تحریک عدم اعتماد کے متعلق چند سوالات


وطن عزیز کا اصل مسئلہ سیاسی عدم استحکام اور جمہوری کلچر کا فقدان ہے۔ جب تک یہ مسائل حل نہیں ہوتے جتنی مرضی حکومتیں تبدیل ہو جائیں حالات میں بہتری نہیں آ سکتی۔ موجودہ دور حکومت میں انتہا کو پہنچنے والی سیاسی محاذ آرائی کی زیادہ ذمہ داری وزیراعظم عمران خان پر عائد ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں اپنی افتاد طبع سے مجبور ہو کر جس اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا وہ ان کے عہدے کے شایان شان نہیں تھا۔

لیکن جس طرح یہ بات درست ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے پہلے دن سے سیاسی کشیدگی میں کمی لانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہونے دی۔ اسی طرح اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اپوزیشن نے بھی تحریک انصاف کی سیاست کے نقش قدم پر چلتے ہوئے موجودہ حکومت کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔ اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد ہی اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے خلاف مزاحمت شروع کر دی تھی۔ اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے خلاف جد و جہد کامیاب بنانے کے لیے پی ڈی ایم کے نام سے ایک سیاسی اتحاد بھی تشکیل دیا تھا اور اس اتحاد کے پلیٹ فارم سے حکومت ہٹانے کی غرض سے کئی کامیاب جلسے بھی منعقد کیے لیکن بعد ازاں یہ اتحاد اپوزیشن کے باہمی اختلاف کی نذر ہو گیا۔

اس اختلاف کی وجہ پیپلز پارٹی کا یہ موقف تھا کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے۔ پی ڈی ایم میں شامل دوسری جماعتوں کا لیکن اس وقت نقطہ نظر یہ تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے اس لیے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا امکان نہیں، جس کے بعد یہ بیل منڈھے چڑھنے سے پہلے ہی مرجھا گئی۔

حکومت کو گھر بھیجنے کی کوشش کرنا اپوزیشن کا جمہوری حق ہے اور آئین میں اس کا واحد طریقہ عدم اعتماد کی تحریک ہی ہے لیکن تین سال تک اس پر اپوزیشن کا اتفاق نہیں ہو سکا۔ اب اچانک اپوزیشن جماعتیں تحریک عدم اعتماد کے آپشن پر متفق ہو چکی ہیں تو یقیناً شکوک و شبہات پیدا ہوں گے کہ آخر وہ کون سی ٹھوس امید ہے جس کی بنیاد پر وہ اپوزیشن جماعتیں جو اس آپشن کی مخالفت کر رہی تھیں اب وہ بھی کامیابی کے لیے پر اعتماد ہیں۔

تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے حوالے سے آئین پاکستان میں درج طریقہ کار نہایت آسان ہے تاہم حکومت کو میسر وسائل کی بدولت اس تحریک کی کامیابی بہت ہی مشکل ہے اسی لیے اس طریقے سے آج تک ملکی تاریخ میں کسی وزیراعظم کو ہٹایا نہیں جا سکا۔ قومی اسمبلی کے کل ممبران کی تعداد کے تناسب سے کم از کم 20 فیصد ارکان کے دستخطوں سے تحریک عدم اعتماد پیش کی جا سکتی ہے اور قومی اسمبلی کا اسپیکر تین سے سات روز کے درمیان اس تحریک پر رائے شماری کا پابند ہے۔

عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کا فیصلہ ایوان کی اکثریتی رائے سے ہوتا ہے اور اگر تحریک منظور ہو جائے تو ایوان کا اعتماد کھونے کی بنا پر نہ صرف وزیراعظم بلکہ ان کی پوری کابینہ عہدوں سے فارغ ہو جاتی ہے۔ قومی اسمبلی کے اس وقت تک کے منظرنامے کے مطابق وزیراعظم عمران خان کو اکثریتی تائید حاصل ہے لہذا سوچنے کی بات ہے کہ یہ کوہ گراں ہٹانے میں کس طرح اپوزیشن کامیاب ہو پائے گی۔ صورتحال اب تک یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں تحریک عدم اعتماد کے خد و خال بیان کر پائی ہیں نہ ہی مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے کا کوئی فارمولا تیار ہوا ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں سے جب بھی اس متعلق سوال کیا جائے کبھی تحریک انصاف کے اراکین کی بغاوت کا ذکر ہوتا ہے تو کبھی اتحادیوں کی ناراضگی کا۔

یہ کہنا آسان ہے کہ تحریک انصاف کے بہت سے ارکان اسمبلی بغاوت پر آمادہ ہیں، بالفرض کسی اشارے پر حکمراں جماعت کے اراکین وفاداری بدلنے پر آمادہ ہو بھی جائیں پھر بھی ان کے سیاسی مستقبل کے تحفظ کی ضمانت کون دے گا؟ یہ بات طے ہے کہ وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کے صلے میں ایسے ارکان بالآخر اپنی نشست اور موجودہ پارٹی رکنیت سے محروم ہو جائیں گے۔ جس کے بعد یہ باغی ارکان آئندہ انتخابات میں یقیناً نون لیگ یا پیپلز پارٹی سے ٹکٹ مانگیں گے تو ان جماعتوں کے اندر اس حوالے سے مسائل نہیں پیدا ہوں گے؟

وزیراعظم کو ایوان کی اکثریت کی تائید سے محروم کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ان کو اتحادیوں کی حمایت سے محروم کر دیا جائے۔ اب تک مگر اپوزیشن کی جانب سے کی گئی بھرپور کوششوں کے بعد بھی نظر بظاہر یہی آ رہا ہے کہ وزیراعظم کے اتحادی حکومت کا ساتھ چھوڑنے پر قائل نہیں ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اپوزیشن کے پاس کیا آفر ہے جس کے لالچ میں ق لیگ اور ایم کیو ایم جیسے اتحادی وزیراعظم کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیں گے۔

یہ بات اپوزیشن سے بہتر کون جانتا ہو گا کہ ہمارے ہاں سیاست عوام کے مفاد یا کسی نظریے کے لیے نہیں بلکہ اقتدار، اختیار اور طاقت کے حصول کی خاطر کی جاتی ہے۔ حکومت کے اتحادیوں میں ایم کیو ایم کی مجبوریاں اس وقت سب سے زیادہ ہیں جن کے سبب وہ اقتدار کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ موجودہ حکومت سے الگ ہو کر کسی نئے سیٹ اپ کا حصہ بننے سے پہلے وہ اپنے کچھ ایسے مطالبات پورے ہونے کی یقین دہانی طلب کرے گی جو پیپلز پارٹی کبھی بھی دینے پر آمادہ نہیں ہوگی۔

ق لیگ کی حد تک دیکھا جائے تو اس وقت وہ تحریک انصاف کے ساتھ کمفرٹیبل فیل کر رہی ہے۔ اگرچہ پرویز الہی اس وقت پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ہیں لیکن عثمان بزدار جیسے کمزور وزیراعلی کی بدولت پنجاب میں ان کے مفادات بالکل محفوظ ہیں۔ میرے خیال میں ق لیگ کو جتنا حصہ فی الوقت میسر ہے محض عمران خان کی دشمنی میں اس سے زیادہ نون لیگ اسے دینے پر تیار نہیں ہوگی۔ بالفرض نون لیگ کی قیادت کی سیاسی بصیرت پر انتقامی جذبات اس قدر حاوی ہو جائیں کہ پنجاب کی وزارت اعلی وغیرہ وہ ق لیگ کے حوالے کرنے پر آمادہ ہو جائے تب بھی ماضی کے تجربات مدنظر رکھتے ہوئے چوہدری برادران کسی ضمانت کے بغیر زبانی کلامی یقین دہانی پر اعتبار کریں گے؟ یہ ضمانت یقیناً مولانا فضل الرحمن اور آصف زرداری کی نہیں ہوگی۔ جن کی ضمانت پر چوہدریوں کو اعتبار آ سکتا ہے، رواں سال ہونے والی چند تقرریوں کے علاوہ بھی کچھ معاملات ایسے ہیں جن کی وجہ سے ضمانتیوں کے لیے ضمانت دینا اور اشارے پیدا کرنا آسان نہیں رہا۔

بالفرض ان میں سے کوئی سہارا ملنے کے بعد تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو بھی جائے سوال پھر بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان بیساکھیوں کے ذریعے ووٹ کو عزت مل جائے گی؟ کیا صرف عمران خان کو وزیراعظم ہاؤس سے نکالنے کے بعد پاکستانی عوام کے مسائل حل ہوجائیں گے اور مستحکم جمہوری نظام قائم ہو جائے گا؟ قرائن بتا رہے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں کا ملغوبہ مل کر بقیہ مدت پوری کرے گا، جب تک اس چوں چوں کے مربے کے اپنے مفادات پورے نہیں ہوں گے عوام کے مفاد کی بات کون کرے گا؟ بالفرض تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نیا وزیراعظم قومی اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کرانے پر آمادہ ہو جائے۔ سوال پھر بھی ہونا چاہیے کہ کیا فارمولا طے پایا ہے کہ آئندہ واقعتاً غیر جانبدار اور شفاف انتخاب ہوا کریں گے اور عوام کا مستقبل عوام کے اپنے ہاتھ میں ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments