ذہنی مریض کون؟ قاتل یا مقتول؟


”کیا آپ مجھے ناشتہ لے کر دے سکتے ہیں۔ “

ایک بلند، مہذب اور شائستہ آواز نے میرے قدم روک لئے۔ مڑ کر دیکھا تو ایک تیس پینتیس سالہ، پینٹ شرٹ پہنے، بال کھلے اور دوپٹہ گلے میں ڈالے درمیانے قد کی خاتون مجھ سے مخاطب تھی۔ میں اس وقت سرراہ ایک معروف ریستوران سے ناشتہ لے کر مڑا ہی تھا کہ اس خاتون کی آواز نے مجھے روک لیا۔ ایک لمحے کے لئے اس کی کیفیت کا اندازہ نہیں ہو سکا۔

”یہ لوگ ناشتہ بنا رہے ہیں۔ آپ بھی لے لیں۔ “
یہ میرے لئے تو نہیں بنا رہے ناں۔ کیا آپ مجھے ناشتہ کروا سکتے ہیں؟ اس نے سوال پھر دہرا دیا تھا۔
میں نے ریستوران والے کو کچھ رقم دے کر کہا کہ اسے ناشتہ کروا دیں۔

وہاں موجود لوگوں سے معلوم ہوا کہ بڑے گھرانے کی خاتون ہے لیکن ذہنی معذوری کی وجہ سے ایسے پھرتی رہتی ہے۔ اس کا زیادہ سے زیادہ مطالبہ کھانے کے لئے ہوتا ہے۔ کچھ زائد رقم آ جائے تو غریبوں میں تقسیم کر دیتی ہے اپنے پاس کچھ نہیں رکھتی۔ میں یہی سوچتا ہوا وہاں سے نکلا کہ بظاہر نارمل نظر آنے والا انسان بھی کسی ذہنی کیفیت کی وجہ سے معذور ہو کر اس حالت کو پہنچ سکتا ہے۔

اتوار کو ضلع خانیوال کے قصبہ تلمبہ میں مذہبی جنونیت کی جیت اور انسانیت کی شکست کی تازہ مثال نے غمگین کر دیا ہے۔ بظاہر نارمل نظر آنے والے ایک ذہنی معذور کو پتھروں اور ڈنڈوں سے مار کر اور پھر درخت کے ساتھ لاش کو لٹکا کر ”پروانوں“ نے بزعم خود اسلام کی خدمت سرانجام دی ہے۔ ایک لمحہ کے لئے اپنی ہستی کو اس شخص کی جگہ تصور کیجئے۔ جان حلق کو آتی ہے بلکہ نکلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ہجوم کے ہاتھوں اذیت ناک موت پانے والا اپنی آخری سانس تک یہ سمجھنے سے قاصر ہو گا کہ اسے کیوں مارا جا رہا ہے۔

اس نے کس کو تکلیف دی ہے۔ کس کے جان و مال کے لئے وہ خطرہ بنا کہ اس قدر ہیبت ناک اور دردناک عذاب سے اسے گزارا جا رہا ہے۔ کون سا ایسا جرم اس سے سرزد ہو گیا ہے کہ جس میں کوئی رپٹ نہ ایف آئی آر۔ کوئی گواہ نہ وکیل، کوئی جج نہ فیصلہ۔ سیدھا فرد جرم عائد اور لمحوں میں فیصلہ۔ اگلے چند منٹوں میں فیصلہ پر عمل درآمد۔ بس جتنا آپ ڈھیٹ ہیں۔ جتنے سخت جان ہیں۔ اتنے منٹ زندگی آپ کو مل جائے گی۔

عام طور پر اخبارات نے اس مقتول کو ذہنی مریض لکھا ہے۔ چند ایک نے اس مظلوم کا نام مشتاق احمد رپورٹ کیا ہے۔ ذہنی مریض یا نیم دیوانہ کوئی فرد بھی کوئی ایسی حرکت کر سکتا ہے جو ہمارے بنائے ہوئے اصولوں اور معاشرتی آداب پر پوری نہ اترتی ہو۔ لیکن ایسا فرد تو پہلے ہی ہماری حدود و قیود سے ذہنی طور پر با ہر جا چکا ہو تا ہے۔ نہ وہ ہم سے ادب و احترام کا مطالبہ کرتا ہے نہ نوکری اور بزنس کی بات کرتا ہے۔ کچھ مانگتا بھی ہے تو کیا صرف زندگی کی آخری سانسیں پوری کرنے کے لئے کچھ کھانا۔ اور بھی اکثر حالات میں بچا کھچا یا گرا پڑا اٹھا کر کھا لیتا ہے۔ ذہنی مریض کون ہوتا ہے۔ وہی ناں جو اپنے ہوش و حواس میں نہ ہو۔ اپنے معاملات کی کما حقہ دیکھ بھال نہ کر سکے۔ عالمی سطح پر ذہنی معذور کی کی گئی تعریف میں سے چند فقرات آپ کی نذر۔

”ذہنی طور پر بیمار شخص کا مطلب ہے کہ وہ شخص جس میں خود پر قابو پانے، فیصلہ کرنے یا صوابدید استعمال کرنے کی کافی حد تک کمزور صلاحیت ہو۔ جو غلط طرز عمل یا تسلیم شدہ جذباتی علامات سے وابستہ ہو۔ خراب صلاحیت، ناموافق طرز عمل یا جذباتی علامات کا تعلق جسمانی، نفسیاتی یا سماجی عوامل سے ہو سکتا ہے۔“

”وہ جو عارضی طور پر اپنے طرز عمل کی تشخیص یا کنٹرول کرنے کے قابل نہیں ہے۔“

”ذہنی معذوری کا مطلب ہے سوچ، مزاج، ادراک یا ادراک کی صلاحیت کا ایک خاطر خواہ عارضہ جس کے نتیجے میں نمایاں فنکشنل معذوری پیدا ہوتی ہے، جو موافق طرز عمل میں نمایاں مداخلت کرتی ہے۔ “

امریکی نفسیاتی ایسوسی ایشن کے ”تشخیصی اور شماریاتی مینوئل آف مینٹل ڈس آرڈرز“ کے حالیہ ایڈیشن میں وضاحت کی گئی ہے کہ ذہنی معذوری کا مطلب ایک یا ایک سے زیادہ ذہنی عوارض ہیں۔

پھر مسلمہ اصول یہ ہے کہ ذہنی معذوری کو جسمانی معذوری کے برابر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اور تمام عام اسپتال (سرکاری اور نجی) ایسے فرد کا ہنگامی نفسیاتی علاج کرنے سے انکار نہیں کریں گے۔

ذہنی معذوری سوچ اور ادراک میں نمایاں کمی کر دیتی ہے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مفقود ہونے لگتی ہیں۔ کیا آج بحیثیت قوم ہماری اجتماعی سوچ کی صلاحیتیں درست سمت میں رواں ہیں۔ جب ہم دیوانوں سے بھڑنا شروع ہو گئے ہیں اور ان پر بھی شریعت کے احکام لاگو کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں جو مستثنی ہیں۔ ایسی صورت میں اصل ذہنی مریض کون ہے۔ ؟ ہم جن کی زبانوں کو انسانی لہو کا چسکا لگ گیا ہے یا وہ مظلوم جو ہمارے قہر کا ناحق شکار بن رہے ہیں۔

سیالکوٹ میں فیکٹری منیجر پریانتھا کمار، سیالکوٹ کے حافظ قرآن بھائی، مشال خان، شمع مسیح۔ اور پشاور، گھوٹکی، ننکانہ صاحب، چک سکندر، گوجرانوالہ، ماڈل ٹاؤن کہ گڑھی شاہو۔ ہر گاؤں، قصبہ اور شہر میں ہمارے جنون کی وحشت درو دیور پر سیاہی بکھیر رہی ہے۔ ہر واقعہ میں ہماری درندگی جیت جاتی اور انسانیت ہار جاتی ہے۔ ایسے ہر المیہ کو رقم کرتے ہوئے شہر آشوب قرطاس پر امڈ آتا ہے۔

American Psychiatric Association
کی ویب سائٹ پر ایک فقرہ لکھا ہوا ہے۔ ”بہت سے لوگ جن کو ذہنی بیماری ہے وہ اس کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ذہنی بیماری شرمندہ ہونے کی کوئی بات نہیں ہے! یہ دل کی بیماری یا ذیابیطس کی طرح ایک طبی حالت ہے۔ اور ذہنی صحت کے حالات قابل علاج ہیں۔“

ہم بھی بحیثیت قوم اس اپنی اس ذہنی معذوری کو بیماری تسلیم کرنے کو تیا رہیں نہ علاج کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ کہ یہ مرض قابل علاج ہے۔ لیکن اس کا علاج ہرگز چند مذمتی فقرے نہیں ہے۔ ”جب تک زندہ ہوں آئندہ ایسا واقعہ نہیں ہونے دوں گا“ کی خالی بڑھک اس کا علاج نہیں۔ ذمہ داروں کو کہیں تلاش کرنے کی ضرورت تو نہیں ہے کہ وہ تو دائیں بائیں بٹھا رکھے ہیں اور کچھ بیٹھنے کی مکمل تیاری میں ہیں۔

”اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ذہنی و نفسیاتی امراض کے شکار افراد کی تعداد 50 ملین تک ہے۔“

لیکن افسوس ناک اور خطرناک بات یہ ہے کہ سرکاری سرپرستی میں ان ذہنی و نفسیاتی مریضوں کی تعداد میں دن دوگنا رات چوگنا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ عفریت معاشرے کو نگلنے کی تیاری میں ہے جبکہ نیرو بانسری بجا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments