شمشال: جب صدر پاکستان کے انکار پر لوگوں نے خود دشوار سڑک بنائی


میں پاکستان کے اس گاؤں سے تعلق رکھتا ہوں جہاں پاکستان چائنا سے جا ملتا ہے ظاہر ہے جب ایک گاؤں ایک ہمسایہ ملک کو دوسرے ملک سے ملاتا ہے تو وہ سرحد پہ واقع ہو گا۔ بالکل ایسا ہی ہے شمشال گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں واقع پاکستان کا وہ سرحدی گاؤں ہے جہاں 252 گھرانے مقیم ہیں گاؤں کی کل آبادی کم و بیش دو ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں کا ہر باشندہ بطور سپاہی اپنے ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی بلا معاوضہ اور بنا یونیفارم صدیوں سے حفاظت کرتا چلا آ رہا ہے۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہاں مقامی حکومت کو بارڈر سیکورٹی فورس ( سرحدی محافظ) رکھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ حکومت وقت کا گاؤں کے لوگوں پر اندھا اعتماد ہے نہ تووہ کسی جرم میں ملوث ہیں نہ کسی غیر قانونی سرگرمیوں کے مرتکب۔ یہاں بین الاقوامی سرحدی اصولوں اور قواعد و ضوابط کی مکمل پاسداری کی جاتی ہے۔ گاؤں کا ہر گھر کہیں نہ کہیں رشتے کی لڑی میں ایک دوسرے سے منسلک ہے گاؤں کا ہر فرد ایک دوسرے کی حرکات و سکنات سے بخوبی واقف ہے۔

کمیونٹی پولیسینگ کا ایسا بہترین نظام موجود ہے کہ کسی سے غلطی سرزد ہونے پر فوراً اس کی غلطی کی نشاندہی کی جاتی ہے غلطی کو اصلاح کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور جس کسی سے غلطی سرزد ہو جائے تو آئندہ محتاط رہنے کا کہا جاتا ہے اچھے اور برے میں تمیز کی جاتی ہے درست عمل کو درست اور غلط کو غلط سمجھا جاتا ہے اس لئے غلط عمل کو کوئی سپورٹ نہیں کرتا غلطی کو دہرایا نہیں جاتا بلکہ غلطی کو اصلاح کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

شمشال میں سو فیصد اسماعیلی مسلم آباد ہیں جو اپنے روحانی پیشوا اور انچاسویں امام ہزہائی نیس پرنس کریم آغا خان کی فرامین اور ہدایات کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو سدھارنے کے لئے ہمیشہ سرگرم عمل رہتے ہیں ملکی قوانین کی پاسداری اور امن کے داعی بن کے رہنے کو یہ اپنا وتیرہ امتیاز سمجھتے ہیں۔ اسی گاؤں سے ثمینہ بیگ، رجب شاہ، مہربان شاہ، شاہین بیگ، قدرت علی سمیت کم و بیش چالیس مشہور و معروف کوہ پیماء پیدا ہوئے جنہوں نے کوہ پیمائی کے میدان میں پاکستان کا نام پوری دنیا میں مشہور کروایا۔

شمشال کے باسیوں نے 1985 میں اپنی مدد آپ کے تحت شمشال روڈ کی تعمیر کا کام گھنٹی، بیلچے، لیور اور ہاتھ ریڑھی کی مدد سے شروع کیا بعد ازاں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام ( اے کے آر ایس پی) اور حکومت گلگت بلتستان نے بھی مالی و تیکنیکی مدد فراہم کرنا شروع کیا اٹھارہ سال تک شمشال کے لوگوں نے محدود وسائل اور سخت موسمی حالات میں سنگلاخ چٹانوں سے پنجہ آزمائی کی۔ متعدد مشکلات اور ناکامیوں کے باوجود مایوس نہیں ہوئے صبر کا دامن تھامے رہے ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔

بالآخر انتھک محنت کے بعد 2003 میں شمشال براستہ جیپ ایبل روڈ قراقرم ہائی وے (کے کے ایچ) کے ساتھ منسلک ہوا۔ یوں ایک خواب نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔ 56 کلومیٹر طویل روڑ کی تعمیر میں مرد و خواتین، جوان اور بزرگ سب نے مل کر کام کیا۔ شمشال روڈ کی تعمیر سے قبل لوگ اپنے ضروریات زندگی کیسے گاؤں پہنچاتے تھے اس کی اپنی ایک الگ داستان ہے۔ شمشال روڈ کی تعمیر کے دوران تین رضاکاروں جعفر خان، محمد فالک اور محب علی نے جام شہادت نوش کیا وہ خود تو شمشال روڈ پہ سفر نہ کرسکے مگر اہالیان شمشال آج بھی ان کی قربانیوں کو یاد کرتے ہیں دوران سفر ان کے جائے شہادت پہ ان کی یاد تازہ کرتے ہیں اور ان کی اخروی زندگی کے لئے دعا مانگتے ہیں۔ پہلے پھسو گوجال ہنزہ سے شمشال پہنچنے میں پیدل تین دن لگتے تھے جو اب کم ہو کے تین گھنٹے رہ گئے ہیں آج ہنزہ کے ضلعی صدر مقام علی آباد سے شمشال کے لئے روزانہ کی بنیاد پہ مسافر گاڑیاں چلتی ہیں جو کسی وقت ایک خواب معلوم ہوتا تھا۔

شعیب سلطان خان جو اے کے آر ایس پی کے پہلے جنرل منیجر، رورل ڈیولپمنٹ گورو اور گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے ایک جانا پہچانا نام ہیں، نے 2018 میں اپنے داستان سفر شمشال بعنوان
*Visit to the end of the world*
میں تحریر کیا ہے کہ میر آف ہنزہ غضنفر علی خان نے ایک دفعہ صدر پاکستان جنرل ضیا الحق سے شمشال کے لوگوں کی مشکلات اور تکالیف کا تذکرہ کرتے ہوئے دو کروڑ روپے شمشال روڈ کی تعمیر کے لئے فراہم کرنے کی درخواست کی۔

صدر پاکستان نے دریافت کیا کہ وہاں کتنے گھرانے آباد ہیں جب انہیں بتایا گیا کہ اس وقت شمشال میں ایک سو بیس گھرانے رہائش پذیر ہیں تو صدر پاکستان نے یک دم جواب دیا کہا کہ ایک سو بیس گھرانوں کے لئے روڈ تعمیر کرنے کے لئے کروڑوں روپے قومی خزانے سے خرچ کرنے سے بہتر ہے انہیں گاؤں سے نکال کے نیچے کسی قدرے بہتر جگہ میں آباد کیا جائے۔ گاؤں کے لوگ کہتے ہیں کہ جب یہ بات ان کے علم میں آئی تو انہیں بہت ناگوار گزری انہوں نے اپنا آبائی گاؤں کسی صورت نہ چھوڑنے کا تہیہ کیا اور وہیں آباد ہونے کی ٹھان لی۔

یہ وہ لمحہ تھا جب یہاں کے لوگوں کی قوت ایمانی اور غیرت پہلے سے زیادہ پختہ ہوا۔ ہمت مردان مدد خدا کے مصداق انہوں نے کمر کس لی اور بظاہر ایک ناممکن کام کو اپنے بلند حوصلے، اولوالعزمی اور مضبوط قوت ارادی سے ممکن کر دکھا یا جو بذات خود ایک مثال ہے۔ شمشال کی تعمیر و ترقی میں وہاں کے سماجی و معاشی ترقی کے انوکھے نظام جسے وہاں کی مقامی وخی زبان میں نوموس کہتے ہیں کا بہت کلیدی کردار ہے اس نظام کے تحت صاحب استطاعت لوگ اللہ کی خوشنودی اور ثواب الہی حاصل کرنے کے لئے اپنے پیاروں کے نام سے مالی مدد فراہم کرتے ہیں اور گاؤں کے ہر گھر سے کم از کم ایک فرد بلامعاوضہ اپنی مزدوری کا نذرانہ دے کر اس کار خیر میں شامل ہونا اپنے لئے باعث اعزاز سمجھتا ہے اس نظام کے تحت رابطہ سڑکوں کی تعمیر، مسافر خانوں کا قیام، بنجر زمینوں کی آبادکاری کے لئے کوہلوں کی تعمیر، عوامی فلاح و بہبود کے لئے عمارتوں کی تعمیر، پیدل راستوں اور نہروں کی مرمت و توسیع سمیت بہت سارے ترقیاتی کام کیے جاتے ہیں گلگت بلتستان میں اس نظام سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔

جب بھی آپ اپنا تعارف ایک سرحدی گاؤں کے باسی ہونے کے حوالے سے کریں گے تو لوگوں کی ذہنوں میں سب سے پہلا سوال یہی آتا ہے کہ سرحدی، دورافتادہ اور پسماندہ گاؤں میں بیٹھنے کا کیا فائدہ ہے وہاں کیا رکھا ہے تو ایسے موقعوں پہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ شمشال میں خلوص ہے محبت ہے رواداری ہے امن و آشتی ہے مہمان نوازی ہے یک جہتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حب الوطنی ہے۔ صاف ستھرے فطری ماحول میں سادہ، خالص اور سستا خوراک کھا کے یہاں لوگ خوشی اور خود کفیل زندگی بسر کرتے ہیں۔ خوشی اور غم میں ایک دوسرے کے دست و بازو بنتے ہیں۔ پروین شاعر نے درست فرمایا ہے۔ بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے۔ یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے۔

پاکستان میں اس وقت لوگ بہتر سہولیات زندگی حاصل کرنے کے لئے دیہاتوں سے شہروں کی جانب منتقل ہو رہے ہیں شہروں پر دباؤ بڑھنے کے ساتھ پہلے سے موجود مسائل میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت گاؤں سے شہروں کی جانب منتقلی کے رجحان کو کم کرنے کے لئے گاؤں میں تعلیم، صحت، کھیل کود، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، سماجی بہبود اور دیگر ضروری سہولیات فراہم کریں تاکہ گاؤں سے شہروں کی بجائے شہروں سے گاؤں کی جانب منتقلی کی طرف لوگوں کا دھیان بڑھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments