مقدس شراب اور اسلامی بینکاری کا نظام


کیا آپ نے کبھی ایسی مقدس، جائز اور شرعی اصولوں کے عین مطابق والی شراب پی ہے جو مدہوش تو کرے مگر اس کی لت نہ پڑے۔ یقینی طور پر آپ کا جواب نفی میں ہو گا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم مسلمانوں نے جمہوریت کو اسلامی جمہوریت اور سودی بینک کے نظام کو اسلامی بینک قرار دے دیا۔ ہم مسلمانوں کو یہی دھوکا دیا گیا ہے کہ اسلامی بینکاری میں اکاؤنٹ کھولنا جائز اور شرعی اصولوں کے عین مطابق ہے۔ مگر اپنی اصل میں اسلامی بینکنگ عیسائی بینکنگ اور یہودی بینکنگ سے ہی مماثلت رکھتی ہے۔ جمہوریت کی طرح سودی نظام کو بھی صرف اسلام کے کپڑے پہنا دیے گئے ہیں۔

اگر اسلامی بینکاری کا نظام دیکھا جائے تو یہ کوئی نئی ایجاد نہ تھی بلکہ جیسے بنی اسرائیل والے اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے مختلف حیلے بہانے کیا کرتے تھے بالکل ایسے ہی عیسائی مذہب کے پروٹسنٹ فرقے نے سودی نظام کو عیسائیت کا لباس پہنا کر پیش کیا۔ جس کو ہم آج اسلامی بینک کا نام دیتے ہیں اس کی ابتدا سولہویں صدی میں ہوئی جب چرچ ساہو کاروں کے ذریعے سے چھوٹے دکانداروں کو فیس لے کر قرضے دیا کرتا تھا۔ اس دعوے کے ساتھ کہ یہ فیس سود نہیں ہے۔ دنیا کے ہر مذہب کی طرح بائبل مقدس میں بھی سود کا کاروبار کرنا حرام قرار دیا گیا ہے۔ سولہویں صدی تک مارکیٹ چرچ کے تسلط میں تھی تو سود کا کاروبار بھی بالکل اسی طرح حرام تھا جیسا کہ اسلام میں ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کو عیسائیت کا رنگ دینے والے یہ کہتے ہیں کہ ایک مناسب حد سے زیادہ interest لینا نہ صرف حرام ہے بلکہ اس سے کاروباری ادارے کی ترقی بھی رک جائے گی اور اس کے ملازمین کو تنخواہیں دینے میں بھی مشکلات آئیں گی جس سے بینکاری کے نظام میں بھی مسائل پیدا ہوں گے اور یہی اسلامی بینکاری کہتی ہے۔

یہ بات ہے پندرہویں صدی کی جب ایک عیسائی بزرگ سینٹ اینٹونیو کی جس نے پہلی دفعہ سود کو حلال قرار دینے کی بحث کا آغاز کیا۔ اس نے وہی بنیادی سوال اٹھایا جو آج کے جدیدیت کے علمبردار مسلم اکنامکس کے ماہرین اٹھاتے ہیں کہ سود کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟ سود کی تعریف کو لچکدار بنانا کئی عیسائی علما کی تعلیمات کا حصہ بننے لگا۔ ان میں سب سے اہم کیلون اور Bucer کے نام سولہویں صدی میں خاصے مشہور ہوئے۔ قدیم عیسائی تعلیمات سود سے مراد ربا ہی لیتی تھی اور اسی کے تحت تمام معاہدات عمل میں آتے تھے۔ عیسائیت کے ابتدائی سرمایہ داروں نے ربا کی تعریف اتنی پیچیدہ بنا دی کہ ربا اور بیع میں فرق کرنا ہی بذات خود مشکل ہو گیا۔ اگرچہ روایتی عیسائی علما نے اس بارے میں فتوے بھی دیے مگر ان کی بات سنی ان سنی کردی گئی۔ پہلے مارکیٹ پر مکمل طور پر چرچ جیسا ادارہ موجود تھا مگر اب کی بار مارکیٹ کو مکمل طور پر چرچ سے آزاد کر کے فری مارکیٹ کا نام دے دیا گیا۔ یہ بات ہے 1515 کی جب عیسائی پیشواؤں نے مختلف معاہدات تشکیل دیے جن کو آج اسلامی نام دیے جاتے ہیں مثال کے طور پر مرابحہ، اجارہ، سلم، سکوک، بیع الدین وغیرہ۔ یہ سب عیسائی پادریوں کی ایجاد کردہ تعریفیں ہیں اور آج مسلم ماہرین ان سب کو اسلامی رنگ دیتے ہیں۔

چونکہ پروٹسٹنٹ فرقہ ریاست برطانیہ میں اکثریت میں تھا اسی لیے 1571 کے بعد سے برطانوی پارلیمنٹ نے سود کو حلال قرار دیا۔ اس قانون میں پہلی دفعہusuary اور interst کا فرق واضح کیا گیا۔ Usuary سے مراد وہ سود لیا گیا جو حکومت کی متعین کردہ شرح سے زیادہ ہو جبکہ اس حد کے اندر رہتے ہوئے جو معاہدات اور معاملات کیے جائیں گے وہ interest کے زمرے میں آئیں گے اور قانونی طور پر جائز ہوں گے۔ سولہویں صدی کے وسط میں سول سوسائٹی اور پروٹسٹنٹ عیسائی ان دونوں کے مختلف ہونے پر علمی دلائل دینے لگے۔

انہی دلائل کی بنیاد پر 1590 میں Berenberg بینک جرمنی اور 1664 میں child and co کی برطانیہ میں بنیاد پڑی اور ان سب بینکوں کو کنٹرول اینڈ ریگولیٹ کرنے کے لیے ہر ملک میں ایک سینٹرل بینک کی بنیاد پڑی جو اپنے ملک کے بینکوں کے لیے پالیسیاں بناتے ہیں۔ ملکی سطح پر پہلے سنٹرل بینک کی بنیاد 1694 میں بینک آف انگلینڈ کے نام سے پڑی۔ اب ہر ملک میں سنٹرل بنک بنتے جا رہے تھے تو اس بات کی ضرورت پیش آئی کہ ان تمام سنٹرل بینکوں کے اوپر بھی ایک بینک ہونا چاہیے۔ اسی کے پیش نظر 1944 میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا قیام عمل میں لایا گیا۔ کوئی بھی بنک چاہے روایتی ہو یا اسلامی ان کی تمام پالیسیاں یہی ادارے طے کرتے ہیں۔

ایسے میں مسلمان سکالرز کے لیے ضروری تھا کہ اسلامی معیشت کو سرمایہ دارانہ نظام میں سمویا جا سکے چنانچہ اسلامی معیشت دانوں کے بورڈ تشکیل پائے۔ اسلامی بینک سب سے پہلے 1963 میں ملائیشیا اور 1972 میں قاہرہ میں کھولا گیا۔ پاکستان میں 1991 میں نواز شریف نے نجی بینکوں کے قیام کی اجازت دے دی تو اس سے اسلامی بینکنگ کی راہ ہموار ہو گئی۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک نے بھی اس بات کی اجازت دے دی۔ ان دونوں اداروں بشمول سٹیٹ بنک آف پاکستان نے بھی اسلامی سود کاری کے فروغ کے لیے حوصلہ افزائی کی۔ ایک مارکیٹ کے سروے کے مطابق لوگ اسلامی بینک اور روایتی بینک دونوں میں اپنے اکاؤنٹ کھولتے ہیں۔ اسلامی اور روایتی بینکوں کی سالانہ متعین شرح ادائیگی میں حیرت انگیز حد تک مطابقت ہے۔ اسلامی بینکوں کا نوے فیصد کاروبار روایتی معاہدوں کے تحت عمل میں آتا ہے جیسا کہ مارک اپ، اجارہ، مشارکہ، سلام اور استثنیٰ۔ اگر روایتی بینک ان کاروباروں میں انویسٹ کرتے ہیں جو شریعت میں حرام ہیں تو اسلامی بینک ان کاروباروں میں انویسٹ کرتے ہیں جو شریعت میں حلال ہیں۔ اسی طرح تمام بینک جو سالانہ زکوة کاٹ لیتے ہیں وہ بھی شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے

جبکہ پاکستان کے علما کہتے ہیں کہ یہ جائز نہیں کہ غیر شرعی اعمال کو اس لیے جائز قرار دیا جائے کہ ان کا استعمال اب ناگزیر ہو چکا ہے۔ اسلامی بینکاری میں رائج شدہ معاہدات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عام سرمایہ دارانہ فنانشل مارکیٹوں سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اسلامی بینکوں کا کاروبار مرابحہ اور اجارہ کی بنیاد پر ہیں جبکہ یہ سراسر حیلے ہیں۔ اسلامی بینکوں کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ مرابحہ اور اجارہ سود کو مخفی رکھنے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ اسی طرح اسلامی بینک اپنے کاروباری معاہدات میں حلال اور حرام طریقوں کو باہم مربوط کرتے ہیں جو کہ شرعی طور پر حرام ہے۔ جبکہ اسلامی بینک کے اکاؤنٹ ہولڈر کو سٹیٹ بینک کی تمام شرائط کو من و عن قبول کرنا پڑتا ہے اور یہ پیپر عام طور پر انگریزی میں لکھے جاتے ہیں۔ پاکستان کی اکثریتی عوام اتنی پڑھی لکھی نہیں ہے کہ ان معاہدات کی روح کو صحیح سے جان سکیں اور پبلک بغیر پڑھے ان پر دستخط کر دیتی ہے۔

اس وقت دنیا کے بڑے بڑے ملٹی نیشنل بینکوں نے بھی اپنی اسلامی برانچیں کھول رکھی ہیں۔ اور اب یہودی اسلامی بینک، ہندو اسلامی بینک اور دہریہ اسلامی بینک پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں۔ جن سے اربوں ڈالرز اسلامی کھاتہ داروں سے یورپ اور امریکہ کی مالیاتی اور سٹہ باز منڈیوں میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔

یہ وہ مقدس شراب ہے جو مسلمانوں کو اسلامی بینک کی صورت میں پلائی جا رہی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ عالم اسلام میں کوئی ایک بھی ایسا نظام بھی نہیں آیا جو سودی بینکاری کے نظام کو ٹکر دے سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments