حجاب کے متعلق جاوید غامدی کی غیر منطقی گفتگو


زندگی کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے، تعصب سے بالاتر ہو کر سچ جاننے کی جستجو و عزم اور خود کو عینیت یا قطعیت سے کوسوں دور رکھنے کی خاطر میں ایسے مذہبی علما کو بغور سنتا رہتا ہوں جو تھوڑا غیر روایتی یا مہذب اور پڑھے لکھے انداز میں علم الکلام کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ان میں جاوید غامدی بھی شامل ہیں۔ ایک طویل ذہنی مشقت کے بعد یوں لگنے لگا ہے کہ غامدی جیسے لوگ بھی دراصل روایتی یا جامد سوچ کو ہی پروموٹ کرتے ہیں اور روایتی فکر کو ماڈرن لفاظی میں ملفوف کر کے یا گنجلک قسم کی فلسفیانہ اصطلاحات کا لیپ کر کے کنفیوز قوم کو مزید کنفیوژن میں ڈال دیتے ہیں اور مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ غیر فطری قسم کی گفتگو کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور ہم بڑی سادہ لوحی سے ایسے لوگوں کو مجدد یا دین کی صحیح تعبیر کرنے والا سمجھنے لگتے ہیں۔

حقیقت میں یہ روایتی تصویر کو چند نئے فلٹرز کا سہارا لے کر اسی تصویر کو نئی اور ماڈرن بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی گفتگو کا یہ کمال ہوتا ہے کہ سننے والوں کو یہ احتمال ہونے لگتا ہے کہ شاید صحیح دینی فکر کو انہی چند لوگوں نے سمجھا ہے باقی سب مایا ہے۔ چیزوں کو درست سمت میں ماپنے یا جائزہ لینے کا ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ رائج الوقت فلسفے یا سوچ کی سماج میں ریفلیکشن کی سطح کتنی ہے اور اسے کتنے فیصد لوگ تسلیم کر رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم٪ 80 پریکٹسنگ آئیڈیالوجی جس کا چلن ابھی بھی عروج پر ہو اسے کیسے غامدی صاحب کے استدلال اور تعبیر کی وجہ سے مسترد کر سکتے ہیں؟ کیا ہم یہ تسلیم کر لیں کہ جو آج تک ہو رہا ہے یا علما کی اکثریت جو دین کی تشریح کر رہے ہیں وہ سب غلط تھا یا ہے اور جو تشریح آج غامدی صاحب فرما رہے ہیں وہ ہنڈرڈ پرسنٹ درست ہے مگر کن بنیادوں پر؟

جب ہم طویل روایتی غور و فکر اور غامدی صاحب کی سوچ کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں تو سوائے لفظی ہیر پھیر کے اور کچھ بھی نہیں نکلتا، وہ چٹے ننگے لفظوں میں وہی بات کرتے آرہے ہیں مگر غامدی صاحب اسے فلسفیانہ لباس پہنا کر پیش کر دیتے ہیں۔ میرے اس موقف کا جواز صاحب سوال کی بنت میں چھپا ہوا ہے سوال پوچھنے والا ایک ایسا شخص ہے جسے بہت سے لوگ غامدی صاحب کا داماد سمجھتے ہیں اس بات میں کتنی صداقت ہے اس کا تو پتہ نہیں مگر ہم سوال کی نوعیت سے ہی بہت کچھ جان سکتے ہیں۔ سوال کچھ یوں پوچھا جا رہا ہے کہ

” غامدی صاحب یہ سوال خواتین کے پردے کے حوالہ سے ہے ارشاد فرما دیں پردہ کیا ہوتا ہے اور یہ کس حد تک لازم ہے، عام طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی خواتین دین سے محبت بھی رکھتی ہیں مگر وہ اپنی عملی زندگی میں بہت ساری سماجی مجبوریوں کی بدولت مکمل شرعی پردے کا اہتمام نہیں کر پاتیں سو ان کے اندر ایک طرح کا احساس جرم پیدا ہو جاتا ہے وہ اپنے اس احساس جرم سے کیسے باہر نکلیں“ ؟

اب غامدی جی کا جواب سنیں اور سر دھنیں

1 فرماتے ہیں کہ مذہبی تعلیمات کا ماحصل یہ ہے کہ تمہارے جنسی معاملات میں آخری درجے کی پاکیزگی رہے۔
2 دین کی تعلیمات کا پورا ہدف ہی یہ ہے کہ پیوریفیکیشن کیسے حاصل ہو گی؟ یعنی اول درجہ کی پاکیزگی کیسے حاصل ہو؟
3 پردہ کی صحیح تعبیر یہ ہے کہ مرد و زن اپنی نگاہوں میں پستی اور حیا پیدا کریں
4 ایک دوسرے کو دیکھنے والی نگاہیں تاڑنے یا خد و خال کا جائزہ لینے والی نہیں ہونی چاہئیں
5 دونوں کا لباس ایسا ہونا چاہیے کہ جس سے جنسی میلان پیدا نہ ہو

6 میں اس قسم کے اہتمام کرنے کے نظام کو پردے کا نام نہیں دیتا بلکہ یہ بنیادی طور پر مردوں اور عورتوں کے ایک دوسرے کو ملنے کے آداب ہیں

7 اب اس پاکیزگی کو حاصل کرنے کے لئے ہماری بچیاں سکارف یا برقع پہن لیتی ہیں یہ دراصل پاکیزگی حاصل کرنے کے درجے کہلاتے ہیں اور یہ تقویٰ کے درجے ہیں۔

8 لباس ایسا ہو جو نگاہوں کو آوارہ نہ ہونے دے اور عورت اپنے زیب و زینت کی نمائش نہ کرے

اب اس ساری گفتگو پر غور فرما لیں اور ڈاٹ سے ڈاٹ ملاتے جائیں جو بات غامدی صاحب نے تقویٰ کے فریم میں ڈالی ہے بالکل اسی بات کو ہمارے روایتی یا درس نظامی والے علماء چٹے ننگے انداز میں برقع یا حجاب کی صورت میں بیان کر دیتے ہیں صرف لفظوں کا ہیر پھیر ہے ایک پردے کا لفظ استعمال نہیں کر رہا ہے جبکہ دوسرے اسے مکمل پردے کا نام دے کر اسی بات کو واضح کر دیتے ہیں۔ اس گفتگو کے اندر لفظ تقویٰ کے اندر عقل والوں کے لیے ساری نشانیاں چھپی ہوئی ہیں یہی وہ لفظ ہے جو ہر قسم کے پردے کو جواز بخشتا ہے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ غامدی صاحب یہ باتیں مرد و زن کے اجتماع میں ارشاد فرما رہے ہیں اگر اسی مجمع کی بات کر لیں تو غامدی صاحب کے پاس اس مجمع کی پاکیزگی کا لیول جانچنے کا کیا پیمانہ ہو گا؟ یہ اول درجہ کی پاکیزگی والی مخلوق کہاں پر دستیاب ہوتی ہے؟ اس بات کا فیصلہ کیسے کیا جائے گا کہ سامنے والا بندہ حیاء نظری کا مظاہرہ کر رہا ہے یا تاڑنے والی نظروں کا استعمال کر کے خد و خال کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہا ہے؟

اس بات کو جانچنے کا کیا پیمانہ ہو گا کہ لباس یا زیب و زینت سے جنسی میلان پیدا ہو رہا ہے یا نہیں کیونکہ ہمارے معاشروں میں تو برقع پوش خواتین تک کو نہیں چھوڑا جاتا؟ براہ کرم رہنمائی فرما دیں کہ اول درجہ کی پاکیزگی کا معیار جانچنے کا کیا پیمانہ ہو گا؟ آپ کی ساری گفتگو سبجیکٹو ہے اور سننے کی حد تک بہت خوبصورت بھی ہے مگر پریکٹیکل کتنی ہے؟ آپ کی ساری گفتگو ”چاہیے“ کہ گرد گھوم رہی ہے اور ”چاہیے“ کو جتنا مرضی آئیڈیلزم سے بھر لیں کوئی فرق نہیں پڑتا دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ اس میں پریکٹیکل کتنا ہے بالکل اسی طرح ہم بہت کچھ کتابوں میں پڑھتے ہیں مگر عملی زندگی اس سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسانی تاریخ میں ان گنت سقم ہیں اور فکری تسلسل میں بہت سی کڑیاں مسنگ ہیں جن کو ملانے کی جستجو میں نہ جانے کتنے لوگ اپنی زندگیاں کھپا چکے ہیں اور یہ خلا پر ہونے میں نہ جانے مزید کتنی زندگیاں درکار ہوں گی کوئی نہیں جانتا۔ کیا یہ خلا کبھی پر ہو پائے گا یا نہیں یا یہ سفر یوں ہی جاری رہے گا کون جانے؟ شعوری سطح اور پریکٹیکل گراؤنڈ پر جو سمجھنے والی بات ہے وہ یہ ہے کہ اس پردہ والے تصور کی وجہ سے نہ جانے کتنے بڑے بڑے اذہان اس بیرئر کی وجہ سے عملی زندگی میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں سمیٹ پاتے اور بہت سی بچیاں یونیورسٹی تعلیم سے صرف اس وجہ سے محروم کردی جاتی ہیں کہ وہاں کا ماحول اچھا نہیں ہوتا اور ہر جگہ میل سٹوڈنٹ کا راج ہوتا ہے اور بچیاں اسی تنگ نظری کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں اور اپنے بنیادی حق سے محروم کر دی جاتی ہیں۔

ہماری روایتی سوچ کی تھاٹ ریفلیکشن کا خمیازہ ہماری خواتین کو بھگتنا پڑتا ہے مردوں کا تو بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔ اس لیے غامدی صاحب جو مرد و زن کے درمیان پروٹوکول کی بات کر رہے ہیں اس کے ڈائریکٹ اثرات خواتین کی زندگیوں پر پڑتے ہیں نہ کہ مردوں کے، کیونکہ مرد اپنے مرد ہونے کا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ خواتین اپنے جنس کی وجہ سے صدیوں سے اس کی قیمت ادا کرتے آ رہی ہیں۔ آپ کا فلسفہ حیات بہت اعلیٰ ہو سکتا ہے مگر گراؤنڈ پر اپلائی کیسے ہو گا یہ زیادہ سمجھنے والی بات ہے اور ابھی تک ہم اپنے فلسفہ یا سوچ کو عملی طور پر کہیں بھی نافذ نہیں کر پائے افغانستان کی مثال کے علاوہ السعودیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہ لوگ اپنے ماضی سے سبق حاصل کر کے دنیا سے کندہ ملانا چاہ رہے ہیں۔ اب اسے وقت کا جبر کہہ لیں یا مجبوری یہ آپ پر منحصر ہے۔ یہ بات طے ہے کہ جن معاشروں نے مرد و زن کو برابر کے حقوق دیے ہیں وہ آج بہت آگے جا چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments