سپورٹس ڈپلومیسی

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


عمران خان صاحب، جو پہلے سپورٹس مین ہوا کرتے تھے اور اب ہمارے محترم وزیراعظم ہیں، آج کل سرمائی اولمپکس میں شرکت کے لیے چین گئے ہوئے ہیں اور حسب معمول و حسب توقع، ہم سب کی تفنن طبع کا سامان بھی مہیا کر رہے ہیں۔

سرمائی اولمپکس کے کھیل چونکہ زیادہ تر سرد ممالک میں کھیلے جانے والے اور برف سے متعلق ہیں تو کئی ایک کھیل ایسے بھی ہیں جن کے نام آپ کے میرے جیسے بھولے بھالے لوگوں کو معلوم بھی نہیں اور اگر معلوم ہو بھی جائیں گے تو انھیں سمجھنا، بندر کو ادرک کا سواد سکھانے جیسا ہو گا۔

شاید یہ ہی وجہ کہ ان مقابلوں میں فقط ایک پاکستانی ایتھلیٹ حصہ لے رہا ہے جبکہ سات وزرا اور ایک وزیر اعظم بشمول دستے کے چار مزید افراد کے ساتھ گئے ہیں۔

اب آپ کے میرے جیسے بدگمان لوگ سو سو باتیں دھریں گے، طعنے تشنے دیں گے اور بے وجہ بے چارے وزیراعظم کا پیچھا لیں گے کہ ایک ایتھلیٹ کے پیچھے سارا کنبہ تالیاں بجانے کو پہنچ گیا۔

بھولے بادشاہو! کھیل کو کھیل سمجھنے اور اولمپکس کو اولمپکس سمجھنے کی غلطی کرنے والوں کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو آپ سب کے ساتھ پچھلے تین برس سے خصوصاً اور اس سے پچھلی سات دہائیوں سے عموماً ہوتا آیا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب دنیا کے کئی ملکوں نے ان اولمپکس کا بائیکاٹ کیا اور انڈیا تو بالکل ہی ناراض پھپھو بن کر کہہ رہا ہے کہ گلوان والے موسا جی سے کھیل کی مشعل کیوں جلوائی تو اس موقع پر پاکستان کو سمندر سے گہری اور ہمالیہ سے اونچی دوستی نبھانے کو خواہ ایک ایتھلیٹ لے کر ہی جانا پڑا لیکن جانا تو تھا۔

پھر یہ بھی ہے کہ ایسے ہی موقعوں پر سی پیک جیسے اہم منصوبوں پر بات ہوتی ہے، سامنے لوگ باگ کھیلتے کودتے رہتے ہیں اور بڑے بڑے بیٹھ کر اہم نکات سلجھا لیتے ہیں۔

روسی صدر سے بھی ملاقات یوں تو ممکن نہ تھی وہیں مل گئے یقیناً یوکرین سمیت تمام اہم مسائل پر کھڑے کھڑے ہی بات ہو گئی ہو گی۔

عمران خان

ہاں ایک اور کام بھی ہوا کہ جب پاکستانی دستہ آیا تو ان کے لیے تالیاں بجتی دیکھنے کی عینی شہادت بھی حاصل ہوئی اور آٹھ جوڑی تالیاں بھی پیٹی گئیں۔

ہمارے آپ کے سب کے محبوب مرحوم ضیا الحق صاحب بھی اسی طرح کی ڈپلومیسی کے شوقین تھے تب یہ کرکٹ ڈپلومیسی تھی ان کا یہ شوق بڑھا مینگو ڈپلومیسی بنا اور آخر وہی آم انھیں لے بیٹھے۔

نہ تو ہماری عقل اتنی ہے کہ ان باتوں کو سمجھ سکیں اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے کیونکہ جو کھیل کبڈی چل رہا ہے اس میں ہم سے مشورہ کرنے تو کوئی آنے سے رہا لیکن اتنا کہنے کی جسارت ضرور کریں گے کہ اگر اولمپکس ڈپلومیسی کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ایتھلیٹ کسی ملک کے سفیر ہوتے ہیں تو یہ سفیر تیار کیوں نہیں کیے جاتے؟

کیا پاکستان میں صلاحیت کی کمی ہے؟ وسائل، کوچز، پیسہ، مواقع ہر شے موجود ہے۔ وزیر اعظم خود کھلاڑی رہے ہیں اور بات کرتے ہوئے کرکٹ کی اصلاحات استعمال کرتے ہیں، کیا وہ نہیں جانتے کہ پاکستان میں سپورٹس کے شعبے کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟

سنہ 1992 سے آج تک ہم اولمپکس سے ہاتھ جھاڑ کر واپس آتے ہیں۔ سرمائی اولمپکس میں پچھلے دس بارہ سال سے پاکستان کی شرکت اسی طرح ایک آدھ ایتھلیٹ تک ہی محدود ہے۔

سکولز، کالجز سے لے کر ڈپارٹمنٹل سپورٹس (جو کہ اب قصہ پارینہ ہے) تک جو ابتری، بے حسی اور بدحالی طاری ہے اس میں ہنوز کوئی فرق نہیں آیا۔

وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے اور ہم سب کو ماموں بنانے کے ساتھ ساتھ اگر خان صاحب کی حکومت سپورٹس میں جو کہ ان کا اپنا ہی شعبہ تھی، کوئی تبدیلی لے آتی تو کیا ہی بات تھی۔

اگر ایسا ہو جاتا تو چین کے سٹیڈیم میں بیٹھ کر جب وزیراعظم صاحب فرما رہے تھے کہ چین کا لیول ہی کچھ اور ہے تو ہم اپنے آٹھ رکنی حکومتی وفد اور پانچ رکنی دستے اور ایک ایتھلیٹ کو دیکھ کر کھسیا کھسیا کر میمز نہ بنا رہے ہوتے بلکہ سر اٹھا کے اپنے ایتھلیٹس کو دیکھتے تب یہ ڈپلومیسی ہماری سمجھ میں بھی آتی۔

اب تو ہم فقط چین کے لیول اور اپنے لیول پر ہی غور کیے جارہے ہیں اور جانے کب تک غور ہی کرتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments