اپوزیشن کی شکست، شرمندگی اور کیلے کا چھلکا


ایوان بالا میں آج کل حکومت کا بول بالا ہے ؛ اور ایک ساتھ تین تین متنازع بلوں کی منظوری پر حزب اختلاف نے اپنی شکست پر اظہار شرمندگی کیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق ایوان بالا میں عددی اکثریت کے باوجود حزب اختلاف کو ایک بار پھر شکست سے دوچار ہونا پڑا، ایوان کے اندر اہم قانون سازی کے دوران حزب اختلاف اپنی اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ جواباً حکومت ایوان سے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس میں دو ترامیم، اقرا الائیڈ ہیلتھ پروفیشنل کونسل بل سمیت تین اہم بل منظور کرانے میں کامیاب ہو گئی۔ حزب اختلاف نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی ترمیمی بل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف کے کہنے پر وفاق سے اختیارات اتھارٹیز کو دے رہے ہیں، حکومتی اراکین نے موقف اپنایا کہ ان بلوں کا مقصد اتھارٹیز کو با اختیار بنانا ہے، اوگرا ترمیمی بلوں پر حکومت و حزب اختلاف کے مابین عدم اتفاق پر چیئرمین ایوان بالا کی جانب سے بلوں کو موخر کرنے کے بعد دوبارہ منظوری کے لئے ایوان میں پیش کرنے پر حزب اختلاف نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ وزیر مملکت علی محمد خان نے بل کے لیے تحریک پیش کی، جس کے حق میں حکومت کی جانب سے 29 ووٹ آئے، حزب اختلاف کی جانب سے بھی مخالفت میں 29 ووٹ آئے۔ بعد ازاں چیئرمین ایوان بالا نے اپنا ووٹ (کاسٹنگ ووٹ) حکومت کے پلڑے میں ڈال کر حکومت کو کامیابی دلائی۔

ایوان بالا میں الائیڈ ہیلتھ پروفیشنل کونسل بل متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا، اور بل کی مخالفت میں کسی نے ”نہ“ تک نہیں کہی۔ ایوان میں حکومتی نشستوں پر ارکان کی اکثریت کو دیکھتے ہوئے قائد ایوان نے پہلے سے مؤخر کردہ اوگرا ترمیمی بلوں کو ایوان میں دوبارہ سے پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ جس پر پیپلز پارٹی کے ایوان بالا اور قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی نے اعتراض کیا کہ اس بل کو چیئرمین نے مؤخر کیا ہے اس کو مزید پیش نہ کیا جائے، اور اگر مؤخر کرنے کے بعد بل پیش کیا گیا تو ہم ایوان سے واک آؤٹ کریں گے۔ دوسری جانب ایوان بالا میں وزیر مملکت علی محمد خان کی جانب سے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری بل ایک مرتبہ پھر پیش کر دیا گیا، اور حزب اختلاف جماعتوں نے ایوان سے واک آؤٹ کر دیا، حزب اختلاف کی عدم موجودگی میں ایوان نے اوگرا ترمیمی (دوسرا ترمیمی) بل کی منظوری دے دی۔

چیئرمین ایوان بالا نے اوگرا ترمیمی بل کی منظوری پہلے موخر کی اور ایوان میں حکومتی ارکان کی اکثریت ہوتے ہی بل منظوری کے لئے پیش کر دیا۔ حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ بل کی منظوری پر شرمندہ ہیں۔ اسے پہلے مشترکہ مفادات کونسل کے پاس جانا چاہیے تھا۔ پٹرول قیمتیں بڑھنے پر قوم پریشان ہے۔

اس موقع پر پی پی پی کے تاج حیدر نے توجہ دلائی کہ مستقبل میں لائن لاسز کو کنٹرول کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہونا چاہیے نہ کہ ٹیرف میں بار بار اضافہ۔ انہوں نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر کام شروع کرنے پر بھی زور دیا تاکہ سستی گیس مل سکے۔

پی پی کی ہی رہنما رضا ربانی نے آئین کے آرٹیکل 154 کا حوالہ دیا، جس میں لکھا ہے : ”کونسل وفاقی قانون سازی کی فہرست کے حصہ II کے معاملات کے حوالے سے پالیسیاں بنائے گی اور ان کو منظم کرے گی اور متعلقہ اداروں کی نگرانی اور کنٹرول کا استعمال کرے گی۔“ انہوں نے کہا کہ دونوں بلوں کو سی سی آئی کے پاس جانا چاہیے، ورنہ انہیں عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمان نے ریگولیٹری اتھارٹیز کو بین الاقوامی کثیر الجہتی اداروں کو براہ راست جوابدہ بنانے کے اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا انہوں نے کہا کہ پاکستانی اداروں کو آئی ایم ایف کے ماتحت کرنے کے باوجود پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہے گا۔

مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر اعظم نذیر تارڑ نے قانون سازی کے کام میں سنجیدگی پر زور دیا اور زور دیا کہ قوانین کی منظوری کے دوران آئین کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ایوان سے ڈیڑھ منٹ کے اندر اندر دور رس اثرات والے بل پاس ہو گئے۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ ایک ’ذہین وزیر قانون‘ کی موجودگی میں سنگین قانونی خامیوں والے بل ایوان میں کیسے آ گئے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اعظم نذیر تارڑ کی حیرت غیر ضروری ہے کیوں کہ انہی ایوانوں میں ایک دن میں 36۔ 36 بل بھی منظور کیے گئے ہیں، لیکن بدقسمتی تو دیکھیے کہ اس شاندار رکارڈ کو گنیز بک آف ورلڈ رکارڈ میں شاید اسلاموفوبیا کے باعث جگہ نہیں دی گئی!

محسوس یوں ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں حکومت کسی قسم کا بل بھی منظور کرا سکتی ہے۔ تاہم ابھی تک جتنے بھی بل منظور کیے گئے ان میں ایک بات واضح ہے کہ عوام ان سے ناخوش ہیں۔ جب کہ حکومت کی طرف سے ”اچانک ووٹنگ“ اور ”موخر کردہ بلوں کی دوبارہ پیشکش“ جیسی ”کامیاب حکمت عملی“ سے حزب اختلاف کو عذر لنگ بھی فراہم کیا جاتا رہا ہے۔

اگرچہ ان بلوں کا مقصد اتھارٹیز کو با اختیار بنانا بتایا جا رہا ہے لیکن حزب اختلاف اور سیاسی اور سماجی حلقوں کے خیال اس کے برعکس ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس قسم کے بلوں کا مقصد اداروں کو با اختیار بنانے سے زیادہ پارلیمنٹ کو بے اختیار بنانا لگ رہا ہے۔ جب کہ اس کے عیوض کسی بھی معاشی یا سیاسی فائدے کی امید بھی نہیں نظر آتی۔ جیسا کہ پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمان نے ریگولیٹری اتھارٹیز کو بین الاقوامی کثیر الجہتی اداروں کو براہ راست جوابدہ بنانے کے اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ پاکستانی اداروں کو آئی ایم ایف کے ماتحت کرنے کے باوجود پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہے گا۔

ایوان بالا میں قائد ایوان شہزاد وسیم نے کہا کہ بھٹو نے بھی جلسے میں کہا تھا دنیا میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں ہم کیا کریں۔ ان کی مراد ذوالفقار علی بھٹو سے تھی، لیکن یہ کہتے وقت وہ یہ بھلا بیٹھے کے بھٹو کا دور وہ دور تھا کہ جب بھٹو صرف مہنگائی سے ہی نبردآزما نہیں تھے بلکہ ایک شکست خوردہ ملک کی قیادت کر رہے تھے، آج کل کی عوامی زبان میں بولیں تو بھٹو کو تو دوسروں کا پھیلایا ہوا رائتہ صاف کرنا پڑا، تاہم انہی کے دور میں عوام کو بڑے پیمانے پر روزگار کی فراہمی کا سلسلہ ملک و بیرون ملک عروج پر تھا۔ حقیقت میں ملک کا خوشحالی کا بڑا دور انہی کی حکومت میں شروع ہوا تھا۔ جب کہ ان کے گھاس کھانے کے عزم کے دہرانے سے پہلے قوم بنگلہ دیش کی آزادی اور پان کی عدم دستیابی کے باعث مولی کے پتے بطور پان چبا رہی تھی۔ اور کاغذ کے بحران کے سبب رنگ برنگے اخبارات بھی زیر مطالعہ تھے۔

اور آج گٹکا خوری میں اضافہ اور اخبارات میں عوام کی عدم دلچسپی نہ صرف معاشی غربت کی علامت ہے بلکہ ذہنی افلاس کی بھی!

ایوان بالا میں ایک دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب ووٹوں کے برابر ہونے پر چیئرمین ایوان بالا نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ پھر مصیبت میرے اوپر آ گئی اور انہوں نے اپنا ووٹ (کاسٹنگ ووٹ) حکومت کے حق میں ڈال دیا۔ اور یوں ایک بار پھر انہوں نے کیلے کے چھلکے کو پھلانگنے سے اجتناب کیا!

کیلے کے چھلکے کو پھلانگنے سے اجتناب کا قصہ خاصہ دلچسپ ہے۔ کہ ایک صاحب بہ عجلت کہیں جا رہے تھے، اور ان کو راستے میں پڑا کیلے کا چھلکا نظر نہیں آیا اور وہ اس پر پھسل کر گر پڑے تاہم اٹھے اور کپڑے جھاڑ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔ اگلے دن پھر اسی جگہ پر ان کو کیلے کا چھلکا نظر آیا اور وہ پریشان ہو کر بولے، ”یا خدا۔ آج پھر پھسلنا پڑے گا!“

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments