نواز شریف کی غلطی اور عمران خان کا چانس



سیاست بے رحمی، خود غرضی اور مفاد پرستی کا کھیل ہے۔ اس میں دوستی اور خونی رشتوں کا بھی لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ باپ، بیٹا اور بھائی ایک دوسرے کے مقابلے پر کھڑا ہونے میں ہار محسوس نہیں کرتے۔ کیوں کہ طاقت اور اقتدار کا نشہ آنکھوں پر پٹی باندھ دیتا ہے۔

ایک مقبول سیاستدان ہر وقت موقع کی تاک میں رہتا ہے کہ کب اس کا مخالف غلطی کا مرتکب ہو اور وہ فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ نواز شریف نے ایسا ہی موقع عمران خان کو فراہم کیا۔ میاں صاحب اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان فاصلے عمران خان کے لیے نعمت غیر مترقبہ بن گئے۔

ن لیگ اور پیپلز ہارٹی نے عمران خان کو کبھی بھی سنجیدہ نہیں لیا تھا۔ وہ انہیں ایک کھلاڑی کی طرح ٹریٹ کرتے تھے۔ نواز شریف بڑے تحقیر آمیز انداز میں کہا کرتے تھے۔ ”جاؤ تم کرکٹ کھیلو، سیاست میں تمہارا کیا کام“ ۔ یہی ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ آج عمران خان چٹان کی طرح جم کر کھڑے ہیں۔ اور ملک کی باقی تمام پارٹیاں ان کے خلاف صف آرا ہیں۔ مگر وہ خان صاحب کی رخصتی کے حوالے سے گو مگو کا شکار ہیں۔

خان صاحب عوامی مقبولیت کے عامل شخص تھے۔ ان کو صرف ایک چانس کی ضرورت تھی۔ جو نواز شریف کے گھمنڈ اور خوش فہمی کی بدولت انہیں مل گیا۔ وزیراعظم عمران خان اس صدی کے خوش قسمت ترین سیاستدان ہیں۔ جو میدان سیاست میں بیس سال سے جدوجہد کر رہے تھے۔ مگر عوام کو متاثر کرنے میں کامیابی حاصل نہ کر سکے تھے۔ 2011 میں پہلے پیپلز پارٹی اور بعد میں نواز شریف کا طاقتور قوتوں سے سینگ اڑانا عمران خان کے لیے نیک فال ثابت ہوا۔

اور وہ سیاست میں تیسری بڑی قوت بن کر سامنے آئے۔ خان صاحب جو ایک وقت دلبرداشتہ ہو کر سیاست سے علیحدگی کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ انہیں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے نئی بوتل میں پرانی شراب کے طور پر پیش کر دیا۔ 2011 کے جلسے کو ہدایت کار نے جس کمال مہارت سے آرگنائز کرایا۔ اس کی کامیابی نے عمران خان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا

پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد اس بات کا یقین ہو چلا تھا۔ کہ جمہوریت کا پودا تناور درخت بن جائے گا۔ مگر پہلے میموگیٹ اور بعد میں ڈان لیکس کے غیر ضروری تنازعات میں الجھ کر دونوں بڑی پارٹیوں نے اسٹیبلشمنٹ کے لیے اپنے آپ کو ناقابل قبول بنا دیا۔ اینٹ سے اینٹ بجانے کا بچکانہ بیان بھی عمران خان کے لیے بڑا مبارک ثابت ہوا۔ گو کہ نواز شریف اس دھمکی آمیز بیان کے بعد زرداری صاحب سے فاصلے پیدا کرچکے تھے۔ مگر وہ باجوہ صاحب کو پہلی ہی میٹنگ میں ناراض کر بیٹھے۔ نواز شریف نے انہیں غیر اہم نشست پر بٹھا دیا۔ جس کو وسیع پیمانے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ لہذا ”ان“ کے دل کی میل صاف نہ ہو سکی۔ سیاست کے اس بے رحم کھیل میں صوفے، ٹوپی، کرسی اور سیلیوٹ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اگر اشرافیہ ان غیر اہم معاملات میں الجھ جائے تو ملک نہیں چلتے۔

وزیراعظم بھی آج کل انہی تنازعات کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ حکومتی امور اور اہم تعیناتیوں اور تقرریوں میں علم الاعداد کو لے آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی کشتی بھنور میں پھنس چکی ہے۔ سول معاملات میں تو ایسی باتیں قبول کی جا سکتی ہیں۔ مگر عسکری تعیناتی میں ایسا کرنا انتہائی پرلے درجے کی بے وقوفی ہے۔ جو خان صاحب نے جنرل ندیم انجم کی تعیناتی میں غیر ضروری رکاوٹ ڈال کر کی۔ اس حرکت پر نہ صرف طاقتور شخص کی سبکی ہوئی۔ بلکہ عمران خان کا اپنا ستارہ بھی گردش میں آ چکا ہے۔

یہ بات سب جانتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ خیمے میں اپنا سر ڈال چکی ہے۔ اس کے لیے واپسی کا راستہ نہیں بچا۔ جو غلطیاں نواز اور زرداری نے کیں، خان صاحب کو بہرحال ان سے بچنا چاہیے تھا۔ مگر وزیراعظم کی پرکشش اور جاہ و جلال والی کرسی پر بیٹھ کر سیاستدان اپنے آپ کو شہنشاہ عالم سمجھنے لگتا ہے۔ اس کی سوچ ہوتی ہے کہ کسی بادشاہ کی طرح ساری عمر کرسی پر چپکا رہے۔ اور اسے کوئی اتار نہ سکے۔ اس کے علاوہ وہ گھمنڈ میں آ کر اپنے سہولت کاروں کو بھی ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے لگتا ہے۔

یہی اس کی فاش غلطی ہوتی ہے۔ جب وزیراعظم اپنے حکومتی معاملات پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اپوزیشن کو رگڑا دینے پر توانائیاں صرف کرے گا۔ تو ملک کیسے آگے بڑھے گا۔ اور معیشت کب درست ٹریک پر چڑھے گی۔ جب عسکری کے ساتھ ساتھ خارجہ امور، معیشت، تجارت اور اندرونی سیکورٹی بھی فوج نے ہی دیکھنی ہے۔ تو وزیراعظم صاحب کس مرض کی دوا ہیں۔ ان کو بھاشن دینے اور سیلیوٹ مارنے کے لیے تو نہیں رکھا ہوا۔ خان صاحب سے زیادہ شہباز شریف اور بلاول بہترین منتظم ثابت ہوسکتے ہیں۔ کم از کم ٹینشن اور بدتمیزی کی موجودہ فضا سے تو چھٹکارا ملے گا۔

اب اگر نون لیگ کی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو روز اول سے ہی نواز شریف کی جگہ شہباز شریف کو وزارت عظمی ’کے لیے منتخب نہ کرنا نہ صرف شریف خاندان بلکہ ملک کے لیے بھی گھاٹے کا سودا ثابت ہوا۔ اگر میاں شریف ایسی غلطی نہ کرتے تو طیارہ سازش کیس اور فوج اور عدلیہ کے ساتھ غیر ضروری لڑائیوں سے بچا جاسکتا تھا۔ ویسے بھی شہباز شریف بڑے تحمل مزاج اور دھیمے انداز کے سیاستدان ہیں۔ اور وہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے پنگا لینے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کا سب سے مائنس پوائنٹ یہ ہے کہ وہ اپنے بڑے بھائی کی حکم عدولی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

موجودہ بحرانی صورت حال سے نکلنے کا حل صرف عمران خان کے اپنے پاس ہے۔ وہ چاہیں تو بڑی آسانی کے ساتھ اپنی حکومت بچا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ان کو اپنے نادان دوستوں کے مفت مشوروں سے بچنے کی راہ اختیار کرنا پڑے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).