میری بیلن ڈائن!


میری پیاری بیلن ڈائن!

اپنے عشق کی بیل تو خیر منڈھے نہ چڑھ سکی، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ طعنہ ہے یا سوال لیکن دوست بہرحال پوچھتے ضرور ہیں :یار ہاشو! ہمیں تمہارے جیسا شکاری کیونکر ہو گیا؟ اب میں انہیں کیا جواب دوں؟ بس خفت مٹانے کے لیے بس یہ شعر گنگنا دیتا ہوں :

”گر بازی عشق کی بازی ہے، جو چاہو لگا دو ڈر کیسا“
گر جیت گئے تو کیا کہنے، ہارے بھی تو بازی مات نہیں ”

میرا خیال ہے کہ سارا معاملہ دس تاریخ کو ہوا، یہ وہی دن تھا جس دن میں نے فیقے دکاندار سے پوچھا تھا: ایسے کارڈ ہیں جن پر انگریزی میں لکھا ہوا ہو کہ میں صرف اور صرف تم سے پیار کرتا ہوں؟ فیقے نے ہاں میں سر ہلایا تو میں نے جھٹ سے کہہ دیا: تو پھر یوں کرو کہ جلدی سے مجھے ایسے دس کارڈ اچھے سے پیک کر دو، میں تو اپنی دھن میں مگن تھا، مجھے کیا معلوم تھا کہ تم بھی وہیں ہو، تم نے دس کارڈوں کا آرڈر سنا تو مجھے فوراً ہی دس نمبری ڈکلیئر کر دیا، کم از کم ایک بار پوچھ ہی لیتی کہ اتنے سارے کارڈ کیوں؟ بس اک وضاحت کا سوال تھا، مجھ جیسے سادہ انسان کو عشق زیب ہی نہیں دیتا، اب سوچتا ہوں کہ اب عاشقوں کو آنکھیں چار کرنے کے مرحلے سے گزر کر آنکھیں چار رکھنے کے مقام پر فائز ہونا ہو گا، آنکھیں چار ہوں گی تو آسانی رہے گی، دو آنکھیں رہیں گی سامنے کھڑے دکاندار پر اور دو اردو گرد کھڑے لوگوں پر۔

خیر! یہ تو پرانی بات تھی پورا ایک سال گزر گیا، کل تمہارے بندے کو انارکلی بازار کی تنگ گلیوں میں دیکھا تو تمہاری یاد آئی، میں نے اس کی خیریت پوچھی اور نہ ہی اس سے تمہاری خیریت کیونکہ اس کی بگڑی ہوئی حالت تمہاری شادابی و کامرانی کے قصے سنا رہی تھی اس کے ہاتھوں میں سموسے دیکھ کر تمہیں نہ پانے کا دکھ چھانے ہی لگا تھا کہ ”مسرت“ نے اس کی جگہ لے لی، اس میں ایسی برائی بھی کیا کیونکہ جس طرح سردی کا علاج گرمی اور آگ کا علاج پانی ہے بالکل ایسے ہی غم کا علاج خوشی ہے اور تم تو جانتی ہو کہ مسرت سے بڑھ کر میرے لیے بھلا کیا خوشی ہو گی؟

میری بیلن ڈائن! تم تو شاید بھول گئی ہو گی لیکن مجھے آج تک یاد ہے جب تم لوگوں نے گھر کا رنگ روغن کرانا تھا تو میں کیسے ایک رنگ ساز کا روپ دھار کر مہینا بھر وہاں بیٹھا رہا تھا، یار لوگ پوچھتے تھے : ہاشو! تم کب سے رنگ ساز بن گئے؟ میں چپ رہا، منظور تھا پردہ تیرا، میں انہیں کیسے بتاتا کہ دنیا میں رنگ تو بس عشق کے ہی ہیں، باقی تو بس سب (sub) رنگ ہیں، ایک مہینا اور لگ جانا تھا لیکن برا میرے ذہن کا کہ مجھ سے میرے ہاتھوں کا کنٹرول چھین کر دیوار پر تمہاری تصویر پینٹ کرا ڈالی، پسینا تو اس دن میرا بہت نکلا لیکن نہ وہ پسینا خشک ہوا اور نہ ہی مجھے میری مزدوری ملی بلکہ الٹا اس دن پورے محلے کو پتا چل گیا کہ رنگ ساز کس کا بیٹا ہے؟

ہاں مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں کامیاب عاشق بن کر سارے عاشقوں کی تاریخ کا دھارا بدلنا چاہتا تھا لیکن بن بیٹھا ایک نکما ریاضی دان، کل ایک پٹواری میرے پاس ایک پہیلی لے کر آ گیا کہ ایک ملک پر پچیس ارب روپیا قرضہ تھا، صادمین خان نے وہ قرضہ چکتا کرنے کے لیے پینتیس ارب قرضہ اٹھایا لیکن اب بھی اڑتیس ارب روپیا قرضہ باقی ہے، بوجھو تو کیسے؟ اب میں اسے کیسے بتاؤں کہ میں حساب کتاب میں اتا تیز ہوتا تو اس دن دس کارڈوں کا آرڈر نہ دیتا۔

خیر! بات لمبی ہو رہی ہے، مجھے مسرت کے بعد فرحت کا ساماں بھی کرنا ہے، بتانا تمہیں یہ تھا کہ میں اب نیک بن گیا ہوں، دن بھر گیان بانٹتا ہوں، اگر کبھی خوابیدہ فتنے جاگ اٹھیں تو خلق خدا سے آنکھ بچا کر پی بھی لیتا ہوں لیکن بس تیرا غم بھلانے کو، غالب کی طرح نہ تو مفت کی پیتا ہوں اور نہ ہی فاقہ مستی کے رنگ لانے کی خوش فہمی ہے، مجھے تو اسی دن رنگ لگ گئے تھے جب تمہارا کمرہ رنگتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا، غربت سے تنگ آ جاؤں تو فیس کا رخ کرتا ہوں جہاں ویسے تو میرے ہزاروں عاشق ہیں لیکن میں زیادہ وقت پھینے پلمبر کو ”دیتی“ ہوں، سب سے زیادہ مزہ اس وقت آتا ہے جب میں کوئی ثقیل اردو شعر ”لکھتی“ ہوں اور بہت لوگ شعر کے بہت مشکل ہونے پر مجھے بہت داد دیتے ہیں اور شعر کے سمجھ آ جانے کی اداکاری بھی کرتے ہیں، مجھے یہ جان کر بہت افسوس ہوا کہ تم دو من کی ہو گئی ہو، اس میں قصور تمہارا نہیں بلکہ میری کالی زبان کا ہے، تمہیں یاد ہو گا کہ میں ہوٹلنگ کرتے ہوئے اکثر تمہیں ”بھینس“ کہہ کر چھیڑتا تھا، لیکن پھر سوچتا ہوں کہ شاید میری زبان کالی نہ ہو بلکہ ہو سکتا ہے کہ تم نے میرے کہے لفظوں کی لاج رکھ لی ہو، یہ میرا آخری خط ہے، نیا پاکستان بن گیا ہے تو اب مجھے مسرت اور فرحت سے آگے نکلنا ہو گا، شاد رہو آباد رہو۔

فقط : تمہارا اپنا ہاشو شکاری


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments