پاکستان کا آخری وفادار


گھر سے باہر سڑک پر بوٹوں کی آوازیں رات کے سناٹے میں گونج رہی تھیں۔ فضا کو معلوم تھا کہ رات گئے قہر ٹوٹے گا، جب ہی اس نے یاس کی چادر اوڑھ لی تھی۔ غاصبوں کے سپاہیوں کا اک تموج برپا تھا اور سکوت میں تماشا جاری تھا۔

سید علی شاہ گیلانی کے بیٹے نسیم گیلانی جب شب نو بجے گھر لوٹے تو والد سے مل کر ان کی خیریت دریافت کی۔ والد نے انہیں اپنی خیریت بارے بہتر انداز میں مطلع کیا تو انہوں نے معمول کے مطابق مسجد کا رخ کیا۔ مگر جو سانس شب نو بج کر پچپن منٹ پر بے تاب ہونا شروع ہوئی، اس نے عین دس بجے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔ وہ گزر تو چکے تھے مگر کشمیر کی جدوجہد آزادی کے سب سے اہم سپاہی ہونے کی بدولت قابض کے لئے ایک ہدف تھے۔ یہی وجہ تھی گزشتہ پانچ برسوں سے غاصبین اس دن کے منتظر تھے، جب ہی ہر شام ان کے جنازے کو کیسے زبردستی ان کی قوم سے جدا کرنا ہے کی مشق کرتے رہتے۔

اس رات میں ستم، غم اور رنج برابر شامل تھے۔ رات کی جھرمٹوں سے جو دہشت ٹپک رہی تھی، رات کے مزید طول پکڑنے کے ساتھ عمیق ہوتی گئی۔ فضا میں مہیب سکوت طاری تھا جو ہر لمحے قابض سپاہیوں کی بوٹوں کی زمیں پر پڑتی تھاپ سے متواتر ٹوٹتا رہا۔ حیدر پورہ اور مضافات کے تمام علاقوں میں فوجی جیپیں سپاہیوں سے لدی آ رہی تھیں۔ دنیا کا بھی کیسا طنز ہے کہ کسی کے لئے سپاہی اور ان کی جیپیں تحفظ اور امید کا احساس ہوا کرتی ہیں تو کسی کے لئے سپاہی، بوٹ، اور قریب آتی فوجی گاڑیاں وحشت ناک ہوتی ہیں۔ سرینگر کے باسیوں میں یہ سپاہی اور فوجی بنکر ایسی ہی خوف آلود وحشت کا سبب تھے۔

جب قابض پولیس کے غیر مقامی پولیس سربراہ وجے کمار نے اپنی اسلحے سے لیس سپاہیوں کے ساتھ گھر کی دہلیز ایسے اعتماد سے پار کی جیسے اس گھر اور اس وطن کی ہر شے ان کی اجارہ داری کی محتاج ہو۔ کچھ لمحوں کے لئے تحریک آزادی کے عظیم وارث کی وفات پر ان کے بیٹوں سے تعزیت کرنے کے بعد ایسے احکامات صادر ہوئے جو انسانی لحاظ سے ناممکن العمل تھے۔ کوئی اپنے سپاہی کا جسد خاکی کیونکر دشمن کی فوج کے سپرد کر دے؟ یہ کس کتاب میں درج تھا؟ مگر حکم تو ایسے ہی وارد ہوا جس کی تعمیل دھونس کی مکمل شبہ تھی۔

قابض بہت پست ہوتے ہیں۔ انسانی جذبات، رجحانات، اور امنگوں کی توقیر کرنے کے خلوص سے عاری۔ جب ہی بھارتی پولیس چیف اور قابض سرکار بھی ان انسان دوست احساسات سے عاق تھے۔ میت کی حرمت ان کے قریب اہم ہو سکتی تھی نہ لواحقین کا غم۔ کشمیریوں کا یہ قومی صدمہ قابضوں کی قومیت کے بھیانک اور انسان تلف عناد سے لیس تھا۔ قابض، جو اپنے بنائے ہوئے خول میں رہتا ہے، اس کے نزدیک میت کو چھیننا ہی اصل فتح تھی۔ جس وادی میں ہر چوراہے اور پگڈنڈی پر بیسیوں غاصب تعینات ہوں، وہاں انسان دوستی ناپید ہوا کرتی ہے۔

قابض فوج اور غاصب حکام نے مفاد کے تحت گھر کے قریب ہی گور و کفن کا انتظام کر رکھا تھا۔ وہاں سید علی گیلانی کے آنگن میں ان کی آزادی کی راہ تکتی میت پاکستانی پرچم میں لپٹی تھی۔ ان کو پاکستان سے بہت چاہ تھی، اس کے نام اور علم سے محبت تھی۔ وہ خود کو پاکستانی ہونے کے ناتے اپنی اور جدوجہد کو دشمن کی مسلط کردہ شناخت سے ممتاز کرتے تھے۔ وادی میں روایت ہے، جو جان دیتا ہے اپنی میت کا کفن اسی وطن کا پرچم بنواتا ہے جس کے ایوانوں میں مقیم انسانوں سے ان کو مسیحائی کی بہت امید ہے، جس کی حمیعت اور قدس میں جان بھی دینے سے گریز نہیں کرتے۔ ان ایوانوں میں اس معتبر جذبے کی کس قدر قدر ہے وہ بھی پنہاں نہیں، بلکہ زہر قاتل ہے۔ اس وطن کے کچھ اپنے بھی تو ایسے دفنائے جاتے تو ہوں گے؟

پولیس کی بھاری نفری جو شہر بھر میں مقرر تھی، ویسی ہی بڑی تعداد میں قابض سپاہی ان کے آشیانے کی دہلیز پار کیے بنا لجاجت کے کھڑے حکم صادر کرنے پر مصر تھے۔

وجے کمار، غیر کشمیری، بھارتی ریاست بہار کا باشندہ جس کو ہر کشمیری کی جان پر فوقیت تھی، غلبہ تھا اور طاقت کا ادراک کہ ’باب‘ کی میت کو زور زبردستی سے جدا کر دے۔ آدھی رات کے وسط میں سپاہیوں نے گھر کے اس کمرے پر زور برسانا شروع کر دیا، جہاں آزادی کے اس ستارے کی وفا آمیز میت پاکستانی پرچم میں ملبوس تھی۔ جس کو ان کی آرزو کے تحت شہیدوں کے اس شہرہ آفاق آشیانے کے حوالے کرنا تھا جہاں ہر طرف آزادی کے متوالے سو رہے تھے۔ لیکن ظالم تو ظالم ہے، غاصب اور قابض ہے، احترام، تقدس اور احساس کے ہر انسانی جذبے سے بے فیض ہے۔ اس کو حرمتوں سے کیا لگن ہو؟ زندہ انسان پھینک دیا جائے یا مردے کو بے گور ہی دفن کیا جائے؟

رات تین بج کر دس منٹ پر دروازے کو توڑ کر سپاہی اندر داخل ہوئے کہ میت کو ویسے لوٹ لیا جائے جیسے کشمیر کو لوٹا گیا تھا۔ گھر والوں کی ہر کوشش اور گزارش کے باوجود بھارتیوں فوجی میت کی جانب لپکے۔ دروازے کی اوٹ کے ساتھ کھڑا ایک ماتحت پولیس افسر بد زبانی اور ہراسانی کرتا رہا۔ کمرے کی روشنی کو کبھی بند کرتا کبھی جلا دیتا کہ دہشت اور تذبذب کو ہوا ملے، غم زدوں کے غم کو دراز کیا جائے۔ سامنے وطن کے رہنما کی میت تھی، جس سے سپاہیوں نے پاکستانی پرچم اتار پھینکا اور جسد خاکی اٹھا کر لے گئے۔ اس کی سانسوں سے خوف کھانے والے، جو اس کی زندگی سے ڈرتے تھے اب اس کی موت کی ایسی وحشت میں مبتلا تھے کہ وادی بھر میں کرائے کے قاتل گشت کرتے رہے۔

سید علی گیلانی، پاکستان کا ایسا وفادار تھا جس کی وفا کی لو ہزاروں سال اجالے کرتی رہے گی۔ وہ وفا کا بے مثال پیکر تھے، محبت اور جفا کا کمال تھے۔ ان کی میت شہیدوں کے ہمراہ دفنائی گئی نہ کسی اپنے کو قبر میں اتارنے کی اجازت ملی۔ ظلم تو ظلم ہے، ظالم کی جبیں کا بد نما داغ ہے، جو تمام اندھیروں میں بھی نمایاں رہتا ہے، بڑھتے بڑھتے مٹ جاتا ہے، اپنے ہمراہ ظالموں کو بھی مٹا دیتا ہے۔ اس کی ہر لو بجھ جاتی ہے، اس کی ہر صوت دب جاتی ہے۔ اس کو نجات میسر آ سکتی ہے نہ چھاؤں، بس ایک دن ہار ضرور جاتا ہے چاہے گھر میں ہو یا پرایوں میں، ٹھہر نہیں سکتا، نہ ظلم نہ ہی ظالم۔ ہم بھی میتوں کو چھپاتے ہیں، چھینتے ہیں اور بس پھینک دیتے ہیں۔ ہم بھی اپنے دشمنوں سے ہیں، اپنے حریف بھی خود ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments