میں تو شادی کروں گا، ایک دو تین چار


بھائی جی کو کنوار پنے میں قبض ہوا، تب انہوں نے شوخ انداز میں بتیسی نکال کے ایک چنچل نغمہ گایا تھا۔ سوری میرا خیال ہے، شادی والے بابو کے ہاں نغمہ تو حرام شے میں شمار ہو گا۔ انہوں نے کلام پڑھا ہے۔ اس میں انہوں نے شادیٔ عمد کا عندیہ دیا۔

کچھ دن گزرے، اس کلام نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑے۔ ثواب دارین، پیسہ اور شہرت کی صورت میں بھائی جی تک پہنچا۔ اللہ کے کرم سے وہ ایک شادی کے قابل ہو گئے۔ قبض کیا ٹوٹا کہ انہوں نے قوم کو چنچل ویڈیو کا ایک اور تحفہ دیا۔ میں تو شادی کروں گا، ایک دو تین چار۔

ان کے چہرے پر پھیلی ہنسی دیکھ کر لگتا ہے جیسے مغلیہ دور کا کوئی شہزادہ کنیزوں کی چاہ کر رہا ہو۔

ادھر عامر لیاقت نے اپنی شادی کا اعلان کرتے ہوئے بیوی کی اعلیٰ ذات اور عمر کا خصوصی تذکرہ کیا، جس پر ہمیں اپنے پڑوسی سلطان صاحب یاد آ گئے۔ قربانی کا بکرا ایک ایک کو دکھاتے ہوئے فخریہ لہجے میں بتاتے، اصیل اور کڑیل ہے! ۔ اور جب کوئی قیمت پوچھتا تو فخر سے کہتے ٹھٹھہ سے لایا ہوں۔ صرف پچیس ہزار کا ہے۔ صرف پچیس کا! کسی نے حیرت سے پوچھا۔ اس پر سلطان صاحب نے یوں جواب دیا۔

غریب لوگ تھے۔ ان کا کون سا خرچہ ہوا تھا اس پر۔ ان کے لیے پچیس بھی بہت تھے۔
ایک چینل پر عامر لیاقت اپنی تیسری شادی کا دفاع کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ شادی زنا سے بہتر ہے۔

پچھلے دنوں مفتی قاضی خان صاحب نے ابو حنیفہ کے ایک بیان پر وضاحت کرتے ہوئے فتویٰ دیا کہ (لنک نیچے موجود ہے ) ”اگر کسی شخص نے کسی عورت کو کرائے پر لیا، پیسے دے کہ میں تمہیں اتنے پیسے دوں گا تم مجھے زنا کرنے دو۔ عورت کو اجرت پر لیا اور اس سے زنا کیا، تو یہ جائز ہے“ ۔

مومن مرد خوش حال ہو جائے تو سب سے پہلے وہ سنت نبوی پر عمل کے لیے ”اپنی“ دوسری تیسری اور چوتھی شادی کا سوچتا ہے۔

اور عام طور پر مرد کی ضرورت رکھنے والی یا غربت سے تنگ آئی خواتین بخوشی ان کے نکاح میں آجاتی ہیں۔ قربانی کے بکرے کی طرح عورت کا بے عیب اور کم سے کم قبول صورت ہونا بہرحال ضروری ہے۔

سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کی بدولت اب پیٹ بھروں کے لیے روٹی اور چھوٹی کا اب مسئلہ نہیں رہا۔ آج ہر مکتبۂ فکر کے عالم کا اپنا یو ٹیوب چینل ہے۔ ایمان کی تازگی، روح کی دل بستگی اور ہم بستری کے لیے دین والوں، عقل والوں، علم کے شہسواروں کو دو، تین، چار شادیوں وغیرہ وغیرہ۔ کی ترغیب دی جانے لگی ہے۔ یہ دین والے عقل والے علم کے شہسوار اللہ کے فضل سے مالی طور پر مستحکم بھی ہوتے ہیں اس لیے مجبور، بے بس، غریب خواتین ان کے نکاح میں آ جاتی ہیں تب بے چارہ غریب، جو ایک شادی کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو گا، وہ شادی کیسے اور کس سے کرے گا۔ زمانہ مستقبل کہ بات تو یوں ہی روانی میں کر دی۔ ہم سب ایسے غریب، بے استطاعت مجرد حضرات کو جانتے ہیں جو اپنی کسمپرسی کے ہاتھوں زندگی کی بنیادی خوشی سے محروم تھے، ہیں اور رہیں گے۔ غوغائے سگاں اور درباری اذانوں میں سائل اپنے حلق میں ہی صدا گھونٹ دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments