مفسدو آؤ کرو شہر بدر مجھ کو بھی


یہ تو شیوہ ہر زمانے کا ہے کہ حق گوئی کی سزا ہمیشہ سے بے نوائی و دربدری ٹھہری ہے۔ رباط کے صحرا سے لے کر دشت نینوا تک امت سید لولاک نے نہ صاحبان صحبت کو چھوڑا نہ اہل خانہ کو تو پھر اس دور پرفتن میں ہم عاصیوں کی بھلا حیثیت ہی کیا ہے۔ سبیل تاریخ و تذکرہ سے گزرتے ہوئے شکم عصر حال تک اگر ایک لحظہ ٹھہر کے ان سب بے نواؤں اور کوچہ گردوں کا جرم جاننے کی کوشش کریں تو سوائے حق گوئی کے اور کچھ دکھائی نہیں دے گا۔

جہاں تندیٔ حالات کی وجہ سے کذب کو اپنا لیا جائے اور حق گوئی سے گریز کو عادت بنا لیا جائے، وہاں خیر کی امید کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی ببول پر بیر اگ آنے کا انتظار کر رہا ہو۔ پر انہی حالات کے اندر رہتے ہوئے ہر نفس نعرہ حق بلند کرنے والی روحیں ہی وہ طاقت ہیں جو مجروح معاشروں کو حق شناسی اور حق گوئی کی قوت اور پھر حق پذیری کی ہمت عطا کرتی ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ حق کے مقابل اشرار نے ہمیشہ فساد کی بساط کچھ اس ڈھنگ سے بچھائی کہ وہ خلق کو مصلح کی صورت نظر آئیں پر خالق نے اپنے کلام کے ابتدائیے میں ہی ان فسادیوں کے چہروں سے مصلح کا خول ہٹاتے ہوئے اعلان کیا کہ یہی دراصل مفسدین ہیں، اور ان کو اس کا شعور تک نہیں۔

پروردگار اپنے کلام میں کیا کمال حکمت رکھتا ہے۔ صاحبان ایمان و نفاق ہوں یا تسلیم و کفر جب بھی ان کا تعارف کروایا تو محض صفات پر ہی اکتفا کیا نہ مسلک بتایا نہ ذات نہ جغرافیہ نہ قومیت۔ اب صاحبان عقل خود تلاش کریں اور پہچان لیں۔ اور تلاش بھی اپنے وجود اور اپنی ذات سے شروع کریں۔

اسی لئے جب صاحب نہج البلاغہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کوفہ میں ممبر سلونی سے گویا ہوئے تو عقل کو علم پر حاکم کرار دیا۔ کیونکہ عقل کے بغیر علم وقوع پذیر ہو ہی نہیں سکتا۔ عقل ہی وہ مکان ہے جہاں علم سکونت اختیار کرتا ہے۔ اور ندائے سلونی نے سوال کو حیات بخشی۔ تاکہ عالمین اس رمز الٰہی سے واقف ہوجائیں کہ جہاں عقل مقید ہو اور سوال پر زوال آ جائے وہاں شعور عدم کی وادیوں سے وجود کی حدوں میں ظہور نہیں پاتا، اور پھر اس حد سے آگے ہر مفسد مصلح سجھائی دیتا ہیں۔

ایک حدیث بروایت امام محمد باقر علیہ السلام یہ ملتی ہے کہ اللہ نے عقل کو پیدا کیا اور کہا کہ تو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور میں تجھ کو صرف اس شخص میں کامل کروں گا جس کو میں دوست رکھتا ہوں۔ اور یہ کہ اللہ کی تقسیم میں سب سے زیادہ افضل عقل ہے جو حضرت انسان کے حصے میں آئی ہے۔

حق شناسی، حق گوئی اور حق پذیری کو اگر حضرت حق تعالی کے ہی بنائے ہوئے اصول پر دیکھا جائے تو کوئی ایک صورت بھی عقل و استدلال سے باہر نظر نہیں آئے گی۔

آج کی تاریخ میں شرق و غرب میں پھیلی فتنہ گری کے پیچھے بھی ایسے ہی خود ساختہ مصلحین ملیں گے جنہوں نے عقلوں کو مقید کر کے سوال اٹھانے، سوال کرنے اور سوال رکھنے کو جرم بنا دیا ہے۔ استدلال کا قتل کچھ یوں ہوا کہ فکری ابتری نے گھر کر لیا اور جب ابتری گھر کر جائے تو خالی ”فصل لربک“ سے کام نہیں چلتا بلکہ ”وانحر“ کی سبیل کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔

جب کوئی ”وانحر“ کی رمز کو پا لیتا ہے تو پھر بے نوائی ذات حق تعالیٰ کی ہم نوائی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ پھر رباط کا صحرا بھی مشک مدینہ سے معطر محسوس ہوتا ہے اور دشت نینوا عرش معلیٰ سے ملحق سجھائی دیتی ہے۔

کچھ دن پہلے سماجی روابط کی ویب سائیٹ پر ”بروناڈینٹس لوباٹو“ نامی ایک لکھاری خاتون کی وال پر یہ جملہ پڑھا کہ ”نہ میری خاموشی میری حفاظت کر سکی نہ آپ کی خاموشی آپ کی حفاظت کر پائے گی“ ۔ اس لئے معاشرے کی فکری ابتری پر کھل کے بولنا پڑے گا چاہے اس کے لئے قربانی ہی کیوں نہ درکار ہو۔

خاموشی کسی صورت ہماری حفاظت نہیں کر سکتی۔ خاص طور پر ایسے مفسدوں سے جو خود کو مصلح بتاتے ہیں۔ چاہے وہ مصلح مسند حکومت پر حاکم یا وزیروں کی صورت میں ہوں، مسجد کے منبر پر ہوں، کسی ادارے کی سربراہی کر رہے ہوں۔ یا ٹی وی اسکرین پر قابض ہوں یا پھر ہجوم کی صورت ڈنڈے اٹھائے سڑکوں پر دندنا رہے ہوں۔ جن کی زبان عقل و استدلال سے عاری ہو اور سوال سے ان کو چڑ ہو ایسے ابو جہلوں کے لئے میدان خالی چھوڑنا بذات خود ظلم ہے۔

اگر کسی صورت بھی جہل کو خالی اسپیس دیا گیا تو وہ بلا تفریق مذہب و مسلک، قوم و ملت ابو جہلوں کی ایک پوری نسل کو جنم دے گا۔ اور معاشرے کی فکری ابتری میں بچا کچا شعور بلا جرم نحر ہوتا چلا جائے گا۔ ایسے ابو جہلوں کے لئے بے زر ہی سہی ضرورت تو بہرحال ابو ذروں کی ہی پڑے گی۔

اسی لئے یہ اعلان تو فی زمانہ واجب ٹھہرا کہ
اب تو یہ زندگی گزرے گی ابوذر جیسی
مفسدو آؤ کرو شہر بدر مجھ کو بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments