ڈرون


اکثر پڑھنے کو ملا کہ چیزیں چھوٹی یا تو دور سے نظر آتی ہیں یا پھر غرور سے۔

بہت سی چیزوں کے بارے میں سوچتا رہا کہ مغرور شخص کو کس چیز یا کردار سے مماثلت دی جا سکتی ہے۔ تو عقل شریف نے بہت سوچ سمجھ کے بعد سمجھایا کہ ڈرون ایک ایسی مشین ہے جو کہ سب چیزوں کو چھوٹا دکھاتا ہے اور دور سے بھی دکھاتا ہے اور اگر یہ ڈرون بڑا ہو جائے تو اس کا غرور اور بڑھ جاتا ہے اور یہ جانیں لینے سے بھی باز نہیں آتا۔

پہلی حکومتوں میں ڈرون مختلف جگہوں پر حملے کرتے تھے اور قیمتی جانوں کا ضیاع کرتے تھے۔ اب کے جو حکومت آئی تو ڈرون حملے تو ہٹ گئے پر کئی ڈرون حکومت میں آ گئے۔ اب وہ غرور میں سب کو چھوٹا اور حقیر جانتے ہیں۔

جس کی وجہ سے عوام کو جیل میں بند کر کے ٹارچر کیا جاتا ہے۔ جو ملک جتنا بڑا ہے اس کے ڈرون بھی اتنے بڑے ہیں۔ اور اتنے ہی طاقتور بھی۔

جب بھی ظالم، مغرور انسانوں کو دیکھتا ہوں تو وہ مجھے ڈرون ہی لگتے ہیں۔ حالانکہ ان کو آسانی سے گرایا جاسکتا ہے۔ لیکن ان میں کوئی پائلٹ نہیں ہوتا ایک مادی چیز ہوتی ہے اس لئے ایک اور نیا ڈرون آ جاتا ہے۔ جس طرح ایک سیاستدان جیل جاتا ہے یا پھر دنیا میں سے اس کی اگلی نسل نئے ڈرون کی طرح بازار میں تماشا لگانے آجاتی ہے۔

آج کل جو ہم خطاب اور پریس کانفرنسز سن رہے ہیں پہلے اس طرح کی گفتگو اکثر گندی نالیوں یا نالوں کے گرد بیٹھے نشئی کرتے تھے جن کو عوام عرف عام میں جہاز کہتے تھے۔ کیونکہ اس وقت تک ڈرون ٹیکنالوجی آئی نہیں تھی۔ ڈرون تو کسی بھی پارٹی میں لینڈ، کر سکتا ہے یا پھر کریش لینڈنگ بھی کر سکتا ہے جہاں اس کو لینڈ کرنے کا حکم ہو۔ ہماری ادارے بھی اکثر دشمن ملک سے آئے ڈرون گرا کر خراج تحسین وصول کرتے ہیں۔ اور یہ سیاسی ڈرون بھی ان اداروں کے نشانے کو سمجھتے ہیں اور کریش ہونے سے بچنے کے لئے اپنے ریمورٹ خود ان کے حوالے کر دیتے ہیں۔

یاد رکھیے ہر ڈرون کا ایک ریمورٹ ہوتا ہے جو کسی نہ کسی کے پاس ہوتا ہے اور وہ اس کو کنٹرول کرتا ہے۔ ہر ڈرون نے ایک دن کریش کرنا ہوتا ہے جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے۔ لیکن انسان ہمیشہ زوال میں سے گزر کر اس بات کو سمجھتا ہے۔ پر اس وقت بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ کیونکہ ڈرون کے کریش کرنے کے بعد اس کی بحالی ایک مشکل کام ہے اس میں ماسوائے کباڑ کے کچھ نہیں بچتا۔

اگر اللہ نے آپ کو انسان پیدا کیا ہے اور اشرف المخلوقات بنایا ہے تو پھر کیا ضرورت ہے ہوا میں اڑنے کی اور دنیا کو چھوٹا دیکھنے کی۔ انسان سے ایک مشین بننے کی۔

ایک بات ذہن نشین کر لیں ڈرون جتنی بھی بلندی پر چلا جائے جب اس کا فیول یا بیٹری ختم ہونے پر آئے گی یا پھر وہ اپنا ٹاسک مکمل کر لے گا اس کو واپس زمین پر ہی آنا ہوتا ہے۔ اس طرح ہر مغرور اور طاقتور انسان نے بھی ایک دن زمین کے نیچے ہی جانا ہوتا ہے پر جو جتنی بلندی سے گرے گا اس کو جوڑنا اور زمین کے نیچے اتارنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ بے شک آپ کتنے ہی خطرناک کیوں نہ ہوں۔ چھوٹے پرندوں کے لئے چھوٹے کارتوس اور بڑے درندوں کے لئے بڑے اور طاقتور کارتوس استعمال ہوتے ہیں یہ تو ہر شکاری جانتا ہے تو پھر آپ کس گمان میں ہیں۔ انسان ہی رہیں ڈرون مت بنیں آپ کو سب اپنے برابر یا بڑے نظر آئیں گے۔ اسی میں دونوں جہانوں میں کامیابی کا راز ہے۔ آزما کر دیکھ لیں۔

محمد اظہر حفیظ
Latest posts by محمد اظہر حفیظ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments