کرونا وائرس اور پاکستانی عوام کا رویہ


اس وبا نے پاکستان سمیت پوری دنیا میں زندگی کو لاحق خدشات کی سنگینی میں خطرناک حد تک اضافہ کیا ہے۔ لاکھوں زندگیاں نگلنے کے بعد بھی، اب تک یہ وائرس اپنا خوف انسانوں کے دل و دماغ پر بنائے ہوئے ہے۔ اس سے متاثرہ اور محفوظ افراد کا اس وبائی مرض کے بارے میں رویہ جانچتے ہوئے بہت دلچسپ حقائق دریافت ہوئے ہیں۔ پاکستان کے مختلف شہروں اور دیہاتوں سے مرد و خواتین اور نوجوانوں کی رائے پر مشتمل اعداد و شمار کے مطابق تقریباً ساڑھے سات سو سے زائد افراد پر مشتمل سروے ترتیب دیا گیا ہے۔ مشہور اور قابل اعتماد ادارے گیلپ پاکستان کی اس سروے رپورٹ میں بلحاظ عمر، جنس اور محل وقوع ان آراء کو پرکھا گیا ہے۔

سائنسی کلیات کے مطابق اس تحقیقی مواد کو پچانوے فیصد درجہ اعتماد کے ساتھ ملک کی کل آبادی کا مجموعی اظہار رائے تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ عالمگیر تباہی کے باوجود اس تحقیق میں شامل تقریباً اکسٹھ فیصد پاکستانیوں کا کہنا تھا کے کرونا وائرس کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے اور یہ اتنا پریشان کن معاملہ نہیں ہے۔ ان میں تقریباً اکتالیس فیصد افراد ایسے بھی ہیں جن کے مطابق کرونا وائرس کوئی مغربی سازش معلوم ہوتی ہے۔ کاش اس بارے میں مزید تفصیلات حاصل کرنے کی گنجائش ہوتی تو ان افراد سے دریافت کیا جاتا کے وہ ایسا کیوں سوچتے ہیں۔

خیر ٹیکنالوجی کا دور ہے کچھ بھی ممکن ہے۔ موبائل فون جیسی ایجاد نو کے حامل بیشتر افراد نے کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسین کی کم سے کم ایک خوراک ضرور لی ہے۔ بیشتر افراد کرونا وائرس کے بارے میں حکومتی اقدامات سے ناخوش معلوم ہوتے ہیں۔ ہر چار میں سے ایک پاکستانی جو کل آبادی کا تقریباً پچیس فیصد ہے یہ سوچتے ہیں کے کرونا وائرس پاکستان سے ختم ہو چکا ہے دلچسپ بات یہ بھی ہے کے دیہی آبادی کے مقابلے میں شہری آبادی کا چونسٹھ فیصد حصہ کرونا وائرس کو ایک ڈھونگ سمجھتا ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ شاید دیہی آبادی کو دقیانوسی تصور کیے جانے کو حذف کر دینے کا اس سے صحیح وقت اور کبھی نہیں ہو گا

عمر رسیدہ افراد نے اس سروے رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس کے لیے حکومتی اقدامات کو ناقص قرار دیا ہے اور اس کا ذمہ دار عمران خان کو ٹھہرایا ہے۔ وائرس کے خدشات کے بارے میں گزشتہ چار ماہ میں یہ دیکھا جا رہا ہے کے لوگوں نے کرونا وائرس کی پر خطر لہروں کو سنجیدگی سے لینا چھوڑ دیا ہے۔ اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ یہ محض ایک ڈھونگ ہے۔ ایسے افراد کی تعداد میں اگست دو ہزار اکیس سے لے کر جنوری دو ہزار بائیس تک پچیس سے تیس فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ اسی لیے اب ماسک کا استعمال اتنی پابندی سے نہیں کیا جا رہا ، سماجی فاصلے کا خیال نہیں رکھا جا رہا اور یہ گمان کیا جا رہا ہے کے اب کورونا وائرس زندگی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

اس سروے کے بین الصوبائی اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کورونا وائرس کے اثرات کو آغاز سے لے کر گزشتہ ماہ تک صوبہ سندھ سب سے زیادہ غیرسنجیدگی سے لیتا رہا ہے شماریاتی جائزہ بتاتا ہے کے سندھ کی عوام کا تقریباً پینسٹھ فیصد حصہ یہ مانتا ہے کے مہلک اثرات کو بڑھا چڑھا کر بتایا جا رہا ہے۔ بلحاظ جنس مردوں کے مقابلے میں خواتین کی زیادہ تعداد اپنے خاندان کے افراد کی صحت کے بارے میں فکر مند معلوم ہوتی ہے۔ اور انہیں لگتا ہے کے ان کے خاندان میں ممکنہ طور پر کسی نہ کسی کو کورونا وائرس لاحق ہوا ہے۔

گزشتہ سات دنوں میں بیشتر افراد نے کرونا وائرس کے اثرات کے نتیجے میں متاثر ہونے والی گھریلو معیشت کو استحکام فراہم کرنے کے لیے اضافی رقم کمانے کے طریقے تلاش کیے ہیں بیشتر افراد نے دوست یا رشتے داروں سے کھانے کے لیے مدد طلب کی ہے اسی طرح دیگر آبادی میں تیس سال سے کم عمر افراد پر مشتمل آبادی کا تینتالیس فیصد حصہ اب تک کرونا وائرس کو بین الاقوامی سازش سمجھتا ہے اور پچاس سال سے زائد افراد پر مشتمل پاکستانی آبادی کا خیال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ اتنی ہلاکتوں اور اتنے طویل عرصے تک زندگی کے منجمد رہنے کے بعد بھی اگر عوامی رویہ ایسا مایوس کن ہے تو مستقبل میں ہم قومی سطح پر لاحق خطرات کا مقابلہ کیسے کریں گے۔ یہ ایک قابل فکر معاملہ ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments