وہ بوڑھا جو کرایہ ادا نہ کر سکنے پر بے گھر ہوا


ایک 94 سالہ بوڑھا ایک معمولی سے کمرے میں رہائش پذیر تھا اور کئی ماہ سے اس کا کرایہ ادا نہیں کر پا رہا تھا۔ مالک مکان نے تنگ آ کر اسے سامان سمیت گھر سے نکال دیا۔ سامان تھا بھی کتنا ایک چارپائی اور تھوڑا سا اور سامان۔ اس نے مالک مکان کی منت کی کہ وہ کرایہ ادا کر دے گا، اسے مکان ہی میں رہنے دیا جائے۔ ہمسایوں نے بھی سفارش کی کہ اتنا بوڑھا آدمی کہاں جائے گا اسے واپس مکان میں رکھ لو۔ مالک مکان نے طوہاً و کرہاً اسے مکان میں رکھ لیا۔

وہاں سے اتفاق سے ایک صحافی گذر رہا تھا جس نے یہ واقعہ آنکھوں سے دیکھا۔ اس نے بوڑھے آدمی کی اور مکان کی چند تصویریں بنائیں تاکہ ایک بوڑھے آدمی پر ہونے والے اس ظلم کو اپنے اخبار کی زینت بنا سکے۔ ساتھ اس نے خبر کے لئے یہ ہیڈنگ بھی سوچی “ظالم مالک مکان نے پیسوں کے لئے بوڑھے شخص کو گھر سے نکال دیا”۔

خبر اور تصویریں لے کر وہ اپنے اخبار کے ایڈیٹر کے پاس پہنچا اور اخبار کے مالک کو سارا واقعہ گوش گزار کیا۔ اخبار کا مالک تصاویر دیکھ کر چونک اٹھا اس نے صحافی سے پوچھا کہ وہ اس بوڑھے آدمی کو جانتا ہے؟ صحافی نے نفی میں سر ہلا دیا۔

دوسرے دن اخبار کے پہلے صفحے پر اس شخص کے نام اور بہت ہی اہم سابق عہدوں کے ساتھ ایک خبر نمایاں تھی۔ خبر کی تفصیل میں درج تھا کہ اتنے اہم عہدوں پر رہنے والے شخص کے پاس اپنا گھر بھی نہیں اور وہ کرایہ بھی ادا نہیں کر پا رہا اور کیسے اسےگھر سے نکال دیا گیا تھا۔

خبر چھپنے کے بعد سرکار حرکت میں آئی اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں پر مشتمل ایک قافلہ اس گھر تک پہنچا۔ وی آئی پی لوگوں کے وہاں پہنچنے پر مالک مکان کو پتہ چلا کہ یہ بوڑھا شخص دراصل دو دفعہ مختصر عرصے کے لئے ہندوستان کا وزیراعظم رہنے کے علاوہ ایک طویل عرصہ وزیر رہنے والا ماہر معاشیات گلزاری لال نندا ہے۔ مالک مکان ان کے پاوں میں گر گیا اور اپنی بدسلوکی کی معافی مانگی۔ حکومت کی طرف سے بھیجے گئے لوگوں نے نندا صاحب سے درخواست کی کہ وہ سرکاری رہائش گاہ اور سہولیات قبول کرلیں جو انہوں نے ٹھکرا دیں کہ میں بوڑھا ان سہولتوں کا کیا کروں گا؟

گلزاری لال نندا کے لئے 500 روپے لاونس موجود تھا جسے پہلے انہوں نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ انہوں نے اس الاونس کے لئے آزادی کی جدوجہد نہیں کی تھی۔ پھر دوستوں کے سمجھانے پر کہ آپ کا کوئی اور ذریعہ آمدنی نہیں، انہوں نے یہ 500 روپے لینا منظور کر لئے تھے جن سے وہ اپنے روزمرہ کےمعمولی اخراجات ادا کرنے کے کسی حد تک قابل ہو سکے تھے۔

گلزاری لال نندا سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ وہ دو دفعہ جواہر لال نہرو اور لال بہادر شاستری کی وفات کے بعد (دونوں دفعہ) تیرہ تیرہ دن کے لئے ہندوستان کے عبوری وزیراعظم بنائے گئے۔ اس کے علاوہ تقسیم سے پہلے بمبئی لیجیسلیٹو اسمبلی کے ممبر، مختلف اوقات میں منصوبہ بندی، بجلی، محنت وروزگار اور ہندوستان کے وزیر داخلہ بھی رہے۔

انہیں 1997 میں ہندوستان کے اعلی ترین سرکاری اعزاز بھارت رتن سے نوازا گیا اور وہ اس سے اگلے سال 99 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ ہندوستان کے محکمہ ڈاک نے ان کے اعزاز میں ایک ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔

(یہ تحریر سنجے مشرا کے ایک مضمون سے متاثر ہو کر مختلف ماخذ کی مدد سے لکھی گئی۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments