درد کا نظریہ کیا ہے؟


سب انسان ضرور ہیں مگر سب ایک دوجے کی عزت و حرمت کرنے کی عبادت سے ناآشنا ہیں۔ سب انسانوں کی عبادت گاہیں الگ الگ ہیں۔ دنیا کے لین دین میں اور خدا جدا جدا ہیں۔ کسی کے لئے کچھ سفید ہے تو کسی کے لئے سیاہ مگر آخر سب انسان ہیں۔ درد سب کو ہوتا ہے۔ آنسو سب کے ٹپکتے ہیں۔ درد ہی سب کو متحد کرتا ہے۔ دکھ کے وقت سب کی آنکھیں بھیگتی ہیں۔ بھیگی سرخ آنکھیں جب چہرے پر سجتی ہیں تو سب آئینے میں جا کر ضرور دیکھتے ہیں کہ سوجھی لال آنکھیں ان کے دکھی چہروں کو کس قدر دل کش بنا دیتی ہیں۔ مجھے بھی لگتا ہے کہ رو کر میری کالی آنکھیں جن کے اطراف سرخ رگوں کے ڈورے ابھر آتے ہیں، مجھے پہلے سے کچھ وقت کے لئے ہی مگر حسین بنا دیتی ہیں۔ دنیا کے ہر کونے میں بیٹھا روتا شخص ایسے محسوس کرتا ہے۔ آنسوؤں سے پہلے سب کی آنکھوں کی رگیں ایک دل سوز ٹیس اٹھاتی ہیں۔ بھوک زدہ انسان کے سامنے اگر کھانا رکھ دیا جائے، جو ٹیس اس کی گالوں اور زبان کے نچلے حصے میں اٹھتی ہے یہ بھی اس کی ہمنوا ہے۔ نوکیلی درد کی معصوم لہر، کرچیوں کا احساس دلاتی، کانچ کی حتمی تعریف کیا ہوگی، آنکھوں کے بہت اندر یہ اٹھتی ٹیس اس کی باضابطہ نمونہ ہوا کرتی ہے۔

شاید کسی دوسری کائنات میں کانچ کی صورت یہی ٹیس ہو۔ چھوٹی چھوٹی بہت سی ڈوریوں کو کاٹتی درد کی لہر آنسوؤں کی آمد کا پیش خیمہ ہوتی ہے جو درد کے بے شمار جھروکوں کو مجبور کرنے کے بعد سیلاب بن کر بدن سے کہیں باہر کودنے کی غرض سے آنسوؤں کا روپ دھارے بھاگنے کی جستجو کرتی ہے۔ اس کو کامیابی بھی ملتی ہے تو کبھی منہ کی کھا جاتی ہے۔ میں اس کو درد کے مقیاس کا لقب دوں گی۔ آنسو درد کا حجاب اٹھاتے ہیں۔ روایتی طور پر ہمیں یہی لگتا ہے کہ آنسو درد کا نشان ہیں۔ ضروری نہیں، یہ کچھ خاص لمحوں کی قید میں آ کر سکھ اور مسرت کا اشارہ بھی تو ہوسکتے ہیں۔ نرم، ہمدرد، گداز دل اور جذبات رکھنے والے اکثر خوشی میں آنسوؤں کے عوض ہی تو جھومتے ہیں۔

مگر درد سب کو ہوتا ہے، انسان کی فطری ارتقا کا مصمم حصہ جو ہے۔ جیسے جنگ کے محاذ دونوں فوجوں کے سپاہی ایک سے ہوتے ہیں۔ سب کی دو دو ٹانگیں، ہاتھ، آنکھیں کان، گردے، پھیپھڑے ہوا کرتے ہیں، ویسے سب کا ایک دھڑکتا دل جس میں بے مثال محبتوں کے آشیانے آباد ہوتے ہیں۔ شہر کے وسط میں لڑتے، نفرتوں کا مذہبی تفریق کی بنا پر برملا بے دھڑک بے رحمانہ اظہار کرتے آدمیوں کے بھی آشیانے ہوتے ہیں۔ دل میں سب کے لئے نہیں تو اپنوں کے لئے محبت ضرور ہوتی ہے۔ فکر معاش تو ہر مذہب کے پیروکار کو ہوتی ہے۔ دنیا کے ایک کونے میں بھی نوکری پیشہ اپنی کم تنخواہ اور زیادہ محنت و مشقت پر اداس ہے تو دنیا کے دوسرے کونے میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ سب کے غم ایک ہیں، دل دھڑکتے ہیں، آنکھیں درد کی ٹیسیں اٹھاتی ہیں مگر سب پھر بھی جدا ہیں۔ ایک راہ ہی نہیں۔ محبت کرنے سے عاری، رحم کرنے کے ناقابل اور دوستی کے جذبے سے معذرت خواں۔ محبتیں، ہمدردیاں راحتیں مختص کردہ ہیں۔ رحم چند کے لئے، تشدد بہت سوں کے لئے؟ جو ہم جیسا ہوا وہ قابل محبت و رحم۔

یہ کیسے بے ربط ضابطے ہیں ؛ احمقانہ اور جاہلانہ، ناسمجھ اور بے وقوفانہ۔

دنیا کا کوئی ایک منجدھار نہیں ہے، یہ بات بس عام کر دی گئی ہے، مگر دنیا کا منجدھار ایک ہی ہے۔ لوگوں کی انسانوں پر طاقت کو مزید سے مزید مضبوط اور منجمد کرنے کی لالچ میں انسانوں کی یکسانیت کو تنوع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ طاقت کی بیماری نے انسانوں کی بستیوں کو وبا کی طرح چاٹا ہے صرف اس لئے کہ بستی بستی آباد طاقت کے زور پر کمزوروں کی بے گورو کفن جیتی جاگتی میتوں پر ناچا جا سکے۔ درد ناچنے والے کو بھی ہوتا ہے مگر وہ ناچنا اس لئے بند نہیں کرتا کہ ناچ کے وقت اس کو درد نہیں ہوتا۔ درد اس قدر مضبوط ہے کہ اس کے خوف میں اس کی پرستش کی جا سکے، ایسی پوجا، ایسی عبادت کہ درد کسی کو نصیب نہ ہو۔

وہ ٹیسیں نہ اٹھیں جو آنسوؤں کی آمد سے قبل آنکھوں کی رگوں میں اٹھتی ہیں۔ درد ایسا عالمانہ جزو ہے کہ اس کا کوئی جنس ہے نہ صنف۔ یہ متنفر نہیں کہ صرف صنف اور جنس کو دیکھ کر ایک خاص انسان پر اس لئے وارد ہو کہ اس کو ایک جنس و صنف سے بے زاری ہے، فطرتی نفرت ہے۔ کسی کو درد لاجواب کرتا ہے تو کسی کو بے مثال بنا دیتا ہے۔ کوئی اس کی لذت میں کھو کر انسانوں کی دی گئی لغزشوں کو مٹاتا ہے، اس کی باریک اور پختہ نوکیلی اور زور آور تموج میں بہہ کر لذیذ لہروں کے ذائقہ سے لطف اٹھاتی ہے۔ کسی کو منزل ملتی ہے تو کوئی خود منزل بنتے ہیں۔ یہ دنیا بھر کے انسان اور حیوان غرض کہ ہر جاندار کی عالمی فطرت ہے، یہ تعلیم ارتقاء کی پڑھائی ہوئی ہے۔ درد کوئی بھی مخلوق نہیں چاہتی۔ درد کو قابل قبول بنانے کی خاطر کہ چند آدمیوں کی بات بنی رہے اس کو خود ساختہ صدق کے مطلب سونپ دیے جاتے ہیں۔

قربان کوئی عورت ہونا چاہتی ہے نہ ہی کوئی گائے یا بیل۔ دوسروں کے لئے درد اٹھانے کا کوئی دل سے روادار نہیں ہوتا، ان پر بس تھوپ دیا جاتا ہے۔ اگر قربانی کے جانوروں کو قربان ہونے کا مقدس شوق ہوا کرتا تو وہ چھریوں کو دیکھ کر بھاگنا چھوڑ چکے ہوتے۔ کوئی بیل یا گائے رسی چھڑا کر اس لئے نہ بھاگتے۔ مرنا تو کوئی بھی نہیں چاہتا، درد کوئی بھی اٹھانا نہیں چاہتا۔

پس انسان اگر یہ فیصلہ کر لیں کہ درد نہ دیں گے، کسی کا خون نہیں کریں گے۔ اپنی تخصیص کو ختم کر کے زندگیاں آساں بنائیں گے، کوئی کسی پر بھاری ہو گا نہ کوئی عورت کسی کی غیرت یا باندی ہو گئی تو لازم ہے کہ بہت سے درد مٹ جائیں۔ درد دے کر مزید تفریق تو پیدا کی جا سکتی ہے کہ اٹل سزا سزا نہیں درد ہوتا ہے، درد کی ہمہ گیریت سمجھ لی جاتی تو اس قدر انسانوں میں جدائی، بے وفائی، تنہائی نہ ہوتی نہ رنگ کی بنیاد پر، نہ مذہب نہ کسی نام نہاد فاضل صنف کی بنیاد پر۔ اس کائنات کا شاید مرکز درد ہی ہے جو سب کو ایک سا احساس محسوس کراتا ہے، یہی عالمی مذہب ہے اور واحد ایمان ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments