فاٹا اصلاحات یا بنی اسرائیل کا بچھڑا


\"\" جو حضرات پانامہ سرکس سے گردن گردن بور ہو چکے ہیں وہ چاہیں تو نکڑ پر لگے فاٹا سرکس کا رخ کر سکتے ہیں۔ یہ سرکس بھی ایکشن ، تھرل ، رومانس ، بڑھکوں اور ایڈونچر سے بھر پور ہے۔اس میں ہیرو ، ولن اور ایکسٹراز دل موہ لینے والے کرتب دکھا رہے ہیں۔

فاٹا انگریز کی افغان پالیسی سے پیدا ہوا۔ افغانستان کو اپنے زیرِ اثر لانے میں فوجی ناکامی کے بعد انگریز کے پاس دوسرا آپشن ایک غیر جانبدار افغانستان تھا جو برٹش انڈیا کی شمال مغربی سرحد پر کوئی گڑبڑ نہ کرے۔انگریز کو سرحدی قبائل زیرِ نگیں کرنے میں بھی ناکامی ہوئی لہذا ان قبائل کو مکمل طور پر افغان نسلی و قومی پلڑے میں جانے سے روکنے کے لیے ان سرحدی قبائل سے ان کے رواج اور اپنی انتظامی ضروریات کو ملا کر ایک سمجھوتہ کیا گیا۔

طے پایا کہ انگریز ان قبائل کی داخلی خود مختاری و ثقافت میں مداخلت نہیں کرے گا۔ اس کے عوض قبائل برطانوی نظامِ مواصلات و آمدورفت میں خلل نہیں ڈالیں گے اور حفاظت کریں گے۔ معاہدے کی خلاف ورزی پر قبیلے یا قبائل کو اجتماعی طور پر زمہ دار ٹھہرایا جائے گا اور انگریز کا نامزد پولٹیکل ایجنٹ تادیبی کارروائی فرنٹیر کرائمز ریگولیشنز (انیس سو ایک ) کے تحت کرنے کا مجاز ہوگا۔قبائلی ملک، عمائدین، رہنما اس فیصلے پر عمل درآمد کروانے کے ذمے دار ہوں گے اور اس تعاون کے عوض بعض مراعات یا سرزنش کے حق دار ہوں گے۔یعنی انتظامی شکل یوں بنی کہ سب سے اوپر سرکارِ انگلشیہ کا گورنر صوبہ سرحد، اس کے نیچے گورنر کا نامزد کردہ پولٹیکل ایجنٹ ، اس کے نیچے قبائلی ملک اور اس کے نیچے عام قبائلی۔اس انتظام کے تحت آنے والے قبائلی علاقوں میں کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی یا تنظیم سازی بھی جرم کے زمرے میں آتی تھی۔

چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو بس اتنا ہوا کہ سنتری بدل گئے مگر فاٹا کے پیروں میں زنجیریں وہی رہیں اور اسی حالت میں ان قبائلیوں کو کشمیر آزاد کرانے کے لیے بھیجا گیا۔پولٹیکل ایجنٹ کا ڈھانچہ اور مراعات یافتہ ملائک  فاٹا کی آزاد طبیعت اور رواج کے نام پر عام قبائلی کو حصہ دار بنائے بغیر آزادی لوٹتے رہے۔جب جب کسی نے اس ڈھانچے کو قومی دھارے کا حصہ بنانے کی بات کی تو اسے قبائلی غیرت  اور رواج کا جھنڈا دکھایا جاتا رہا۔قومی دھارے میں لانے کا مطلب قبائلی ترقی کے نام پر ملنے والی رقم کا آڈٹ اور پولٹیکل نظام کی خدائی کا خاتمہ تھا۔کون پسند کرے گا اپنے دودھ کی بالٹی کا الٹ جانا۔

خدا بھلا کرے طالبان کا جنہوں نے نائن الیون کے بعد قبائلی انتظامی ڈھانچہ توڑ تاڑ کے رکھ دیا۔فوجی آپریشنز کے نتیجے میں لاکھوں قبائلیوں کو گھر بار چھوڑنا پڑا اور ان کا سماجی ڈھانچہ درہم برہم ہو کے رہ گیا۔اس تباہی کے بطن سے فاٹا اصلاحات کی ضرورت پیدا ہوئی۔سب نے اتفاق کیا کہ اس سرزمینِ بے آئین کو دائرہِ آئین میں لانے کی ضرورت ہے۔

مگر وہ کام ہی کیا جو خوش نیتی کے ساتھ سیدھے سیدھے ہو جائے۔چنانچہ ذاتی خواہشات، سیاسی ترجیحات، خبروں میں رہنے کی ہوس کے خام مال سے فاٹا اصلاحات کے عمل کو بنی اسرائیل کا بچھڑا بنانے کا کام شروع ہو گیا۔ پہلا اعتراض یہ ہوا کہ جس چھ رکنی سرتاج عزیز کمیٹی نے اسی صفحات کا سفارشی مسودہ تیار کیا ہے اس کمیٹی کا کوئی رکن فاٹا کا رہائشی نہیں۔

بظاہر یہ اعتراض جائز اور مناسب ہے۔مگرفرض کریں باجوڑ  کا کوئی معزز اس کمیٹی میں شامل ہوتا تو کیا جنوبی وزیرستان، کرم ، اورک زئی، خیبر یا کسی اور خطے والے اسے کمیٹی میں اپنا متفقہ نمایندہ تسلیم کر لیتے؟ ویسے مولانا فضل الرحمان اور محمود اچکزئی کا شناختی کارڈ کہاں کا ہے ؟ ( جس کیبنٹ مشن پلان کی تجاویز کانگریس ، مسلم لیگ اور اکالیوں نے بظاہر تسلیم کیں۔کیا اس مشن میں کوئی ہندوستانی تھا ؟ )۔

یہ تجویز بھی بہت معقول ہے کہ خود فاٹا کے عام قبائلی سے ریفرنڈم میں پوچھ لیا جائے کہ بھائی تو کیا چاہتا ہے ؟ خیبر پختون خواہ میں مدغم ہونا چاہتا ہے ، الگ صوبہ چاہتا ہے یا جوں کا توں رہنا چاہتا ہے ؟ مگر ریفرنڈم کیسے ہو؟ اس وقت بھی فاٹا کے چھ سے آٹھ لاکھ باشندے پشاور تا کراچی بے گھری کی زندگی گذار رہے ہیں۔ان کے ملائک یا نمایندوں نے پچھلے ایک سو پندرہ برس میں کب کب کس کس مسئلے پر یہ مطالبہ کیا کہ ہم فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں عام قبائلی سے پوچھیں ؟ جب جب بھی اہم فیصلوں کی گھڑی آئی تو جرگے میں کتنے عام قبائلی مدعو کیے گئے؟

ہر بار قومی اسمبلی یا سینیٹ میں قبائلیوں کے نام پر حکومت کا ساتھ دینے یا نہ دینے یا مراعات حاصل کرنے کے فیصلے کس نے کیے ؟ منتخب نمایندوں نے یا عام قبائلیوں نے ؟ تو اب یہی منتخب نمایندے فاٹا اصلاحات کے بارے میں کسی متفقہ فیصلے پر کیوں نہیں پہنچ سکتے ؟ سوائے جے یو آئی اور پختون خواہ کے کون سی پارلیمانی پارٹی ریفرنڈم کا مطالبہ کر رہی ہے ؟ فاٹا سے کتنے ارکانِ اسمبلی و سینیٹ ریفرنڈم کے حق میں ہیں ؟ اگر اکثریت ریفرنڈم نواز ہے تو کروا لیجیے ریفرنڈم۔۔۔

مجھے نہیں اندازہ تھا کہ فاٹا کی خیبر پختون خواہ میں شمولیت غیرملکی سازش بھی ہو سکتی ہے۔بھلا ہو مولانا فضل الرحمان کا جنہوں نے اس غیر ملکی ایجنڈے کا بھانڈا پھوڑ دیا۔اب تو یوں محسوس ہو رہا ہے گویا خیبر پختون خواہ پاکستان کا نہیں لوگر اور پکتیا کی طرح افغانستان کا صوبہ ہے کہ جس میں فاٹا کی شمولیت سے ملکی سالمیت پارہ پارہ ہو جائے گی۔تو کیا ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں کے انتخابی حلقے سندھ کا حصہ ہیں ؟ تو کیا فاٹا بلوچستان کی قبائلی ایجنسیاں ہیں ؟ محمود خان اچکزئی یونہی تو کوئی بات نہیں کرتے۔

اب تو خیر زمانہ بدل گیا ہے مگر پہلے کوئی شادی ایسی نہیں ہوتی تھی جس میں عین نکاح کے وقت ماموں ، تایا ، پھوپھی یا خالہ میں سے کوئی ایک کسی بھی معمولی سی بات کو بہانہ بنا کر روٹھ نہ جائیں۔اور پھر سارا کنبہ شادی چھوڑ چھاڑ انھیں منانے اور انا کی مالش میں لگ جاتا تھا۔اس کے بعد یہ روٹھے ہوئے تایا یا پھوپھی ایسے مانتے تھے جیسے کنبے کی سات پشتوں پر احسان کر رہے ہوں۔

اب تو جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کہہ دیا ہے کہ فوج فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے حکومتی منصوبے کی حامی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ روٹھے ہوئے تایا اور ماموں کب بارات پر احسان کرنے پر رضامند ہوتے ہیں؟ ہو ہی جائیں گے۔پہلے کی طرح۔بارات لیٹ ہو سکتی ہے مگر رکتی کہاں ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments