نواز شریف: ڈھولا تیری لوڑ پے گئی اے


سابق وزیراعظم اور ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ میاں نواز شریف کے خلاف اپنی توانائیاں صرف کرنے کے بجائے عوامی امور پر اپنی توجہ مرکوز کرے۔ بقول ان کے نواز شریف پر جتنے پیسوں کا الزام ہے حکومت اس سے زیادہ رقم ان کے خلاف قائم مقدمات پر خرچ کرچکی ہے۔ انہوں نے نواز شریف کے خلاف جاری مہم کو مقصد لا حاصل قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ وہ کبھی وطن واپس نہیں آہیں گے۔ لہذا نواز شریف مخالف مہم کو بند کر دینا چاہیے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف گزشتہ 22 ماہ سے لندن میں مقیم ہیں۔ ان کی لندن روانگی اور علاج ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ جو حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ پچھلے دنوں میاں صاحب کے ایک خطاب اور مریم نواز کے اس ٹویٹ ”ڈھولا تیری لوڑ پے گئی اے“ نے سیاسی میدان میں بڑی ہلچل مچا دی تھی۔ نواز شریف کی وطن واپسی کی افواہوں میں اتنی شدت پیدا ہوئی کہ وزیراعظم عمران خان بھی ایک اجلاس میں پھٹ پڑے۔ انہوں نے نواز شریف کی واپسی اور چوتھی دفعہ وزیراعظم بننے کی افواہوں پر اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا۔ اس طرح تو ملک کی تمام جیلوں میں بند قیدیوں کو رہا کر دینا چاہیے۔

مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ نون لیگ کے قائد نواز شریف سے لندن میں ملاقات کرتے رہتے ہیں۔ ان ملاقاتیوں میں فنکار، صحافی حضرات اور نون لیگ کے متعدد راہنماء بھی شامل ہیں۔ بعض صحافی ان سے وطن واپسی اور تحریک عدم اعتماد سمیت حکومت کی رخصتی کے مختلف آپشنز پر سوالات کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے موقف پر بات کرتے ہوئے ایک معتبر صحافی کا کہنا ہے۔ کہ وہ تحریک انصاف کے کسی گروپ کے ساتھ مل کر تحریک عدم اعتماد لانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اور نہ ہی موجودہ حکومت کے باقی ماندہ سولہ ماہ کے لیے نون لیگ کی حکومت قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔ نواز شریف دراصل یہ چاہتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے پیش ہونی چاہیے۔ اور کامیابی کی صورت میں وزیراعظم فوری طور پر اسمبلی توڑ کر نئے الیکشن کرائے۔

اس بات سے قطع نظر پاکستان میں نواز شریف کی وطن واپسی کی خبروں نے زور پکڑ رکھا ہے۔ مگر وہ بڑے اطمینان اور سکون کے ساتھ لندن میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ملکی سیاست کے سب سے بڑے کیمیاء گر کی باڈی لینگویج سے ہرگز یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ حکومتی پروپیگنڈا مہم سے خوفزدہ ہیں۔ انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ وہ ملک کے لیے انتہائی ناگزیر ہیں۔ اور پاکستانیوں کی اکثریت نے ان سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ اگر ملک ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے سفر شروع کر سکتا ہے تو صرف نواز شریف کی قیادت میں ہی ایسا ممکن ہے۔

بنگلہ دیشی ماڈل، صدارتی نظام اور چینی ماڈل کی افواہیں صرف نون لیگ کے قائد کا حوصلہ پست کرنے کے لیے پھیلائی جا رہی ہیں۔ مگر انہیں علم ہے کہ ایسی کوئی کوشش عوامی حمایت حاصل نہیں کر سکے گی۔ پاکستان کے عوام جمہوریت کے سوا کوئی دوسرا نظام قبول نہیں کریں گے۔

بعض مبصرین کے مطابق نواز شریف کے ساتھ طاقتور قوتوں نے کئی بار رابطہ کر کے انہیں حکومت سازی کی پیش کش کی ہے۔ مگر انہیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ کیوں کہ سابق وزیراعظم کسی ایسے سیٹ اپ کا حصہ بننے کے لیے راضی نہیں ہیں۔ جو عوامی امیدوں پر پورا اترنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔ دراصل وہ کسی بھان متی کے کنبے کا حصہ بننے کے بجائے نئے الیکشن کی طرف جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بھرپور عوامی مینڈیٹ کے ذریعے قائم حکومت ہی ملکی اور غیرملکی سطح پر پاکستان کا امیج بحال کر سکتی ہے۔

دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ الیکشن کے ذریعے اقتدار میں آنے والے طاقت ور نواز شریف سے خائف دکھائی دیتی ہے۔ طاقت ور قوتوں کو اس بات کا خدشہ ہے کہیں وہ مشرف غداری کیس جیسا کوئی دوسرا ایڈوینچر نہ کر گزریں۔

محض اسی وجہ سے ڈیل اپنے منتقی انجام کی طرف نہیں پہنچ رہی۔ کیوں کہ دونوں فریق ایک دوسرے پر بھروسا کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں۔

مگر نومبر 22 میں ہونے والی ممکنہ تبدیلی نے بھی بہت سوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ اسی وجہ سے اگلے دو ماہ انتہائی اہمیت کے عامل ہیں۔ بعض تجزیہ کار یہ پیشن گوئی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کہ وزیراعظم اپنی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے قبل از وقت طاقتور ترین شخصیت کو ادارے کا سربراہ نامزد کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو ایک طرف یہ عمل اپوزیشن کے لیے نیک فال ثابت نہیں ہو گا۔ اور دوسری طرف عمران خان طاقت ور وزیراعظم کے طور پر ابھر کر سامنے آ سکتے ہیں۔

اسی خطرے کے پیش نظر پی ڈی ایم کی قیادت نے مختلف جماعتوں سے رابطے شروع کر دیے ہیں تاکہ ایک مربوط پالیسی اپنا کر مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے۔ مولانا فضل الرحمن کی ایم کیو ایم کی قیادت سے ملاقات اور نون لیگ کی قیادت کی آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کو ماڈل ٹاؤن کے دورے کی دعوت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

دوسری طرف وزیر داخلہ شیخ رشید نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے۔ جنوری کا مہینہ حکومت کے لیے بہتر ثابت ہوا ہے۔ اور امید ہے۔ اگلے دو مہینے بھی حکومت خیر و عافیت سے گزارنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ آئی ایم ایف سے ایک ارب اور پانچ کروڑ ڈالر کی قسط ملنے کے بعد حکومتی کیمپ نے سکون کا سانس لیا ہے۔ تحریک انصاف کی معاشی ٹیم آنے والے مہینوں میں مہنگائی میں کمی کی نوید سنا کر عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنا چاہتی ہے۔ تاکہ حکومت کی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دیا جا سکے۔ مگر ایک بات طے ہے کہ لندن میں مقیم نون لیگ کے قائد میاں نواز شریف کو آن بورڈ لیے بغیر ملکی معیشت کو بحرانی کیفیت سے ہرگز نکالا نہیں جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).