اپوزیشن اور میڈیا کی باسی کڑھی میں ابال


عمران خان کا بطور سربراہ ریاست چین کا دورہ ملک اور معیشت کے حوالے سے کامیاب ترین دوروں میں سے ایک ہے جس میں اربوں ڈالر کے منصوبوں پر دستخط ہوئے اور بیجنگ اولمپکس کے موقعے پر واضح طور پر دنیا کے افق پر ایک نیا بلاک ابھرتا نظر آیا جس میں پاکستان نے اپنا وزن ماضی کے برعکس مغرب کے بجائے چین اور روس کے پلڑے میں ڈالا ہے مگر جن صحافیوں اور سیاست دانوں کو بائی لیٹرل اور ملٹی لیٹرل کا مطلب تک نہیں پتہ وہ بھی بجائے اس دورے کے اثرات و فوائد یا نقصانات پر بات کرتے اس کے بجائے عمران خان کے دورہ چین میں نائب وزیر خارجہ کے استقبال کرنے اور ریاست کی عزت گھٹ جانے، چینی صدر سے ملاقات کی تصویر لیٹ آنے اور دیگر بے مقصد معاملات پر مباحثہ کرتے نظر آئے۔

کسی نے مگر یہ سوال نہیں اٹھایا کہ بیجنگ اولمپکس کے سٹار گیسٹ پیوٹن سمیت دیگر سربراہان کو رسیو کرنے کون آیا تھا ملٹی لیٹرل پروٹوکول کیا ہے چین اور پاکستان نے مشترکہ اعلامیہ کیا جاری کیا، کن کمپنیوں سے اور کیا معاہدے ہوئے، سی پیک کے حوالے سے کیا پراگریس ہوئی، یہ دورہ کس حد تک کامیاب یا ناکام رہا ہاں مگر اس کے بجائے ان سب کی طرف سے منفی پراپیگنڈہ ضرور جاری رہا۔ انتہا یہ ہوئی کہ نون لیگی سینئیر قیادت چینی صدر کے کیے ہوئے دورہ پاکستان پر میاں صاحب کی طرف سے کیے گئے چینی صدر کے استقبال کی تصویر کو گمراہ کن طور پر میاں صاحب کے دورہ چین کی تصویر ظاہر کر کے عمران خان کے چینی دورے سے ملاتی رہی اور جواب میں تحریک انصاف والے میاں صاحب کی دورہ چین کے موقعے پر چین کی مقامی میونسپل کمیٹی کے نائب چیئرمین کے میاں صاحب کے استقبال کے لئے آنے کی تصاویر شیئر کرتے رہے۔

پچھلی حکومت معیشت میں جو بے شمار ٹائم بم لگا کر گئی تھی پچھلے سوا تین سال وہ پھٹتے رہے رہی سہی کسر کرونا وبا نے پوری کردی اور اس کے علاوہ جو باقی تھا اسے چند حکومتی وزراء کی نا اہلیت، ناتجربہ کاری، بد انتظامی، مفاد پرستی اور اقرباء پروری نے عروج پر پہنچا دیا تھا مگر اب حالات بہتری کی جانب گامزن ہیں آئی ایم ایف کی قسط، زر مبادلہ کے ذخائر، ٹیکس کلیکشن، ایکسپورٹس میں اضافہ، امپورٹس میں کمی، ڈیمز اور موبائل مینوفیکچرنگ سمیت کئی نئی صنعتوں کے قیام، صنعتی زونز اور سی پیک کے اگلے مرحلے کے آغاز سمیت لاتعداد ایسے معاملات ہیں جن سے یقینی طور پر آئندہ آنے والے وقت میں نہ صرف ملکی معیشت استحکام کی طرف جائے گی بلکہ عوام کو بھی اچھا خاصا ریلیف ملے گا اور یہی سب دیکھتے ہوئے اپوزیشن دانت تیز کر کے ایک بار پھر ملک اور ملکی وسائل پر ٹوٹ پڑنے، لوٹ مار اور اپنی کرپشن زدہ لوٹی ہوئی دولت بچانے کے لئے اکٹھی ہوتی نظر آ رہی ہے دوسری طرف ذہن سازی پر معمور مخصوص صحافی ایک بار پھر تحریک عدم اعتماد کا شور شرابا کرتے نظر آرہے ہیں جو باسی کڑھی میں ابال کے سوا کچھ نہیں۔

حکومت کی مدت ختم ہونے سے ڈیڑھ پونے دو سال پہلے یہ سوچنا کہ اگلے الیکشن کی تیاری کے لئے اتحادی حکومت کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں خاص کر ق لیگ جس میں ق مقتدر حلقوں کا ہو محض خوش گمانی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں کہ اتحادی یہ حقیقت جانتے ہیں کہ حکومت کی بقایا مدت میں عوام کو ریلیف بھی ملے گا اور معیشت بھی مستحکم ہوگی نیز عمران خان جلسوں کی صورت میں پاور شوز کے لئے بھی تیار ہیں جب کہ ان کے جلد روس اور جرمنی کے دورے بھی شیڈول ہیں ایسے میں فیصلہ سازوں کی مرضی کے خلاف کسی قسم کی ان ہاؤس تبدیلی صرف بلی کے خواب میں چھیچھڑے ہیں کیونکہ اپوزیشن کے پاس اتحادیوں کو تحریک عدم اعتماد لانے کو آفر کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے خاص کر جب یہ شو آف ہینڈ سے ہونی ہو جب کہ یہ بات بھی طے ہے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں عمران خان اسمبلیاں توڑ کر عوام میں چلیں جائیں گے جو کہ نہ تو اتحادیوں کے مفاد میں ہو گا نہ ہی پیپلز پارٹی کے جو کسی صورت سندھ حکومت سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہوگی کہ جس کا نتیجہ ان کی تباہی کی صورت نکلے اور نہ ہی اس وقت کسی بھی سیاسی پارٹی اور نمائندوں کی نئے انتخابات کے لئے تیاری ہے اس لئے مبینہ طور پر سارے شور و غل کا مقصد حکومت پر دباؤ بڑھا کر اسے الجھائے رکھنے، خود کو سیاست میں متعلق رکھنے اور متبادل آپشن کے طور پر دکھانے نیز عدالتی کیسز پر اثر انداز ہونے کے سوا کچھ نہیں جس کا اپوزیشن کو تو کوئی خاص فائدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا ہاں مگر اتحادی مزید وزارتیں اور فوائد حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے اور یہی اتحادیوں کے جعلی سخت تیوروں کا مقصد بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments