یوکرین


یوکرین، بیلا روس اور روس کو روسی سلطنت میں ہمیشہ بنیادی اکائیوں کی حیثیت حاصل رہی۔ روسی تہذیب کی ابتدا ہی یوکرین کے علاقے سے ہوئی۔ سوویت دور میں ان تین علاقوں کے علاوہ 11 سوویت جمہوریتیں بھی روسی سلطنت میں شامل تھیں۔ حقیقتاً تاریخی اعتبار سے زاروں کے دور میں بھی اس علاقے کی مرکزی حیثیت برقرار رہی۔ سٹالن کا بذات خود تعلق ہی کریمیا کے علاقے سے تھا۔ اور آخری سوویت صدر گورباچوف جن کی صدارت میں سوویت سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی اور اس سے گیارہ ملک برآمد ہو گئے جن میں بیلاروس اور یوکرین بھی شامل تھے۔

1956 میں اس وقت کے روسی صدر کے جی میں جانے کیا آیا اور ان کی سخاوت نے کچھ ایسا زور مارا کہ صدیوں سے روس میں شامل کریمیا کو یوکرین کو تحفتاً عطا فرما دیا۔ اس وقت تو خیر کوئی فرق نہ پڑا کہ یوکرین بھی تو اسی طرح روس تھا جیسے خود موجودہ روس۔ لیکن جب 1991 میں سوویت روس تتر بتر ہوا تو یوکرین کے ساتھ کریمیا بھی چلا گیا۔ اس کریمیا کا قصہ بھی عجب تاریخی ڈرامائی کھیل ہے۔ منگول جتھوں نے جب سلطنت عباسیہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد یورپ کا رخ کیا تو ان کے گھوڑوں کی سموں سے اٹھنے والی گرد میں ماسکو اور اس کے اطراف کے علاقے بھی ڈوب گئے۔

ماسکو (پر تاتاریوں وغیرہ تک کے قبضے ) اور ماسکو کے شمال اور مشرق کے شہروں سزدال، کے بعد منگولوں کے پھریرے سارے مشرقی یورپ پر اڑنے لگے۔ خطرہ تھا کہ مغربی یورپ تک یہ طوفانی ریلے پہنچیں گے کہ خان اعظم کے انتقال پر روایت کے مطابق تمام تاتاریوں کی کانگریس قراقرم میں منعقد ہوئی کہ آنجہانی خان کے جسد خاکی کو سپرد خاک کیا جائے۔ بعد ازاں بڑی بڑی سلطنتوں کے ٹوٹنے کی طرح تاتاریوں کی دال بھی جوتوں میں بٹنے لگی۔ ایک سلطنت بعد ازاں کریمیا میں 1441 میں قائم ہو گئی جو 1783 میں روس کے کریمیا پر قبضے تک قائم رہی۔ یہ سارے مسلمان ہو چکے تھے اور سلطنت عثمانیہ کے واجبی سے باج گزار تھے۔

ادھر روسی زاروں کے بڑھتے ہوئے اقتدار اور پھیلتی ہوئی سلطنت کے مشرق کی سمت تیزی سے بڑھتے قدموں کی راہ میں کریمیا ایک رکاوٹ تھی اور خاص کر کیتھرین (دی گریٹ) کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی جو اپنی سلطنت کی سرحدیں آنجہانی مشرقی بازنطینی سلطنت تک لے جانا چاہتی تھی اور استنبول کو ایک بار پھر اس کا دار السلطنت بنانے کا خواب دیکھ رہی تھی۔ جب روسی افواج نے کریمیا کو فتح کر لیا تو ملکہ 58 سال کی عمر اور شدید برفانی موسم میں 1783 میں چھ ماہ کے مسلسل سفر کے بعد کریمیا پہنچی اور منگولوں کے عظیم الشان محلات میں اپنی رسم تاج پوشی منعقد کی۔

خروشیف کی سخاوت (1956) تک کریمیا روس کا جزو لاینفک تھا۔ یوکرین کا مسئلہ شروع ہوا تو اس ملک کی تعمیر میں مضمر بہت سی خرابیاں عود کر آئیں۔ یوکرین کی معیشت پوری طرح روس کی معیشت پر انحصار کرتی ہے۔ یوکرین اپنی گیس اور تیل کی ضروریات بھی روس سے پوری کرتا ہے۔ روس بھی اپنی سرحد پر واقع اس اہم ملک میں اپنے فطری، تاریخی، جغرافیائی، ثقافتی و نسلی اور لسانی روابط کی وجہ سے اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا چاہتا تھا چنانچہ یوکرین کی تیل و گیس کی تمام ضروریات کو خصوصی طور پر ارزاں نرخوں پر پوری کر رہا تھا۔

ادھر یوکرین بھی اپنے محل وقوع کی بنیاد پر حاصل اہمیت سے پورا پورا فائدہ حاصل کرنا چاہتا تھا جبکہ معیشت کا حال دن بدن دگرگوں ہوتا جا رہا تھا۔ امریکہ بہادر اپنے نیٹو اور مغربی یورپ کے دوستوں کے ساتھ مل کر دنیا کے ہر علاقے کی طرح اس علاقے میں بھی اپنا نفوذ بڑھانے کی سوچ رہا تھا۔ یوکرین کو یورپی یونین میں شامل کرنے کا خواب عرصے سے دکھایا جا رہا تھا مگر مختلف حیلوں بہانوں سے اس شمولیت کو موخر کیا جا رہا تھا۔ ادھر یوکرین کی معیشت جان کنی کے عذاب سے گزر رہی تھی اور اس کے پاس انتظار کے لیے زیادہ وقت نہیں تھا۔ ایسے میں صدر پیوٹن نے یوکرین کو 15 بلین ڈالر کا خطیر سرمایہ مہیا کر دیا اور روس کو واجب الادا قرضے کی ادائیگی میں بھی سہولت دینے کا اعلان کیا۔

اب یورپی یونین، نیٹو ممالک اور امریکی لیڈروں نے ضرورت سے زیادہ پھرتی دکھائی اور یوکرین کو روس کے حلقہ اثر سے نکالنے کے لیے یوکرین دوروں پر دورے شروع کر دیے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہاں روس مخالف نسلی اور لسانی گروہوں کی حمایت شروع کر دی۔ یوکرین میں روس مخالف مظاہروں اور دھرنوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس کی یورپ اور امریکہ نے خوب حمایت کی۔ یوں یورپ نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری کیونکہ یوکرین کا امن و امان یوں بھی یورپ کے لیے ضروری تھا کہ روسی کمپنی گیس پرام کی 80 فیصد گیس یوکرین سے گزرنے والی پائپ لائنوں کے ذریعے مغربی یورپ کو فراہم کی جاتی ہے اور یوکرین تو اپنی 100 فیصد گیس کی ضروریات روس سے پوری کرتا ہے۔

یورپی ممالک کی دوسری غلطی نئے نازیوں، دائیں بازو (Right Sector) اور شدت پسند قوم پرستوں کی خفیہ اور کھلے بندوں حمایت تھی۔ مغربی یوکرین کے یہ گروہ تاریخی اعتبار سے ہی روس دشمن ہیں۔ ان گروہوں نے یورو میدان کے عمل کو جنم دیا 1ور ہزاروں لاکھوں لوگ روس نواز منتخب صدر نیا کووچ کے خلاف دھرنا دے کر بیٹھ گئے اور سرکاری عمارتوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ یورپ اور امریکہ کی نظر میں یہ یوکرینی عوام کا جمہوری اور آئینی حق تھا۔ ’عوام‘ یعنی شدت پسند گروہوں نے اس آئینی حق کو اس شدت سے استعمال کیا کہ منتخب صدر کو جان بچا کر بھاگنا پڑا۔

یورپ اور امریکہ کو شاید احساس ہی نہ ہوا یا وہ اپنی طاقت کے نشے میں اتنے دھت تھے کہ اس بات کو خاطر ہی میں نہ لائے کہ دانستہ یا نادانستہ انہوں نے روس کی دکھتی رگ کو چھیڑ دیا ہے اور وہ خطرناک حدیں عبور کر لی ہیں کہ جس کے بعد روس کے شدید رد عمل کے نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

18 مارچ 2014 کو روسی صدر پیوٹن نے کریملن کے عظیم الشان الیگزینڈر ہال میں اپنی تاریخی تقریر میں نہ صرف یوکرین کی نئی حکومت کو مسترد کر دیا بلکہ کریمیا اور سواستپول کو وہاں منعقد کیے گئے اصتصواب رائے کے نتائج کی بنیاد پر روسی فیڈریشن میں شامل کرنے کا اعلان کر دیا۔

اب یہ بات بھی بعید از قیاس تھی کہ مغربی یوکرین میں ان اقدامات کا رد عمل مشرقی و جنوبی یوکرین میں نہ ہو جہاں نسلی اور لسانی روسی شہریوں کی واضح اکثریت ہے۔ اس پہ مستزاد یہ کہ نئی یوکرینی حکومت نے ان علاقوں میں ایک بدنام زمانہ بدعنوان ارب پتی کو گورنر بنا دیا۔ اس کے بعد جنوبی اور مشرقی یوکرین میں عمل اور رد عمل پر مبنی واقعات کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ عوام نے سڑکوں پر نکل کر اور بڑی تعداد میں دھرنے دینے اور سرکاری عمارتوں پر قبضوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔

اپریل اور مئی میں دونٹیسک، لونگانست، سلووانسک اور مشرقی اور جنو بی کریمیا کے دیگر شہروں میں عوامی افواج جنہیں روس ’عوام کی دفاعی افواج‘ اور مغربی دنیا ’دہشت گرد‘ قرار دیتی ہے، نے بعینہ ٰاسی طرح سرکاری عمارتوں پر قبضوں کا سلسلہ شروع کر دیا جیسے پہلے یوکرین کے دارالحکومت ’کیو‘ اور دوسرے شہروں میں ہوا تھا۔ مگر اب امریکی اور یورپی رہنما اسے دہشت گردوں کی کارستانی قرار دیتے ہیں جبکہ پہلے اسی طرح کی کارروائیوں کو عوام کا آئینی ا ور جمہور ی حق کہا جاتا تھا۔

الزامات، رد الزامات اور جوابی الزامات کے اس لا متناہی سلسلے کے درمیان 25 مئی 2014 کو یوکرینی حکومت نے انتخابات کرا دیے۔ ان انتخابات میں وہی ہوا جو ہونا تھا یعنی یوکرین (مغربی یوکرین) میں عوام نے بھاری تعداد میں اپنے ووٹ ڈالے جبکہ مشرقی اور جنوبی یوکرین میں عملاً انتخابات نہ ہو سکے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وہاں 3 فیصد سے لے کر 11 فیصد تک ہی ووٹ ڈؑالے گئے۔ کیونکہ یوکرینی حکومت کی طرف سے 25 مئی کے ان انتخابات سے پہلے ہی مشرقی اور جنوبی یوکرین کے بڑے شہروں اور علاقوں میں استصواب رائے 18 مئی کو منعقد کیے جا چکے تھے جن میں 83 فیصد سے لے کر 89 فیصد عوام نے ایک وفاقی یوکرین میں رہنے یا آزاد حیثیت اختیار کرنے کا فیصلہ کرنا تھا۔

یاد رہے ان شہروں میں علیحدہ علیحدہ منعقد کیے جانے والے استصواب رائے میں روس میں شمولیت کا سوال نہیں پوچھا گیا تھا۔ تا ہم استصواب رائے کے علاقوں لوگانسک، سلاویانسک اور دونیتسک نے روس کی حکومت سے درخواست کی کہ انہیں روس میں شامل کیا جائے۔ تاہم روسی حکومت نے ان شہروں، علاقوں یا ریاستوں کی روس میں شمولیت کی درخواست کو مسترد کر کے سیاسی، اخلاقی اور سفارتی محاذوں پر ایک بار پھر نیٹو، یورپی یونین اور امریکہ کو مات دے دی۔

دوسری جانب روسی قیادت نے ان امریکی اور یورپی ممالک کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں کا ایسا لا جواب جواب دیا ہے کہ جس کے اثرات عملی سیاست اور معیشت پر تادیر محسوس ہوتے رہیں گے اور روس کا یہ جواب آں غزل ایک ایسے عالمی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں دنیا کثیر الجہتی طاقت کے مراکز میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ ہوا یہ کہ روسی صدر نے مئی کے وسط میں چین کا دورہ کیا اور وہاں چینی صدر کے ساتھ گیس کی فراہمی کے تیس سالہ معاہدے پر دستخط کر دیے جس کے تحت روس چین کو 400 بلین ڈالر کی گیس مہیا کرے گا۔

اسی طرح چین صرف کریمیا میں مختلف منصوبوں پر 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے روس اور چین کا قریب آنا، اسی طرح بریکس ( (BRICS (برازیل، روس، انڈیا، چین، ساؤتھ افریقہ) اور ایس۔ سی۔ او ( (SCO شنگھائی تعاون تنظیم (جس میں پاکستان، انڈیا اور منگولیا مبصر کی حیثیت رکھتے ہیں ) جیسی تنظیموں کا مضبوط ہونا دنیا کو ایک متبادل سیاسی و اقتصادی نظام کار مہیا کرنے میں اہم ثابت ہو سکتے ہیں جس سے دنیا ایک واحد سپر پاور کی معیشت اور سیاست پر اجارہ داری کے عذاب سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔

بہر حال ہاتھیوں کی اس لڑائی میں دستور عالم کے عین مطابق اصل نقصان یوکرین کا ہو رہا ہے۔ جو ابھی چند ماہ پہلے ایک پر امن، متحد اور بظاہر ترقی و خوشحالی اور درخشاں مستقبل کی طرف پیش قدمی کرتا ہوا خوبصورت ملک تھا۔ بقول میر۔

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگۂ شیشہ گری کا
رہ گزار کارگۂ سیاست میں بھی بڑا پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے ورنہ بقول اقبال
یہ کاروان ہستی ہے تیز گام ایسا
قومیں کچل گئی ہیں اس کی روا روی میں

یورپ اور امریکہ نے نہیں مگر شاید روسیوں نے میر اور اقبال سے ضرور استفادہ کیا ہے اسی لیے بساط سیاست پر اپنے مہرے کمال مہارت سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پچھلے ہزار سال میں کوئی بھی سلطنت ایک بار زوال پذیر ہونے کے بعد دوبارہ بام عروج پر نہ پہنچ سکی سوائے روسی سلطنت کے جو بار بار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کے باوجود بار بار عالمی قوت کے طور پر ابھری خواہ وہ زاروں کا روس ہو، کمیونسٹوں کا روس یا پیوٹن کا۔ لگتا ہے عالمی سیاست ایک اور بڑی کروٹ لینے کے لیے بے قرار ہے۔

یوکرین کے انتخابات نے مسئلے کو سلجھانے کی بجائے مزید الجھا دیا ہے۔ انتخابات نے یوکرین میں موجود سیاسی، سماجی اور معاشی تضادات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ انتخابات کے نتیجے میں مٹھائیوں کا کاروبار کرنے والے ارب پتی صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ صدر پیوٹن نے برسلز میں ان سے ایک علامتی سی ملاقات بھی کر لی ہے۔

لیکن جناب 2004 میں بھی حکومت کا حصہ تھے اور نیک نامی کی شہرت نہیں رکھتے۔ انہوں نے منتخب ہوتے ہی مشرقی و جنوبی یوکرین کے عوام کی ایک ڈھیلی ڈھالی وفاقیت قائم کرنے کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے وہاں حکومت کی جانب سے مبینہ دہشت گردوں کے خلاف کی جانے والی فوجی کارروائی مزید تیز کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کہ گزشتہ جی ایٹ ممالک نے پہلے سوچی میں مجوزہ اپنی سالانہ کانفرنس جس کی سربراہی روس نے کرنی تھی، کا بائیکاٹ کیا اور بعد ازاں جی ایٹ میں سے روس کو خارج کر کے اسے G۔ 7 میں تبدیل کر دیا۔

رواں سال (2014) میں اس کے برسلز میں ہونے والے اجلاس میں روس پر پابندیوں کے تیسرے مجموعے کو مشرقی و جنوبی یوکرین میں عدم مداخلت کے اقدامات سے مشروط کر دیا گیا ہے۔

امریکہ و یورپ کے یہ سارے اقدامات یک طرفہ ہیں۔ ان میں روس کے نکتۂ نظر کو سننے، سمجھنے اور سمونے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ اسی وجہ سے ان کی کامیابی کے امکانات معدوم ہیں۔

دوسری جانب روس بار بار اس مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات کے لیے متبادل تجاویز پیش کر رہا ہے اور امریکہ، یورپ اور یوکرین کی حکومت سے اس مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

جواباً صدر پیراشنکو کا رویہ روس سے سخت اور یورپی یونین اور امریکہ سے دوستانہ ہے۔ وہ یورپی یونین میں شامل ہونے کے لیے بے چین ہیں جبکہ اس موضوع پر یورپی یونین شدید اختلافات کا شکار ہے۔ پھر اس مسئلے پر امریکہ اور یورپی یونین کے مفادات بھی مختلف ہیں۔

مگر ماہرین معاشیات اس امر پر متفق ہیں کہ اس مرحلے پر یوکرین کی معیشت کسی طرح بھی یورپی یونین کی معیشت سے منسلک ہونے کی استعداد نہیں رکھتی۔ انفرادی طور پر یورپی یونین کے ممالک جیسے فرانس اور جرمنی ان مسائل پر مختلف نکتہ نظر رکھتے ہیں اور وہ روس سے اپنے معاشی روابط منقطع کرنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے۔

اس منظر نامے میں امریکہ اور نیٹو مشرقی یورپ میں اپنی فوجی سرگرمیاں بڑھا رہے ہیں۔ روسی سرحد کے قریب نیٹو کی مشقیں جاری ہیں ادھر روس نے بھی اپنے ساتویں بحری بیڑے کی مشقوں کا آغاز کر دیا ہے۔ اسی طرح یوکرین کی فوجوں کی مشرقی اور جنوبی یوکرین میں کارروائیوں میں شدت آتی جا رہی ہے۔

ان علاقوں میں انسانی المیے میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ مگر یوکرین کے نئے صدر ان علاقوں کو بزور طاقت اپنے ساتھ رکھنے کا ارادہ ظاہر کر چکے ہیں گو یوکرینی افواج ابھی تک کسی ایک بھی شہر پر اپنا تسلط نہیں جما سکیں۔ جبکہ اب ان پر بھاری آرٹلری، فضائیہ اور فاسفورس بم تک استعمال کرنے کے الزامات بڑھتے جا رہے ہیں۔

دوسری جانب یوکرینی حکومت نہ تو روس کو ادھار پر لی گئی گیس کی رقم کی ادائیگی کے قابل ہے نہ ہی ادھار کی رقم کی مقدار سے متفق ہے۔ روسیوں کے نزدیک یہ رقم 4 ارب ڈالر جبکہ یوکرین کے نزدیک واجب الادا رقم 6۔ 1 بلین کے قریب ہے۔ اس اختلاف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یوکرینی حکومت روسی گیس کی قیمت اپنی مرضی کی شرح یعنی 335 ڈالر فی ہزار کیوبک میٹر مقرر کر رہی ہے۔ یعنی گیس روس کی اور اس کی قیمت کا تعین خریدار یعنی یوکرین کی طرف سے ہو رہا ہے۔ بہر حال یورپین یونین اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بیچ میں پڑ کر اس مسئلے کو کسی حد تک حل کروا دیا ہے۔

یہ دراصل رعایتی نرخ ہیں جن پر روس مختلف ممالک بشمول یوکرین کو گیس مہیا کر تا رہا ہے۔ اور روسی گیس کی قیمت کا تعین معاشی کے ساتھ ساتھ سیاسی بنیادوں پر کرتے رہے ہیں اور کرتے ہیں۔ اپنی چیز کی قیمت کے تعین سے روسیوں کو دنیا کا کوئی اصول و ضابطہ نہیں روک سکتا۔ روسیوں نے یہ قیمت 385 ڈالر فی ہزار کیوبک میٹر مقرر کی تھی۔ روسیوں کی اس قیمت سے یہاں تک کہ قیمتوں کا تعین کرنے والے ادارے کے سربراہ جس میں روس کے علاوہ یورپی یونین کے ممالک بھی شامل ہیں۔ نے بھی اتفاق کیا ہے۔

بہر حال ماہ جون میں روسیوں نے یوکرینی حکومت کو گیس کی واجب الادا رقم کا نصف 16 جون تک ادا کرنے کا الٹی میٹم دیا تھا۔ اس تاریخ تک یوکرین کی حکومت نے کسی قسم کا کوئی قدم اس سلسلے میں نہیں اٹھایا۔ سو روس نے یوکرین کی گیس کم از کم نصف واجب الادا رقم کے ادا نہ ہونے تک معطل کر دی ہے۔ جس سے یوکرین کا بحران مزید گمبھیر ہو گیا ہے۔ اسی دوران یہ بحران ایک انسانی المیے کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یوکرینی فوج مشرقی اور جنوبی حصوں میں خود تحفظی فوجوں، جنہیں وہ دہشت پسند گروہ قرار دیتے ہیں، کے خلاف گن شپ ہیلی کاپٹر، ٹینک، توپیں اور ہوائی جہاز تک استعمال کر رہی ہے۔ اس سے سویلین آبادی میں اموات کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ اس دوران خود تحفظی فوج نے یوکرینی فضائیہ کا ایک طیارہ اور ایک گن شپ ہیلی کاپٹر بھی مار گرایا ہے۔

یوکرین کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کی افواج کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے۔ فضائیہ تو نہ ہونے کے برابر ہے اور فوج پر بھی معاشی بدحالی کی وجہ سے عرصے سے توجہ نہیں دی گئی۔ نتیجتاً یوکرین کی حکومت جنوبی اور مشرقی شہروں اور علاقوں میں شاید کسی بڑی کارروائی کی صلاحیت سے محروم ہے۔ انہیں حالات میں یوکرین کے صدر پورشینکو نے 15 نقاط پر مشتمل ایک امن منصوبہ پیش کیا ہے۔ جس میں روس اور یوکرین کے درمیان ایک 10 کلومیٹر Buffer Zone بنانے، مسلح تحفظاتی فوج کے ہتھیار رکھنے، اور جلد ہی مشرقی و جنوبی علاقوں میں پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کے ساتھ ساتھ روسی زبان کے تحفظ اور استعمال کے حق کو تسلیم کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔

گو روس نے اس امن منصوبے کی حمایت کی ہے مگر وزیر خارجہ سرگئی لاوروو نے اس کی کامیابی کے امکانات پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اس منصوبے میں امن کے قیام کے لیے باہمی گفت و شنید جیسی بنیادی اکائی شامل نہیں ہے اور یہ منصوبہ الٹی میٹم جیسے مطالبات پر مشتمل ہے۔ اس منصوبے کے اعلان کے ساتھ ہی جناب جو بائیڈن، نائب صدر امریکہ پھر یوکرین پہنچ گئے ہیں۔ اس سے پہلے جناب دسمبر 2013 میں یوکرین تشریف لائے تھے اور روس کے خلاف بڑی سخت اور دھمکی آمیز زبان استعمال کی تھی۔ اس کے بعد امریکی قیادت کے دوروں کا ایک تانتا بندھ گیا۔ جان کیری اور نولانڈ نے بھی یوکرین کے دورے کیے۔ ان دوروں کے ساتھ ساتھ یوکرین کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے۔

اسی دوران یہ خبر بھی سامنے آ گئی کہ جناب جو بائیڈن کے ایک عدد صاحبزادے یوکرین کی سب سے بڑی توانائی کی کمپنی کے نائب صدر مقرر ہو گئے ہیں۔ واہ! جو بھی پہاڑ کھودا جائے اس میں سے چوہا ہی نکلتا ہے۔ کیا آپ کو افغانستان اور عراق یاد نہیں آ رہے؟ ان کے پس پردہ بھی بڑی بڑی امریکی توانائی کی کمپنیوں تھے۔ پھر عرب بہار بھی اسی علاقے میں اپنے جوبن پر نظر آئی جہاں تیل کے دھارے پھوٹتے تھے۔

لگتا ہے، ہو نہ ہو، انسانی حقوق، انسانی آزادیوں، جمہوریت، جمہوری اداروں وغیرہ کی رگوں میں بھی تیل دوڑتا ہے۔

اب تیل اور گیس کی سیاست نے مشرق وسطیٰ، اور ایشیا کے ساتھ ساتھ یورپ میں واقع یوکرین کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

اسی لیے یورپ اور امریکہ میں یہاں جمہوریت اور حقوق انسانی کی اشد اور فوری ضرورت کا احساس پیدا ہو گیا ہے۔

مگر پورے یوکرین میں نہیں، فی الحال مشرقی اور جنوبی حصوں کے یوکرینی عوام کے حقوق اور وہاں جمہوریت کی ایسی خاص ضرورت نہیں۔ علامہ اقبال تو کوئی ایک صدی پہلے ہی ہمیں اس جمہوریت کی اصل سے ان واشگاف الفاظ میں آگاہ کر گئے تھے۔

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے اسے آزادی کی نیلم پری


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments