تخت اور تختہ کے درمیان

اشعر رحمان - صحافی



وہ جیسے ایک صاحب یہاں فرمایا کرتے تھے ‘مبارک ہو، مبارک ہو!‘ بالآخر اپوزیشن اس بات پر متفق ہو گئی ہے کہ عمران خان حکومت سے نجات کا بہتر راستہ تحریک عدم اعتماد ہے۔ 

یہ کافی عرصے سے پاکستان پیپلز پارٹی کی پوزیشن تھی جس میں اب مولانا فضل الرحمان اور میاں نواز شریف کی تائید شامل ہو گئی ہے۔ لیکن یہ مہم کب کامیابی سے ہمکنار ہوگی، محترم قائدینِ حزب اختلاف، اس بات پر ابھی خاموش ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کے ہم ان لیڈران کی پھرتیوں کے کئی ادوار میں سے گزر کر ہی اس جگہ پہنچیں گے جہاں حکومت بس جاتی نظر آئے گی۔

میاں شہباز شریف اپنی پارٹی میں، پیپلز پارٹی سے اتحاد کے ساتھ آگے بڑھنے کے سب سے بڑے حمایتی ہیں۔ جمعے کو لاہور میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے اجلاس کہ بعد وہ یہ کہتے پائے گئے کہ عوام آسمانوں سے کسی مسیحا کی آمدُ کا انتظار کر رہے ہیں جو انھیں عمران حکومت سے نجات دلائے۔

اس ایک جملے سے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے حزب اختلاف کے قابل رہنما بھی مکے دہندہ کے انتظار میں ہیں۔

ظاہر ہے جب وہ خود اس طرح کے تجزیے فرمائیں گے تو عام ناظر بھی اپنے پرانے فقرے دوہرا نے پر مجبور ہوگا۔ ‘او سر جی شہباز صاحب یہ آپ کس کو سنا رہے ہیں؟ انھی کو جن کے لیے وزیر اعظم صاحب کچھ دن پہلے یہ کہتے پائے گئے تھے کہ سڑکوں پر میں زیادہ خطرناک ثابت ہوں گا۔‘

پھر وہی کہانی جہاں صحافی سیاستدان سے یہ پوچھنے پر مجبور ہے کہ ‘او میرے بھائی، او بی بی، آپ کی بات اوپر ہوگئی ہے یا آپ ایسے ہی غل غپاڑہ کرنے آ گئے ہیں مزید ایک بار۔‘

ایک بار پھر حکومت یہ ثابت کرنے میں لگ گئی ہے کہ یہاں سب کچھ کشل منگل ہے اور یہ واویلہ دیوانوں کی چیخوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اور پھر حکومت حالات کو نارمل ثابت کرنے کے لیے جو جتن کر رہی ہے وہ اپنے آپ میں جدید مزاح سے ایک تعارف ہے۔

پاکستان کی ایسی تاریخ کے انتہائی مضحکہ خیز مناظر میں ایک اور اچھوتے منظر کا اضافہ ہورہا ہے۔

بے شمار دستے ہیں جو دارالخلافہ پر چڑھائی کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ خود دارالخلافہ میں اس وقت ایک عجیب و غریب کھیل جاری ہے۔ بادشاہ کا کون سا درباری اس کھیل میں کتنے نمبر حاصل کرتا ہے اس پہ لڑائی ہے۔

ملک ملتان کا ایک سکہ بند شاہ نما مصر ہے، ناراض ہے، چلا رہا ہے، ‘میرا نمبر سب سے اوپر ہے۔ خبردار اگر کوئی اور اس مقابلہ میں مجھ سے آگے دکھائی دیا۔‘

یہ درست ہے کہ حکومت کی طرف سے بھی وزیروں مشیروں کا ایک جم غفیر اس وقت ایک شدت کے ساتھ اپوزیشن سے دستُ و گریباں ہے مگر پھر بھی دیکھنے والے حکومتی صفوں میں ‘ہنوز دلی دور است‘ والی کیفیت میں مبتلا سورماؤں کی بڑی تعداد دیکھ رہے ہیں۔

یاد دلایا جا رہا ہے کہ بادلوں کا اس طرح تخت عمران پر چھانا اور پھر بن برسے گزر جانا ایک عام سی بات ہے۔ اس بار بھی کچھ نہیں ہوگا کی گردان جاری ہے اور اور ایک مرتبہ پھر عوام الناس کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو اپوزیشن کے اسلام آباد پر فیصلہ کن دھاوے کی راہ میں حائل ہیں۔

اپوزیشن کی ایک بڑی کمزوری اس کے بے ترتیب خیموں میں موجود انسانی سرمائے میں چھوٹے بڑے کی تمیز قائم نہ کرنا ہے۔ کون بڑا پارٹنر ہے اور کون چھوٹا اور اس لحاظ سے کون کس قدر ذمہ داری اور کتنی قیادت کا حقدار ہے، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون میں موجودہ مطابقت کے حوالہ سے یہ کہنا مشکل ہے کہ کس موقع پر اور کب دونوں میں سے کوئی ایک پارٹی دوسری پارٹی کو بڑا بھائی مان کے اس کی قیادت کا حق تسلیم کر لے گی۔

کسی بھی اتحاد میں اوپر کی سطح پر اس طرح کی واضح تقسیم کا نہ ہونا کئی خرابیاں پیدا کر سکتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ ایک ڈھیلا ڈھالا اتحاد اتحادیوں کو یہ سہولت بھی فراہم کر سکتا ہے جہاں وہ عین موقع پر لیڈ کرنے کی ذمہ داری ایک ساتھی اتحادی پر ڈال کر خود سائیڈ پر ہو جائیں۔ شاید ایسا ہی پی پی اور ن لیگ ایک دوسرے کے ساتھ کرتی آ رہی ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں کے ‘پہلے آپ پہلے آپ‘ نے ہمارے پیارے مولانا فضل کو کئی بار زچ کیا ہے۔

اور شاید یہ ہی حکومتی گولا باری مشینری کے ہاتھ میں اپوزیشن کے خلاف سب سے موثر ہتھیار بھی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بظاہر تو لٹیروں کے ایک جگہ پر جمع ہو جانے سے خوش دکھائی دیتے ہیں مگر ان کہ لیے یقیناً وہ حقیقت زیادہ خوش کن ہے کہ باطن میں پی پی اور ن لیگ نہ صرف یہ کہ الگ ہیں، بلکہ اہم مواقع، جیسا کہ سینیٹ میں ایک بہت نازک بل پر ووٹنگ کے وقت پی پی اور ن لیگ کے درمیان یہ شگاف ایک بڑی خلیج کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

اپوزیشن کی اس کمزوری اور دیگر مسائل کے باوجود، اس کا کہنا ہے کے اس بار وہ تہیہ کر کے نکلی ہے کسی کو اکھاڑ پھینکنے کا۔

ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی کچھ خاص حالات حکومت کو درپیش ہیں جو حکومتوں کے جانے کا پیش خیمہ ہوا کرتے ہیں۔ مستقبل میں کچھ خاص عہدیداروں، جرنیلوں وغیرہ، کو لے کر کچھ تبدیلیاں ہونے والی ہیں جن کی وجہ سے اسلام آباد میں ہلچل بپا کی جا سکتی ہے یا کم از کم کسی بڑی تبدیلی کی امید کی جا سکتی ہے۔

جب جب ہمارے ملک کی سیاست اس موڑ سے گزری ہے وہاں وہاں سیاسی تبصروں میں نسبتاً چھپی ہوئی مگر سیاسی طور پر بہت ہی اہم شخصیات کے کیمپ نقشے پر بہت زیادہ عیاں ہو جاتے ہیں۔

کون سا وزیر اعظم یا وزارت عظمی کا کون سا امیدوار کس شخصیت کو کس قدر اہم عہدہ پر دیکھنا چاہتا ہے، کس وزیر اعظم نے کتنے روز تک کس شخصیت کی ایک سفارش پر مزاحمت کی تھی؟ یہ سب باتیں سیاسی گفتگو کو ایک ایسی سمت میں موڑنے کی طاقت رکھتی ہیں جہاں قومی سیاست محض چند شخصیات میں سمٹ کر رہ جاتی ہے۔

حکومت میں موجود کھلنڈرے وزیر اور وزارت خارجہ میں ان کے ہانپتے کانپتے ڈانٹتے ڈپٹتے مد مقابل اپنے زعم میں چاہے کتنے ہی پوائنٹس اپنے کھاتوں میں ڈس لیں، آخر میں ان کے لیڈر کو اصل امتحان میں خود ہی ممتحنوں کے آگے پیش ہونا پڑتا ہے۔

اپوزیشن کا کہنا ہے وہ براہ راست عمران خان پر وار کرنا چاہتے ہیں۔ پرانا طریقہ جہاں عدم اعتماد کی تحریک پہلے سپیکر کے خلاف لائی جاتی تھی تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ وزیر عظم کے خلاف یہ وار کتنا کاری ثابت ہوگا، اس بار ترک کیا جا سکتا ہے۔

لگتا یہ ہے کہ اپوزیشن کم سے کم وقت میں اس کام کو انجام دینا چاہتی ہے کیونکہ اس کو خطرہ ہے کہ اگر وقت ملا تو حکومت اپنی صف میں ہوئے کسی بھی نقصان پہ قابو پا کر عمران خان پر حملے کو پسپا کر نے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یعنی کہ انھی تک پیغامات کی سہولت سب کے لیے کھلی ہے اور شاید ابھی وہ آخری فیصلہ ہونا باقی ہے جس کے بعد تخت تختہ ہو جایا کرتا ہے۔

اشعر رحمان
Latest posts by اشعر رحمان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments