خدا کی بستی کا خالق تسنیم صدیقی چلا گیا


بہت پرانی بات ہے، اس وقت ہم صحافی کالونی گلشن اقبال میں رہتے تھے۔ اک روز ہمارے گھر میں برسوں سے کام کرنے والی ملازمہ نے ہمیں مطلع کیا کہ اب وہ ہمارے پاس مزید کام نہیں کر سکے گی کیونکہ اس نے سپر ہائی وے پر ”خدا کی بستی“ میں اپنا گھر بنا لیا ہے۔ ہمیں اس کے جا نے کا افسوس تو ہوا لیکن اس کے ساتھ ہی ”خدا کی بستی“ کا نام دماغ سے چپک گیا۔ آخر وہ کون شخص ہو گا جس نے ایک رہائشی کالونی کا نام خدا کی بستی رکھا۔

شوکت صدیقی کی کتاب خدا کی بستی تو ہم نے زمانہ طالب علمی میں پڑھی تھی جس نے ہمارے انقلابی خیالات کو مہمیز لگائی تھی اور ہم انقلاب کے رومان میں سر تا پیر ڈوبے رہتے تھے۔ جب ہم بھٹو کے زمانے میں مساوات میں کام کر رہے تھے تو شوکت صدیقی صاحب ہمارے ایڈیٹر تھے اور تب پی ٹی وی کے بلیک اینڈ وہائٹ والے زمانے میں خدا کی بستی کی ڈرامائی تشکیل بھی ہوئی تھی۔ اس کے ہیرو ثاقب ہمارے ساتھ مساوات میں کام کرتے تھے۔ خیر یہ تو اپنے وقت کا مشہور ترین ناول تھا جس کا دنیا کی کتنی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا تھا لیکن اس نام سے یہ رہائشی بستی کس نے بنائی تھی؟

یقیناً وہ کوئی ترقی پسند، غریب پرور اور عوام دوست شخص ہو گا۔ اور پھر پتہ چلا کہ اس شخص کا نام تسنیم صدیقی ہے، ایک عوام دوست بیورو کریٹ اور سوشل ایکٹیوسٹ۔ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ، اربن ریسورس سنٹر کے ساتھ مل کے انہوں نے بہت کام کیا اور آخر تک عورت فاونڈیشن کے بورڈ ممبر ر ہے۔ 30 جنوری 2022 کو واٹس ایپ پر ایک دوست کا پیغام ملا کہ تسنیم صدیقی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ اور میرے ذہن میں پہلی بات یہی آئی کہ ایک عوام دوست بیورو کریٹ اور خدا کی بستی کا ڈیزائنر چلا گیا۔

1995 میں اس پراجیکٹ پر انہیں آغا خان آرکیٹیکٹ ایوارڈ بھی ملا تھا۔ وہ سندھ کچی آبادی اتھارٹی کے سربراہ تھے۔ یہ وہ محکمہ تھا جس میں کوئی اور بیورو کریٹ نہیں جانا چاہتا تھا کیونکہ اس میں اوپر کی آمدنی نہیں تھی اور تسنیم صاحب تھے کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور محکمے نہیں جانا چاہتے تھے کہ ان کے سر میں ایک ہی دھن سمائی ہوئی تھی کہ ہر غریب کے سر پر چھت ہونی چاہیے۔ نعرے سیاستدانوں نے لگائے، عملی شکل ایک بیورو کریٹ نے دی۔ اسی لئے فلپائن کی حکومت نے انہیں ریمنڈ میگسیسے ایوارڈ دیا اور پاکستان کی حکومت نے ستارہ امتیاز دیا۔

تسنیم صدیقی نے 1965 میں سول سروس میں شمولیت اختیار کی اور بیس سال تک مختلف علاقوں میں خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد انہوں نے سائبان کے نام سے ایک تنظیم بنا کے کچی بستیوں میں کام جاری رکھا۔ پسے اور کچلے ہوئے عوام کے لئے زبانی جمع خرچ تو بہت لوگ کرتے ہیں لیکن عملی کام کم ہی لوگ کرتے ہیں۔ وہ اختر حمید خان کے مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے ساتھیوں میں عارف حسن، پروین رحمان، انور راشد اور شعیب سلطان جیسے لوگ شامل تھے۔

1970 میں جب پاکستان کا انتخاب کرنے والوں کو دوسری ہجرت کرنا پڑی تو مشرقی پاکستان سے بہت سے لوگ کراچی میں اورنگی میں آ کر آباد ہوئے اور اورنگی کو ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی کہا گیا۔ اختر حمید خان نے اورنگی پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا اور تسنیم صدیقی جیسے عوام دوست بیوروکریسی نے ان کا ساتھ دیا۔ اس سے پہلے دونوں مشرقی پاکستان میں قیام کے زمانے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے جہاں اختر حمید خان نے کومیلا پراجیکٹ شروع کیا تھا۔

ان لوگوں کا ترقی کا اپنا نقطۂ نظر تھا اور وہ تھا غریبوں کو سستا انفرا اسٹرکچر اور رہائشی سہولتیں فراہم کرنا۔ اس بارے میں انہوں نے بے تحاشا لکھا بھی۔ میں نے ایمزون پر جا کے ان کی کتابیں ڈھونڈیں تو وہاں تیرہ کتابیں ملیں۔ اس کے علاوہ وہ ڈان میں باقاعدگی سے لکھتے بھی تھے۔ ”ہم پیچھے کیوں رہ گئے“ کے عنوان سے ایک مضمون میں انہوں نے لکھا کہ جنوب مشرقی ایشیا کے بہت سے ممالک نے ایک نسل کے گزرنے سے پہلے ہی ترقی کر لی لیکن ہم بد قسمتی سے ان ممالک میں شامل ہیں جو ترقی نہ کر سکے حالانکہ قیام پاکستان کے ابتدائی چار عشروں میں ہمارا گروتھ ریٹ چھ فی صد رہا اور جنوبی کوریا نے ہمارے پلاننگ ماڈل کی تقلید کی۔

لیکن ایوب خان کا دور ختم ہونے تک یہ بات سب کی سمجھ میں آ گئی تھی کہ اس ترقی کا لاکھوں کروڑوں غریبوں کی زندگیوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ ایوب حکومت کی امتیازی پالیسیوں کی وجہ سے معاشرے میں بہت زیادہ عدم مساوات پیدا ہو گئی تھی۔ ’ٹیک آف‘ کرنے کی بجائے ملک ہی ٹوٹ گیا۔ 2017 میں ایک مضمون ”ہر ایک کا اپنا گھر“ میں انہوں نے لکھا ”اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کرے گا کہ غریبوں کو اپنا مستقبل روشن نظر نہیں آتا۔ ہمارے منصوبہ ساز، اقتصادی ماہرین اور پالیسی ساز غریبوں کی تعداد کے مطابق سستے مکانات فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

جب کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ ہر سال مزید چار لاکھ نئے مکانات کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ گزشتہ دو عشروں میں کسی حکومت نے کوئی ایک رہائشی اسکیم شروع نہیں کی۔ کراچی کی مثال لے لیں، ملیر ہاؤسنگ اسکیم جو ابھی بھی ادھوری اور غیر آباد ہے کہ بعد ابھی تک کوئی رہائشی اسکیم شروع نہیں کی گئی۔ حکومتی سطح پر شہروں میں رہنے والے غریب عوام کے لئے سوشل ہاؤسنگ اور افورڈ ایبل زمین تک رسائی جیسے موضوعات پر جوش و جذبہ دکھانے کی بجائے لا تعلقی اور بیگانگی کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔

شہری آبادی میں تیزی سے اضافے کے باوجود غریبوں کو رہائش فراہم کرنا حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ مسئلہ وسائل یا پیسے کی کمی کا نہیں پولیٹیکل ارادے کی کمی کا ہے۔ حکومتوں کی بے مہری اور لا تعلقی اپنی جگہ لیکن تسنیم صدیقی ساری عمر اسی مشن میں لگے رہے۔ ارتقا انسٹیٹیوٹ نے ان کی یاد میں ایک آن لائن ریفر نس کرایا تو دوستوں نے بتایا کہ ابھی ان کے ذہن میں بہت سے منصوبے تھے لیکن موت نے ان پر عمل کی مہلت نہیں دی۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments