ہماری بنیادی غلطی اور اس کے نتائج‎


اقوام عالم کی تاریخ میں بے شمار تحریکات اس عزم اور ارادے کے ساتھ منصہ شہود پر نمودار ہوئیں جن کا مدعا موجودہ نظام کی بساط لپیٹ کر ایک نئے نظام کی داغ بیل ڈالنا ہوتی تھی۔ ان تحریکات سے وابستہ افراد اس نظریے کے تحت اکٹھے ہوتے تھے، کہ موجودہ بندوبست بحیثیت مجموعی معاشرے کے تمام افراد کو یکساں تحفظ، قانون، صحت، تعلیم اور روز گار جیسی بنیادی سہولیات دینے میں یکسر ناکام ہو چکا ہے، لہذا وقت کا تقاضا یہی ہے کہ اس موجودہ بندوبست کو ختم کر کے ایک نئے نظام کی بنیاد ڈالی جائے جو ان نقائص سے مبرا ہونے کے ساتھ ساتھ تمام طبقات کو مساویانہ اعتبار سے دیکھے اور کسی بھی قسم کی لسانی، قومی، علاقائی اور مذہبی ترجیحات سے بلند ہو۔

اگر ہم ان تحریکات کا بنظر غائر اس نکتہ نظر سے جائزہ لیں کہ ان تحریکات کے اندر جو بنیادی قیادت کی باگ ڈور سنبھالنے والے افراد تھے، وہ عوامی جذبات کے بحر بے کنار میں تلاطم پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ، اس عمل سے بھی قطعاً غافل نہ تھے کہ اس عبوری دور یا عرصہ کے اندر ایسے رجال کار کو تیار کیا جائے، جو آنے والے بندوبست کو بطریق احسن چلا سکنے کی صلاحیت سے متصف ہوں۔ کیونکہ تحریک کی قیادت اس بات سے بخوبی آگاہ ہوتی ہے کہ، موجودہ غیر منصفانہ اور تفرقہ بازی جیسے رذائل سے مکدر نظام سے حقیقی معنی میں نجات تبھی ممکن ہے، جب اس نظام کی بساط افراد سمیت لپیٹ دی جائے۔ وگرنہ متروکہ نظام سے وابستہ افراد کو ہی لے کر نظام سلطنت چلایا گیا، تو معاشرہ حقیقی فوائد سے بدستور محروم رہے گا۔

اس کی ایک عمدہ مثال تحریک ریشمی رومال ہے، جس میں برصغیر کے اصحاب حریت نے کابل میں بیٹھ کر ایک عبوری حکومت کا نقشہ ترتیب دیا تھا، جو ہندوستان میں انگریزی سلطنت کی بیخ کنی کرنے کے بعد ایک صالح نظام کی داغ بیل ڈالے گا، ۔ جو ظلم کی چکی میں پستی ہندوستانی قوم کے اندر منصفانہ بنیادوں کے اندر وسائل کو تقسیم کرے گا۔ تاہم انگریز کے پالے ہوئے ازلی سگان با وفا کی مہربانی سے وہ راز قبل از وقت طشت از بام ہو گیا اور یوں یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا۔

تاہم اس کے باوجود یہ امر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اس تحریک کی قیادت اس بات سے ہر گز غافل نہیں تھی۔ اس کے ساتھ تحریک آزادی کی سب سے بڑی آواز انڈین نیشنل کانگرس نے بھی انیس صد چھیالیس سے ہی مجوزہ ہندوستان کے مستقبل کے آئین کے متعلق کام شروع کر دیا تھا، تاکہ جیسے ہی غاصب حکمران یہاں سے رخصت ہو تو کسی انتظار یا خلل کے بغیر ریاست اپنا کام شروع کردے۔

تاہم عین اسی وقت جب سیاست کے سمندر میں تلاطم عروج پر تھا، اور انڈیا کے مسلمانوں کو ایک نئے ملک کا مژدہ جانفزا سنایا جا رہا تھا، تو اس وقت آل انڈیا مسلم لیگ اپنے اس فرض سے پہلو تہی برتتی رہی، اور جذبات کو مسحور کن نعروں اور تعقل کو اسلامی نظام کے نام سے گمراہ کرنے میں مصروف رہی۔ اس سنگین غلطی کا خمیازہ قوم نے اس وقت بھگتا، جب پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی اس بات کا احساس ہوا کہ نوزائیدہ مملکت کا آئین کیا ہو۔

لہذا لاکھوں نفوس کو اسلام کے خوشنما نعرے کی بھینٹ چڑھانے کے بعد ابتداء میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ عارضی طور پر اس ملک پہ قابض رہے ناجائز حکمرانوں کا چھوڑا ہوا آئین ہی نافذ کر کے کام چلایا جائے گا، تاہم بعد میں مقننہ ملک کے اپنے آئین کو تیار کر کے اس کو نافذ کرے گی۔ مگر اس کے بعد اقتدار کے بھوکے، دولت کے حریص، انگریز افسر شاہی کے سدھائے ہوئے بونوں نے، وہ اتھل پتھل مچائی کہ بس توبہ ہی بھلی۔ تاہم اتنی رکاوٹوں اور پریشانیوں کے باوجود بھی، جب یہ سر زمین بے آئین کو انیس صد چھپن کے اندر پہلا آئین ملا، تو اس کے ساتھ ہی ایک مرتبہ پھر ناجائز حکمرانوں کے سدھائے ہوئے، اسکندر مرزا اور ایوب خان نے شب خون مارتے ہوئے، محض دو سال کے اندر ہی اس کی بساط لپیٹ کر یہاں کی جمہوریت پسند قوتوں کو تاریکی میں دھکیل دیا، اور کچھ عرصے کے بعد نتیجہ سقوط ڈھاکہ کی صورت میں نمودار ہوا۔

اسے ہم قدرت کی مہربانی سے تعبیر کریں تو بے جا نہ ہو گا کہ ملک ٹوٹنے کے بعد نئی آنے والی سیاسی قیادت نے بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے ملک کو ایک متفقہ آئین دیا، جو اپنے نفاذ سے لے کر آج تک غیر جمہوری، آمرانہ سوچ کی حامل اور شخصی اقتدار کی رسیا جماعتوں اور شخصیات کے ہاتھوں مشق ستم بنتا ہوا آ رہا ہے۔ تاہم اس کے اندر حالیہ واردات کچھ عرصہ قبل اس وقت ڈالی کئی، جب جناب عمران خان صاحب نے، قوم کو ایک مرتبہ پھر اسلامی نظام کے نام پر متحرک کر کے ایک نئے انقلاب کی نوید سنا کر، نوجوان نسل کے لہو کو اس طور گرمایا، کہ ان کے اندر سے عقل جیسی بنیادی صفت ہی سلب ہو گئی۔

شب و روز قوم کو انقلاب کے بھاشن دینے والے، جب اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوئے تو معلوم ہوا کہ، انقلاب کا نعرہ لگانے والی جماعت نہ صرف صالح رجال کار سے محروم ہے، بلکہ ان کے پاس تو قوم کو محض نعروں پر ٹرخانے کے سوا کچھ نہیں۔ اور اس غلطی کا خمیازہ جس طرح ہم بھگت رہے ہیں، وہ بیان محتاج نہیں۔ لہذا جب بھی کوئی جماعت انقلاب کا غلغلہ بلند کر کے میدان میں آئے، تو ہمیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے، کہ اس جماعت کے رجال کار کون ہیں، اور ان کے پاس نظام چلانے کی صلاحیت کتنی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments