقلیتی حلقوں کی جانب سے زیادہ تشویش کا اظہار تب کیا گیا جب نومبر 2021 میں لاہور ہائی کورٹ نے اپنے جاری کردہ فیصلے (التمش سعید بنام حکومت پنجاب) میں ڈسٹرکٹ ججوں کو پنجاب بھر کے تمام سکولوں میں قرآن پاک کی تعلیم کے انتظامات کا جائزہ لینے کی ذمہ داری سونپ دی جس پر عمل درآمد کے دوران ناکافی انتظامات ہونے پر چند سکولوں کے خلاف کارروائی بھی عمل میں لائی گئی۔ اس فیصلے نے واضح طور پر انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات نے سوالات اٹھا دیے تھے ’خیال تھا کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کے لئے حکومت عدالت سے رجوع کرے گی مگر ایسا نہیں کیا گیا‘ دسمبر 2021 میں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے تمام سرکاری اور نجی سکولوں میں صبح کی اسمبلی کے دوران قومی ترانے سے پہلے قرآن پاک کی تلاوت کے ساتھ درود شریف پڑھنا لازم قرار دے دیا ’یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ توہین مذہب کے زیادہ واقعات پنجاب میں ہی رپورٹ ہوئے ہیں یہ واقعات جھوٹ تھے یا سچ یہ ابھی طے ہونا باقی ہے مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان واقعات میں اساتذہ اور طلباء دونوں کو نشانہ بنا یا گیا ہے اس لئے اقلیتی حلقوں کی جانب سے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اقلیتی کیمونٹی سے تعلق رکھنے والا طالب علم جو عربی الفاظ کا صحیح تلفظ ادا کرنے سے قاصر ہو یا حدیث مبارکہ کا صحیح حوالہ نہ دے سکے وہ توہین مذہب کے الزام کی زد میں آ سکتا ہے۔

کہا یہ جا رہا ہے کہ سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے ناظرہ قرآن کے لئے 70 ہزار اساتذہ بھرتی کا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ناظرہ قرآن کے حوالے سے یہ فیصلہ تو درست ہے مگر اقلیتی حلقوں کا کہنا ہے کہ کیا اقلیتی طلباء کو ان کے مذہب بارے پڑھانے کے لئے اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کو بھی بھرتی کیا جائے گا؟ اور کیا ان 70 ہزار اساتذہ کی بھرتی سے قبل اردو‘ انگریزی ’ریاضی اور دیگر مضامین کے اساتذہ کی کمی کو پورا کیا جائے گا۔

پنجاب حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم اقلیتی طلباء کا ڈیٹا بھی اکٹھا کیا جا رہا ہے اقلیتی حلقوں کی جانب سے اسے بھی تشویش کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے اس ضمن میں ان کا کہنا ہے کہ اس ڈیٹا کا غلط استعمال ہو سکتا ہے اور اس سے اکثریتی اور اقلیتی طلبا کے مابین تفریق پیدا ہو سکتی ہے اقلیتی حلقوں کا کہنا ہے پنجاب حکومت‘ گورنر پنجاب اور وزارت تعلیم کی جانب سے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں اس سے اقلیتی طلباء کو امتیازی سلوک اور نفسیاتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ تعلیمی اصلاحات اچھا اقدام ہیں تاہم حکومت کو اس ضمن میں اقلیتوں کے تحفظات دور کرنے کے لئے انہیں اعتماد میں لینا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ آئین کے آرٹیکل ( 1 ) 22 ,20 کے تحت اقلیتوں کو جو حقوق حاصل ہیں وہ سلب نہ ہوں اور اقلیتی کیمونٹی سے تعلق رکھنے والے طلباء بغیر کسی دباؤ کے آزادانہ ماحول میں تعلیم حاصل کر سکیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments