کتنا دور اندیش تھا وہ


مجھے اس کا نام بھی یاد نہیں مگر اتنا یاد ہے کہ وہ ہندوستان کا وزیر تجارت تھا یہ دو ہزار آٹھ کی بات ہے۔ ہم پختونخوا اور فاٹا (موجودہ قبائلی اضلاع) کے بارہ صحافی ہندوستان کے سرکاری دورے پر گئے تھے۔ اس وقت کے وزیر خارجہ پر ناب مکھر جی (جو بعد میں ہندوستان کے صدر بھی بنے ) سے ملاقات کے بعد وزیر تجارت سے ملاقات طے تھی۔ نہ کوئی پروٹو کول نہ پی اے اور بابووں  کے جمگھٹے نہ انتظار، میزبان کی رہنمائی میں سیدھے ان کے دفتر پہنچے تو وہ اپنے لیپ ٹاپ میں کسی کام میں مصروف تھے۔ سادگی اور خندہ پیشانی سے ملے۔ اور آدھے گھنٹے تک پاک انڈیا تعلقات اور مجموعی صورتحال پر کھل کر بات چیت ہوئی۔ انڈیا کی موجودہ صورتحال دیکھ کر آج ان کی دور اندیشی کا قائل ہو گیا ہوں اس لئے ان کی دو باتیں رقم کر رہا ہوں۔

فرمایا۔ پاکستان اور انڈیا کے مسائل کی سب سے بڑی وجہ طاقتور اسٹیبلشمنٹ ہے خاص کر ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں، جب تک دونوں ممالک ان کی من مانیوں سے چھٹکارا نہ پالیں دونوں ممالک ترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کر سکتے۔

مزید کہا، پاکستان میں اس وقت حالات بہت خراب ہیں انتہا پسند قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں اور پورے معاشرے کو یرغمال بنالیا ہے۔ لیکن ہم ہندوستانیوں کو اس پر خوش ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں چاہیے کہ انتہا پسندی کے خاتمے میں پاکستان کی مدد کریں۔ کیونکہ انتہا پسندی ایک ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کا نام ہے یہ ایک سیلاب ہے اگر اس کا پھیلاؤ اسی طرح جاری رہا تو کچھ عرصے میں ہندوستان بھی اس کی لپیٹ میں آ جائے گا کیونکہ جغرافیائی سرحدیں اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔

مجھے معلوم ہے کہ یہ منسٹر صاحب کے ذاتی خیالات تھے۔ اور ایک دانشور وزیر کے خیالات منموہن سنگھ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی پر اثر انداز نہیں ہو سکتے تھے۔ اس لئے پاکستان اور انڈیا دونوں وہی کچھوے کی چال اب بھی چل رہے ہیں۔ جہاں تک ان کی دوسری بات انتہا پسندی کے پھیلنے کا تعلق ہے تو وہ اب روز روشن کی طرح عیاں اور ثابت ہو چکی ہے۔ اب مسلم انتہا پسندی پھیلتے پھیلتے ہندوں انتہا پسندی میں ڈھل چکی ہے۔ قبائلی اضلاع وزیرستان اور باجوڑ سے شروع ہونے والی بے چینی اب کرناٹک اور بمبئی کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔

اور ڈیڑھ ارب کی آبادی کا سیکولر ہندوستان اپنی تمام تر مضبوط جمہوری روایات اور مستحکم سیاسی پارٹیوں کے باوجود انتہا پسند جتھوں کے سامنے کسمسا رہا ہے۔ بڑے بڑے سیاسی لیڈر اپنے ذاتی و سیاسی مفادات کے پیش نظر چھپ سادے ہوئے ہیں، صحافی لکھاری اور آرٹسٹ تک منہ کھولنے کی ہمت نہیں کر پا رہے ہیں۔ مہینے بعد کسی کونے کھدرے سے کسی دانشور کی مخالفانہ آواز سامنے آتی ہے تو انتہا پسند ان کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔

پاکستانی طالبان نے تو اپنے عروج کے دور میں بھی پاکستان کے صرف قبائلی علاقوں میں رٹ قائم کرنے کی کوشش کی تھی عوام کی اکثریت تو ان کی ہم نوا نہیں تھی۔ اس لئے وہ ملک بھر میں صرف دھماکے کر رہے تھے جبکہ نریندر مودی کی آر ایس ایس نے پورے ہندوستان کو یرغمال بنالیا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں انتہا پسند اقلیت میں تھے تمام باشعور عوام ان لوگوں کے خلاف تھے سیاسی جماعتوں کی اکثریت پارلیمنٹ کے اندر اور باہر انہیں دہشت گرد کہتی رہی ہیں جبکہ ہندوستان میں انتہاپسند نہ صرف اکثریت میں ہیں بلکہ اقتدار انہی انتہا پسندوں کے ہاتھ میں ہے۔ اور اراکین پارلیمان اور وفاقی وزرا کے بیانات سن کر انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ ڈیڑھ ارب کی آبادی پر مشتمل دنیا کے سب سے بڑے جمہوریت اور سیکولر ملک کے عوام کو آخر کس بلا نے کاٹا تھا کہ انھوں نے اقتدار ایسے پاگلوں کے حوالے کیا ہے جو اکیسویں صدی میں بھی آئین قانون اور عالمی انسانی حقوق کے بر خلاف ملک کی دوسری بڑی آبادی یعنی بیس کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کو غلام بنانے یا ملک چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہے۔

کسی ملک صوبے یا ریاست میں حجاب پر پابندی لگانا یا ہٹانا ایک قانونی اور انسانی حقوق کا مسئلہ ہے مگر اگر قانون بن بھی جائے تو اسے سرکاری مشینری کی بجائے انتہا پسند عوام کے ذریعے لاگو کرنا انارکی پھیلانے کے سوا کیا نتیجہ دے سکتا ہے۔ کرناٹک میں گزشتہ دو ہفتے سے جو ناٹک چل رہا ہے باحیاء اور باحجاب خواتین پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا ہے۔ سکول جانے والی معصوم بچیوں کو مشتعل جھتوں کے ذریعے ہراساں کیا جا رہا ہے۔

گائے کا گوشت کھانے والے مسلمانوں کو دھمکیاں دی جا رہی ہے اور ان کو مارا پیٹا جاتا ہے۔ مدھیہ پردیش میں لاؤڈ سپیکر میں اذان دینے پر پابندی لگائی جا رہی ہے اور اس مقصد کے لئے تمام اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ جبکہ پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہو کر اتر پردیش سے منتخب رکن اسمبلی رگویندر سنگھ دھمکی دیتا ہے کہ اگر دوبارہ منتخب ہوا تو مسلمانوں کی ٹوپیاں اتروا کر انہیں تلک لگواؤں گا۔ علی ہذالقیاس۔ روزانہ کے حساب سے کسی نہ کسی ہندوستانی ریاست میں اسی قسم کے بے شمار واقعات رونماء ہوتے ہیں، اب تو انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے لئے بھی تمام تر مصلحتوں کے باوجود مزید خاموش رہنا ممکن نہیں رہا اس لئے ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور امریکی ارکان پارلیمنٹ نے بھی ہندوستان پر تنقید شروع کردی ہے۔

ان کی دیکھا دیکھی بھارت ہی کی عالمی شہرت یافتہ مصنفہ ارون دھتی رائے نے بھی کھل کر بات کی اور کہا کہ نہ صرف یہ کہ کشمیر کو آزادی ملنی چاہیے بلکہ مزید کہا کہ ہندوستان میں ہندو قوم پرستی ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نریندر مودی نے دوسری مرتبہ اقتدار میں آ کر کھل کر کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ اپنے انتہائی غلیظ اور تنگ نظر سوچ کو ایک فلسفہ اور نظریہ سمجھ کر دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے کے لئے حکومتی مشینری استعمال کر رہے ہیں جو ظاہر ہے کہ اس اکیسویں صدی میں ہندوستان کی تباہی کے سوا کوئی نتیجہ نہیں سکتی۔

اس لئے اب بھی وقت ہے دنیا بھر میں عموماً اور برصغیر میں خصوصاً اس کینسر کی طرح پھیلتے مرض کا علاج ڈھونڈا جائے۔ پاکستان اور انڈیا کو بدترین نقصان پہنچانے کے بعد یہ باقی ممالک میں بھی سرایت کرے گا۔ اس لئے تمام روشن فکر سیاسی مذہبی قیادت، دانشوروں لکھاریوں اور ہر طبقہ فکر کے نمائندہ افراد کو آگے آ کر کسی بھی نام سے جاری انتہا پسندی کے آگے بند باندھنا ہو گا۔ ورنہ یہ ناسور اس پورے خطے کو پھونک کر راکھ کردے گا۔ کیونکہ یہ خطہ نہ صرف دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کا مسکن ہے بلکہ ایک نیوکلیئر فلیش پوائنٹ بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments