ریڈیو کا عالمی دن اور معاشرتی تغيّرات سے بے نياز ہمارا ریڈیو


 

اقوام متحدہ کی جانب سے ہر برس 13 فروری کو ”ریڈیو کے عالمی دن“ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن بہت دیر میں منایا جانے لگا۔ شاید اقوام متحدہ کو ریڈیو جیسے اہم اور اس عام آدمی کے میڈیم کی اہمیت کا احساس بہت دیر میں ہوا، اور یہ دن اب سے محض 12 سال قبل 2011ء سے منایا جانے لگا۔ اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (یونیسکو) کی جانب سے ہر سال اس دن کو کسی خاص موضوع (تھیم) کے تحت منایا جاتا ہے، اور اس سال کا موضوع (بالخصوص کورونا وبا کے دنوں میں ریڈیو کے مثبت کردار کے حوالے سے) ”ریڈیو اینڈ ٹرسٹ“ (ریڈیو اور اعتبار) رکھا گیا ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی دنوں کا تعین کرتے وقت اس موضوع یا شعبے کے حوالے سے کسی خاص تاریخ کا انتخاب کسی خاص کسوٹی پر کیا جاتا ہے؟ یا بس ایسے ہی کوئی دن اٹھا کر اسے اس شعبے کا عالمی دن بنا دیا جاتا ہے۔ اگر ریڈیو کے عالمی دن کے لئے مخصوص تاریخ کا تعین کرتے وقت ریڈیو کی تاریخ میں اہم دنوں کا جائزہ لیا جاتا، تو اس کے لئے 23 دسمبر سے موزوں ترین اور کوئی دن نہیں تھا۔ کیونکہ یہ وہی دن تھا، جس دن 1906 ء میں امریکی ریاست ”میسیچوسیٹس“ سے دنیا کا سب سے پہلا ریڈیو پروگرام نشر کیا گیا تھا۔

ریڈیو، اپنے تنوع اور انتہائی مثبت کردار کے لحاظ سے انسانیت کا جشن منانے کے لئے حق بجانب ہے۔ یہ جمہوری گفتگو کا ایک موثر پلیٹ فارم ہے عالمی سطح پر، ریڈیو آج بھی سب سے زیادہ استعمال ہونے والا نشریاتی ذریعہ ہے۔ سامعین کی ایک کثیر تعداد تک پہنچنے کی اس انوکھی صلاحیت کا محور ریڈیو، معاشرے کے تنوع کے تجربے کو تشکیل دے سکتا ہے۔ یہ تمام آوازوں کو بولنے، نمائندگی کرنے اور سنے جانے کے لئے ایک پلیٹ فارم کے طور پر جانا جاتا ہے۔

دنیا کے بیشتر ریڈیو اسٹیشنز ہمہ جہت برادریوں کی خدمت کرتے ہوئے، مختلف قسم کے پروگرام، نقطۂ نظر اور مواد پیش کرتے ہیں، اور اپنی تنظیموں اور کاموں میں سامعین کی ہمہ گیری کی عکاسی کرتے ہیں۔ مختلف بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق، ریڈیو دنیا میں آج بھی سب سے زیادہ بھروسا مند اور قابل اعتماد میڈیا میں سے ایک ہے۔

سائنسی انقلاب کی صدی (بیسویں صدی) کے چھٹے برس میں ہی ایجاد ہو جانے والے ریڈیو نے جلد ہی دنیا کو امن خواہ جنگ، دونوں میں زبردست معاونت فراہم کرنے کا آغاز کر دیا تھا۔ جنگ عظیم اول سے پہلے ہی ریڈیو اپنی نشریات شروع کر چکا تھا۔ یہ اکثر بحری جہازوں کے ذریعے ”مورس کوڈ“ کے ذریعے پیغامات کی ترسیل کے لئے استعمال کیا جاتا تھا، اور 1912 ء میں، ”ٹائٹینک“ (بحری جہاز) کے آپریٹرز، دوسرے بحری جہازوں اور ساحلی ریڈیو اسٹیشنوں کے ساتھ بات چیت کے لئے ریڈیو پر انحصار کیا کرتے تھے۔

مورس کوڈ جیسے میسج سسٹمز پر پیش کی جانے والی سب سے بڑی بہتری، ریڈیو میں آواز کی مواصلات کے استعمال کی رفتار اور اصلاح تھی۔ ریڈیو ٹیکنالوجی میں ’ایسکیلیٹر‘ ، ’ایمپلیفائر‘ اور ’الیکٹران ٹیوب‘ جیسی پیش رفتوں نے قابل اعتماد صوتی مواصلات کو ممکن بنایا۔ (ان میں وہ 7 ریڈیو ٹیکنالوجیز بھی شامل ہیں، جنہوں نے اس دور میں جنگ کے خد و خال کو بدل دیا تھا۔ )

ابتدائی ریڈیو، جو بعض اوقات ”وائر لیس“ بھی کہلاتا تھا، دوران جنگ کی کوششوں کے لئے تیزی سے کارگر ثابت ہوا۔ پورٹیبل (ادھر ادھر لانے لے جانے کے قابل) ٹرانسمیٹر والے ریڈیو آپریٹرز، سپاہیوں تک پیغام رسانی کے لئے بہت کارگر ثابت ہوئے۔ مثلاً انہیں زہریلی گیس کے حملے سے خبردار کرتے تھے، اور انہیں اپنے گیس ماسک لگانے کا وقت دیا کرتے تھے۔ جرمن فوج  نے ریڈیو ٹرانسمیشنز کا استعمال بم دھماکوں کو چلانے والے افراد کی رہنمائی کے لئے کیا۔ اور ریڈیو حالیہ پیش رفت کے حوالے سے ہوائی جہاز کے ساتھ رابطے کے لئے ناگزیر ثابت ہوا۔ جنگ میں اس قدر کارگر انداز میں استعمال ہونے والے ریڈیو کو ”وار ریڈیو“ کا نام دیا گیا۔

جنگ عظیم دوم کے دوران ریڈیو نے پروپیگنڈا کا اہم کردار ادا کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران، ملکی پیداوار، اتحادی اور محوری طاقتوں کے لئے جنگی کوششوں کا ایک اہم حصہ بن گئی۔ مختلف گھریلو محاذوں سے تعاون نے جنگ کے حل پر منفرد اثر ڈالا۔ اس نے حکومتوں کے لئے مختلف نئے مسائل بھی پیدا کیے۔ جن سے نمٹنے کے لئے راشن، افرادی قوت کی تقسیم، گھریلو دفاع، اور فضائی حملوں کے نتیجے میں شہریوں کا انخلا وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام کاموں کو قابل عمل بنانے میں ریڈیو نے پیغام رسانی اور پروپیگنڈا کے حوالے سے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔

2002 ء میں اپنی ریڈیو مارکیٹ کو آزادی دی اور نجی آپریٹرز کو داخل ہونے کا راستہ دیا۔ اس وقت ملک میں 130 سے زیادہ لائسنس یافتہ نجی کمرشل ریڈیو سٹیشنز ہیں، جبکہ 31 سرکاری ریڈیو اسٹیشن، ریڈیو پاکستان کے ذریعے کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ریڈیو سٹیشنز، تفریحی پروگرامنگ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ اس امر کے پیش نظر کہ پاکستان میں سرکاری چینلز یا ”وائس آف امریکا“ اور ”بی بی سی“ ریڈیو جیسے بین الاقوامی نشریاتی اداروں سے سیاسی خبریں اور تبصرے نشر کرنے کی اجازت نہ ہونے کے برابر ہے۔

’براڈکاسٹنگ بورڈ آف گورنرس‘ کے حالیہ گیلپ سروے کے مطابق، پاکستان میں، اس وقت چھ میں سے ایک پاکستانی باشندہ ( 16.5 فیصد عوام) ریڈیو، کم از کم ہفتے میں ایک بار یا اس سے کچھ زیادہ سنتا ہے۔ جن میں قابل ذکر، زیادہ تر 15 سے 24 سال کی عمر کے نوجوان پاکستانی شامل ہیں۔ جبکہ 55 برس اور اس سے زیادہ عمر والوں میں ہفتہ وار ریڈیو سننے کا رجحان 21.2 فیصد ہفتہ وار ہے۔

ہفتہ وار ریڈیو سننے والوں میں سے دو تہائی سے زیادہ افراد ( 71.2 فیصد) کہتے ہیں، کہ وہ ایف ایم ویو بینڈ کے ذریعے ریڈیو ٹیون ان کرتے ہیں۔ حالانکہ روایتی ”اے ایم“ ریڈیو کا استعمال 29.7 فیصد عوام میں بھی نسبتاً عام ہے۔ تقریباً آٹھ میں سے ایک ہفتہ وار سامع ( 13.3 فیصد پاکستانی) ”شارٹ ویو“ ریڈیو بھی سنتے ہیں۔

فیچر سمارٹ فونز کے تیزی سے پھیلاؤ کے پیش نظر پاکستان میں ایف ایم ریڈیو ریسیورز کے ذریعے ہفتہ وار ریڈیو سننے والوں کی تعداد اب زیادہ ہے۔ جن میں سے 61.9 فیصد افراد اپنے موبائل فون استعمال کرتے ہوئے، اور 49.3 فیصد روایتی ریڈیو ریسیور کے ذریعے ریڈیو سنتے ہیں۔ یہ، اس بات کو واضح کرنے میں مدد کرتا ہے کہ ریڈیو کا مجموعی استعمال اب نوجوان پاکستانیوں میں سب سے عام ہے۔

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 44 ہزار سے زیادہ ریڈیو اسٹیشن موجود ہیں۔ افریقہ میں، جہاں ریڈیو مواصلات کا سب سے مقبول ذریعہ ہے، وہاں اخبارات یا ٹیلی ویژن اسٹیشنوں سے زیادہ ریڈیو اسٹیشن ہیں۔

پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن (ریڈیو پاکستان) ، پاکستان کا سرکاری ریڈیو ہے، جو 67 نشریاتی یونٹس (ریڈیو اسٹیشنز) چلاتا ہے، جن میں سے 33 میڈیم ویو، 7 شارٹ ویو اور 27 ایف ایم اسٹیشن ہیں۔ ریڈیو پاکستان کے ہوم سروس سے روزانہ 21 زبانوں میں کل 750 گھنٹے پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ ریڈیو پاکستان کی عالمی سروس اپنی 10 گھنٹے کی اردو زبان کی روزانہ نشریات میں بیرون ملک پاکستانیوں کے لئے معلومات اور تفریحی پروگرام پیش کرتی ہے۔

اس کی ایکسٹرنل سروس 10 زبانوں میں نشریات فراہم کرتی ہے۔ دونوں نشریات ایشیا، مشرق وسطیٰ اور یورپ کے ممالک کا احاطہ کرتی ہیں۔ ریڈیو پاکستان 15 بین الاقوامی ریڈیو چینلز اور 7 غیر ملکی ٹی وی نیٹ ورکس کی نگرانی بھی کرتا ہے۔ 4,500 ملازمین پر مشتمل ریڈیو پاکستان کو حکومت کی طرف سے مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے اشتہارات اور دیگر آمدنی اس کے کل آپریٹنگ بجٹ کا 11 فیصد بنتی ہے۔ اس کے یوتھ چینلز ایف ایم 101 اور ایف ایم 93، ملک کے 21 شہروں سے روزانہ 205 گھنٹے سے زیادہ نشریات پیش کرتے ہیں، جبکہ نیوز یونٹ روزانہ 31 زبانوں میں 150 نیوز بلیٹن نشر کرتا ہے۔ 14 نومبر 2009 ء کو، ریڈیو پاکستان نے اپنے پہلے 24 گھنٹے چلنے والے انگریزی زبان کے چینل، ”پلینیث ایف ایم 94“ کا افتتاح کیا۔ یہ بنیادی طور پر ایک میوزک چینل ہے، جس میں کئی ممالک کی موسیقی کے ساتھ ساتھ صحت اور تعلیم کے کچھ پروگرام بھی شامل ہیں۔

دنیا بھر میں کووڈ۔ 19 کی روک تھام کے لئے ابلاغ کے ایک مضبوط ذریعے کے طور پر، ریڈیو کے ذریعے لاک ڈاؤن کے دوران، ”گھر میں رہیں اور محفوظ رہیں“ کی بہت مشہور ٹیگ لائن / سلوگن کے ساتھ لوگوں کو گھر پر رہنے کا مشورہ دیا جاتا رہا ہے۔ اس عرصے کے دوران، لوگ معلومات دینے اور حاصل کرنے کے لئے اور بہت سے پہلوؤں پر تعلیم کے لئے مختلف ’آئی سی ٹیز‘ (معلوماتی اور مواصلاتی ٹیکنالوجیز) کا استعمال کر رہے ہیں۔ لوگ سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع، مثلاً: یوٹیوب، واٹس ایپ اور انٹرنیٹ پر بہت سے دوسرے ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔

’کمیونٹی ریڈیو‘ مواصلات کا ایک مقامی اور شراکت دار ذریعہ ہے، جو دیہی کمیونٹی کو مقامی زبانوں میں معلومات فراہم کرتا ہے۔ برصغیر میں نصف آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے، جہاں لوگوں کی اکثریت غریب ہے۔ ان کے لئے انٹرنیٹ تک رسائی بہت مشکل ہے۔ اس صورتحال میں، ’کمیونٹی ریڈیو‘ (ایک مقامی اور شراکت دار قسم کا ریڈیو) دیہی برادری میں معلومات پھیلانے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دیہی لوگ، کورونا سے متعلق درست اور قابل اعتماد معلومات چاہتے ہیں۔

اس دوران کمیونٹی ریڈیو کورونا سے متعلق معلومات نشر کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس وقت ہندوستان میں 275 کمیونٹی ریڈیو کام کر رہے ہیں۔ وہ مختلف مسائل پر مختلف پروگرام نشر کرتے ہیں، جن میں یہ بھی شامل ہے، کہ کورونا سے خود کو بچانے کے لئے کیا حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں، جیسے سماجی دوری کی معلومات وغیرہ۔ مگر اسی کورونا وبا کے دوران پاکستان میں ریڈیو کا کردار اس حد تک کارگر نہیں رہا، جتنا بنایا جا سکتا تھا۔

جس کی وجہ، حکومتی عدم دلچسپی ہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ سرکاری ریڈیو نے ”ریڈیو اسکول“ جیسے منصوبے شروع نہیں کیے ، مگر یہ اقدام محض فارمیلٹی اور ڈھکوسلا کے علاوہ او کچھ نہیں تھا۔ اسکولز کے بار بار لاک ڈاؤن کے دوران ریڈیو، فاصلاتی تعلیم دینے میں بالکل ویسے ہی اپنا فعال کردار ادا کر سکتا تھا، جیسے وہ مغرب میں کیا کرتا ہے، مگر ہم نے تعلیمی ابتری کا شکار اس ملک میں ریڈیو سے وہ کام نہیں لیا۔ ’ریڈیو پاکستان‘ میں ملک بھر میں پیشہ ورانہ افرادی قوت کی قلت اپنی جگہ پر ایک اور تشویش ناک مسئلہ ہے۔

جس طرح سرکاری ٹیلی وژن نے اپنے آپ کو جان بوجھ کر سماجی تغیرات سے غیر متعلق بنا دیا ہے، اسی طرح ریڈیو پاکستان بھی قیام پاکستان سے لے کر، اب تک بلا تغیر اسی راہ پر ہی چل رہا ہے، جس کے انداز نشریات خواہ (زیادہ تر) مواد کی مطابقت دور حاضر کے ساتھ نہیں ہے۔ اگر دنیا کے آج تک مضبوط ترین ذریعۂ ابلاغ سمجھنے جانے والے عام شخص کے اس میڈیم ’ریڈیو‘ کی ترقی و فروغ کے لئے باشعور معاشروں کی نشریاتی روایات یا مقامی نجی نشریاتی اداروں کے کچھ رواجوں کی تقلید کی جائے اور ریڈیو کو ایک نئی زندگی دی جائے تو اس میں کیا حرج ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments