اور کیا جرم ختم ہو گیا؟


چور مچائے شور
وزیر اعظم عمران خان صاحب کو دیکھتے ہی مرزا غالب کا ایک شعر یاد اتا ہے
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب شرم تم کو مگر نہیں آتی

یوں تو پاک و ہند میں مذہب کارڈ کھیلنا سب کا پسندیدہ مشغلہ ہے مگر خان صاحب کو کچھ خاص دسترس حاصل ہے۔ خان صاحب جانتے ہیں کہ عوام کی کس رگ کو دبا کر حمایت حاصل کی جا سکتی ہے۔ کبھی مذہب کے نام پر کشمیر کا شور مچا لیا کبھی عالمی سطح پر اسلاموفوبیا کا شور مچا کر عوام کو الو بنا لیا، اس پہ ستم کہ علم و فہم سے عاری عوام ان کے جھانسے میں آ جاتی ہے، کبھی تبدیلی کے نام پر تو کبھی اسلاموفوبیا پر آواز اٹھانے کے نام پر۔

جبکہ یہ بات میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ خان صاحب کو نہ تو مذہب کا کچھ علم ہے نہ اسلامی تاریخ کا ادراک اور واقعات سے بھی کچھ خاص واقفیت نہیں سوائے اسلاموفوبیا جیسے نام کی مالا جپنے کے، ورنہ اگر حقائق سے آگاہ ہوتے تو جسٹن ٹروڈو کے بیان پہ بغلیں بجانے کی بجائے ذرا سا گریبان میں جھانک کر چلو بھر پانی کی تلاش میں نکل جاتے۔ کیونکہ جس اسلاموفوبیا کا راگ الاپتے نہیں تھکتے اگر اس کی جانچ پڑتال کر لیتے تو دوبارہ زبان پہ کبھی اسلاموفوبیا کا نام نہ لائیں۔ کیونکہ حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمان کے مطابق جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے (اسلامی ممالک) وہاں غیر مسلم ان کے قوانین کے تابع رہیں اور جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں انہیں اپنی مرضی اور اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔

اسلامی ممالک میں کسی بھی اور مذہب کو اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت نہیں۔ کسی بھی غیر مسلم کو مکہ اور مدینہ میں داخلے کی اجازت نہیں۔ کسی غیر مسلم کو مسلم لڑکی سے شادی کی اجازت نہیں۔ عرب ممالک میں شہریت کا حق نہیں۔ بزنس کا حق نہیں۔ زمین نہیں خرید سکتے۔ حکومتی عہدہ حاصل نہیں کر سکتے۔ برابر کے شہری حقوق حاصل نہیں وغیرہ وغیرہ۔

اسکے برعکس کسی بھی مسلم کو مسیحی علاقے میں جانے کی ممانعت نہیں۔ مسلمان ہر مذہب کی لڑکیوں سے شادیاں کرتے ہیں، بشمول عمران خان کے جس نے اپنے سے آدھی عمر کی یہودی لڑکی سے شادی کی۔ تمام مسیحی ممالک میں جا کر شہریت حاصل کرتے ہیں، جائیدادیں بناتے ہیں۔ بزنس کرتے اور برابر کے حقوق حاصل کرتے ہیں۔ حکومتی عہدوں پر فائز ہیں جیسا کہ آج بھی برطانیہ جیسے مسیحی ملک میں بہت سے مسلمان اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ دوسرے ممالک میں جاکر اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں، ذاکر نائیک جیسے ٰمبلغ مسیحی ممالک میں جا کر ان سے مذہبی مناظرے کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

تو آخر میں خان صاحب سے گزارش ہے کہ کھلی آنکھوں سے حقائق کو جانیں اپنی سیاست کو ملکی ترقی سے منسوب کر کے اپنا ووٹ بینک بڑھائیں، مذہبی آسرا لے کر لوگوں کے جذبات کو نہ گرمائیں۔ مذہبی معاملات کو ایک طرف رہنے دیں ملکی مہنگائی اور عوامی مشکلات کے حل کا تلاش کریں۔ ورنہ یہ مثل آپ پر سچ صادق آتی ہے۔ چور مچائے شور۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments