نور مقدم قتل کیس: ذاکر جعفر کے وکیل کا پولیس پر نور مقدم کے فون کے حوالے سے الزام

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


نور مقدم
سابق سفارت کار شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم کے قتل کے مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کا قتل کے واقعے سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتا اس لیے ان کو بری کر دیا جائے۔

ذاکر جعفر کے وکیل نے پیر کو عدالت میں دلائل دیتے ہوئے ملزم ظاہر جعفر اور مقتولہ نور مقدم کے موبائل فون کا ڈیٹا پیش نہ کیے جانے پر بھی سوالات اٹھائے اور الزام عائد کیا کہ پولیس نے نور مقدم کا اصلی فون پیش نہیں کیا۔

واضح رہے کہ ذاکر جعفر اس مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والد ہیں۔ پولیس کی تفتیش کے مطابق جس وقت نور مقدم کو قتل کیا گیا اس وقت ذاکر جعفر اپنی اہلیہ عصمت آدم جی کے ساتھ عید منانے کے لیے کراچی گئے ہوئے تھے۔

پولیس نے اس مقدمے میں ذاکر جعفر اور ان کی اہلیہ عصمت آدم جی کو اعانت مجرمانہ کی دفعہ 109 کے تحت گرفتار کیا تھا جس کے بعد سپریم کورٹ نے ملزمہ عصمت آدم جی کو خاتون ہونے کی بنا پر یہ کہتے ہوئے ضمانت بعد ازگرفتاری دی کہ ضمانت کا یہ حکم ٹرائل کورٹ پر اثرانداز نہیں ہوگا۔

مقتولہ کے والد نے قتل کے دن ذاکر جعفر سے بات کی

شریک ملزم ذاکر جعفر کے وکیل بشارات اللہ خان نے پیر کے روز متعقلہ عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وقوعے کے روز پولیس کی جانب سے عدالت میں پیش کیے گئے موبائل فون ریکارڈ سے ان کے موکل کا قتل کے اس واقعہ سے منسلک ہونا ثابت نہیں ہوتا۔

بشارت اللہ خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پولیس نے ان کے موکل کے زیر استمعال موبائل سے کی جانے والی اور موصول ہونے والی کالز کا ڈیٹا فراہم کیا ہے جس میں وقوعہ کی دوپہر یعنی 20 جولائی سنہ 2021 کو ان کے موکل ذاکر جعفر اور شوکت مقدم کی 66 سیکنڈ کی کال کا بھی ذکر موجود ہے۔

ذاکر جعفر

مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر

انھوں نے کہا کہ اس کے باوجود مدعی شوکت مقدم نے پولیس کو نہ ہی متعقلہ عدالت کو اس بارے میں بتایا۔

ذاکر جعفر کے وکیل نے کہا کہ پولیس نے تفتیش کے دوران سات موبائل فونز کی کالز کا ریکارڈ فراہم کیا لیکن یہ موبائل جن افراد کے زیر استعمال تھے، ان سے کی جانے والی تفتیش کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔

ملزم ذاکر جعفر کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان موبائل فونز کی کالز کے ریکارڈ پر کسی متعقلہ سرکاری افسر حتی کہ پولیس کے دستخط بھی موجود نہیں ہیں جس سے اس ریکارڈ کے مستند ہونے کے بارے میں شکوک و شہبات جنم لیتے ہیں۔

’مقتولہ نور مقدم کے فون کا ڈیٹا حاصل کیوں نہیں کیا جا سکا؟‘

ذاکر جعفر کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ وقوعے کے دن یعنی 20 جولائی کو دوپہر ڈیڑھ بجے اس مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر اور ان کے موکل ذاکر جعفر اور مقتولہ کے والد شوکت مقدم کے درمیان گفتگو بھی ہوئی تھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شوکت مقدم کو معلوم تھا کہ ان کی بیٹی مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ساتھ ہے۔

انھوں نے کہا کہ تفتیشی افسر کی جانب سے عدالت میں پیش کی گئی ڈیجیٹل ویڈیو ریکارڈنگ سے معلوم ہوتا ہے کہ مقتولہ 18 جولائی سے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے گھر پر تھیں اور اس ویڈیو کے آنے کے بعد مدعی مقدمہ کے اس دعوے میں کوئی حقیقت نہیں رہتی کہ ان کی بیٹی کو حبس بےجا میں رکھا گیا تھا۔

وہ گھر جہاں نور مقدم کا قتل ہوا

وہ گھر جہاں نور مقدم کا قتل ہوا

بشارت اللہ خان کا کہنا تھا کہ تفتیشی افسر نے مقتولہ کے زیر استعمال فون کا ڈیٹا یہ کہہ کر عدالت میں پیش نہیں کیا کہ اس کی سکرین ٹوٹی ہوئی ہے جبکہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے زیر استعمال موبائل فون کا ڈیٹا بھی یہ کہہ کر فراہم نہیں کیا گیا کہ اس کو ڈی کوڈ نہیں کیا جا سکا۔

انھوں نے سوال اٹھایا کہ ایف آئی اے کا ’سائبر کرائم وِنگ کس مرض کی دوا ہے‘ جو ان موبائل فونز کو ڈی کوڈ نہیں کرسکا۔ ساتھ ہی ساتھ ان کا کہنا تھا کہ موبائل فون کی سکرین ٹوٹنے سے اس موبائل پر آنے والی کالوں کا ریکارڈ مسخ نہیں ہوتا۔

ذاکر جعفر کے وکیل کا کہنا تھا کہ اگر تفتیشی افسر چاہتے تو مقتولہ اور مرکزی ملزم کے درمیان واٹس ایپ پر ہونے والی کالز کا ریکارڈ بھی حاصل کرسکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔

’پولیس نے نور مقدم کا موبائل فون تبدیل کیا‘

اپنے دلائل کے دوران بشارت اللہ خان نے الزام عائد کیا کہ پولیس نے مقتولہ کے زیر استعمال فون کو تبدیل کیا ہے اور تفتیش میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پولیس نے ملزم ظاہر جعفر کے بیان کی روشنی میں مقتولہ کا موبائل فون برآمد کیا۔

اپنے دلائل کے دوران انھوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ جس روز وقوعہ ہوا اس دن مرکزی ملزم کے بقول ڈرگ پارٹی ہو رہی تھی لیکن پولیس نے تفتیش کے دوران ان افراد کو شامل تفتیش یا ان کے نام ریکارڈ پر لانے کی کوشش کیوں نہیں کی جو اس پارٹی میں شریک تھے۔

بشارت اللہ خان کا کہنا تھا کہ پولیس نے مدعی مقدمہ اور ان کی اہلیہ کو بھی شامل تفتیش نہیں کیا کیونکہ نور مقدم قتل کیے جانے سے پہلے ان دونوں کے ساتھ رابطے میں تھیں۔

انھوں نے کہا کہ مقتولہ کے والد نے پولیس کو بتایا تھا کہ 20 جولائی سنہ 2021 کو صبح دس بج کر 45 منٹ کے بعد نور مقدم کا موبائل فون بند تھا۔

انھوں نے کہا کہ مدعی مقدمہ نے تو تفتیشی افسر کو یہ بھی بتایا تھا کہ ان کی بیٹی کے پاس کس کمپنی کا موبائل ہے اور کنکشن کس کمپنی کا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

نور مقدم قتل کیس: ’ڈرگ پارٹی کے بعد ہوش آیا تو کوئی نور کو قتل کر چکا تھا‘

نور مقدم کیس: ظاہر جعفر کو کرسی پر بٹھا کر عدالت میں کیوں لایا گیا؟

’والد نے کہا گھبرانے کی ضرورت نہیں، لاش ٹھکانے لگانے کے لیے بندے آ رہے ہیں‘

’ذاکر جعفر کو بری کیا جائے‘

ذاکر جعفر کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل کو جب اس واقعے کا علم ہوا تو وہ اگلے ہی روز صبح کی فلائٹ پکڑ کر کراچی سے اسلام آباد آگئے اور اس مقدمے کی تفتیش کا حصہ بن گئے۔

بشارت اللہ خان کا کہنا تھا کہ ان کے موکل تین دن تک اس مقدمے کی تفتیش میں شامل رہے جنھوں نے ضمانت قبل از گرفتاری کروا رکھی تھی لیکن پولیس نے ان کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا۔

انھوں نے کہا کہ پولیس کو سات موبائل فونز کا ریکارڈ 27 جولائی کو موصول ہوا تھا تو پھر ان کے موکل کو 24 جولائی کو کیسے گرفتار کر لیا گیا۔

ملزم ذاکر جعفر کے وکیل نے اپنے دلائل کے دوران سوال اٹھایا کہ اس مقدمے کے مدعی نے ویڈیو دیکھ کر ان کے موکل کو مقدمے میں نامزد کرنے کا بیان 8 اگست کو دیا تو پھر دو ہفتے پہلے ذاکر جعفر کو کیوں گرفتار کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ مدعی مقدمہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مقتولہ نور مقدم نے گھر والوں کو بتایا کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ لاہور جارہی ہیں لیکن مدعی مقدمہ نے اپنی بیٹی کے ان دوستوں کے نام نہیں بتائے جن کے ساتھ نور مقدم کا لاہور جانے کا پروگرام تھا۔

ملزم ظاہر جعفر

مرکزی ملزم ظاہر جعفر

بشارت اللہ خان کا کہنا تھا کہ اگر کسی ایک بندے نے جرم کیا ہے تو اس کے ساتھ چار بے گناہ افراد کو ساتھ گھسیٹنا کسی طور پر قانونی نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان کے موکل کے خلاف کوئی شہادت نہیں ہے لہذا انھیں اس مقدمے سے بری کیا جائے۔

عدالت نے اس مقدمے کی سماعت 16 فروری تک ملتوی کر دی ہے۔ اس مقدمے کی اگلی سماعت پر مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل سکندر ذوالقرنین دلائل دیں گے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو مذید مہلت دے دی

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کی سماعت کرنے والی عدالت کی اس درخواست کو قبول کر لیا ہے جس میں کیس کا فیصلہ سنانے کے لیے مذید مہلت مانگی گئی تھی۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے حکم دیا گیا تھا کہ نور مقدم قتل کیس کی سماعت جلد از جلد مکمل کی جائے اور چار ہفتوں میں فیصلہ سنایا جائے۔

یہ مہلت 28 جنوری کو ختم ہو چکی تھی جس کے بعد کیس کی سماعت کرنے والی عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے مذید وقت کی درخواست کی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ درخواست قبول کرتے ہوئے نور مقدم کیس میں ٹرائل کورٹ کو مذید چار ہفتوں کا وقت دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments