ہنگامہ ہے کیوں برپا – ایک خط مولانا کے نام


اسلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

امید واثق ہے آپ مکمل طور خیریت سے ہوں گے ، کیونکہ وطن عزیز میں صرف دو ہی اجارہ داریاں چلتی ہیں۔ ایک تو مذہبی لوگوں کی اور دوسروں کا میں نام نہیں لینا چاہتی۔ سمجھ تو آپ جاویں گے۔ جناب محترم سمجھ سے باہر ہے کہ ہمارے ملک میں گنگا کے الٹی بہتے رہنے کی وجہ آخر کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ جس کا جو کام ہو وہ اس کی بجائے ہر دوسرے کام میں ٹانگیں اڑانے کو اپنا فرض سمجھتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ اس ٹانگ اڑانے کو برا بھی نہیں سمجھتے۔

سننے میں آیا ہے کہ آپ آٹھ مارچ عورتوں کے عالمی دن کو پاکستان میں بین کروانے پہ تلے بیٹھے ہیں۔ بیٹھے بیٹھے آپ کو یہ کیا سوجھی یہ تو آپ ہی جانیں۔ مگر حضور اگر طبع پہ گراں نہ گزرے تو کیا پوچھنے کی جسارت کر سکتی ہوں کہ آخر آپ کو آٹھ مارچ سے کیا خطرہ ہے؟

آپ کے بقول عورتوں کو تمام حقوق اسلام کی جانب سے مہیا کر دیے گئے ہیں۔ تو جناب والا آپ وہ حقوق تفویض بھی تو ہونے دیجئیے۔ ہم بھی تو وہی کہتے ہیں کہ ہمیں ہمارا حق دیں۔ اگر آپ کو ہمارا حق حجاب میں لپٹا چاہیے تو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم تو آپ کو بھی ہے۔ کیا آپ اس پہ پورا اترتے ہیں؟

آپ کو ہر وہ چیز یا کام اسلام پہ حملہ کیوں تصور ہوتا ہے جس سے معاشرے میں رواداری اور برداشت کا تھوڑا سا بھی احتمال ہو۔ آپ اسلام کا کون سا چہرہ دنیا کو دکھا رہے ہیں۔ مشعال خان والا، شمع مسیح والا، سلمان تاثیر والا یا سری لنکن شہری کے ساتھ جو کیا، وہ والا؟

حضور والا اگر آپ کی یاداشت کمزور ہے تو میں یاد دلاتی چلوں کہ آپ عورتوں سے متعلقہ کسی وزارت کے نہیں مذہبی امور سے متعلقہ کاموں کے لیے حکومت پاکستان کے ملازم ہیں۔ جن کی تنخواہ ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے ادا ہوتی ہے۔ کیا آپ یہ بتانا پسند کریں گے کہ آپ نے اپنے عہدے کے دوران اسلام کو دنیا کے سامنے کس حد تک امن پسند مذہب کے طور متعارف کروایا ہے؟

سوال یہ ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی شدت پسندی، ہجوم کے ہاتھوں مذہب کے نام پہ مار دیے جانے کے بڑھتے واقعات پہ آپ کا قلمدان کیوں جوش میں نہیں آتا؟

آپ کو صرف بے حیائی اور فحاشی عورتوں میں ہی کیوں نظر آتی ہے۔ آپ کو ریپ کرتے، قتل کرتے، ہراس کرتے، بلیک میل کرتے، تیزاب پھینکتے اور سرعام ٹانگوں کے بیچ کھجانے والے مرد کیوں فحش نہیں لگتے؟ آپ کوئی قرارداد ان کے لیے کیوں اسمبلی میں لے کر نہیں جاتے؟ اگر آپ ایسا کریں تو یقین مانیں آپ کے بقول یہ جو عورت مارچ والے ہیں ان کے نوے فیصد مسلے تو ویسے ہی حل ہو جائیں گے۔ ہو سکتا ہے کسی ریلی یا مارچ کی ضرورت ہی نہ رہے۔ مگر جب تک یہ نہیں ہوتا مارچ تو ہوں گے ۔ آوازیں تو اٹھیں گی۔

مجھے کبھی کسی چھوٹی بچی/بچے کے ساتھ زیادتی پہ ملاؤں کی جانب سے ریپسٹ کے لیے فتویٰ نہیں ملا۔ مجھے کبھی کسی عورت کے قتل پہ کسی مولانا کی یوں چیخ و پکار مچی نظر نہیں آئی جیسے عورتوں کو اپنے حق کے لیے بولنے پہ سننے کو ملتی ہے۔

کبھی شوہر کبھی سسرال کے ہاتھوں مر جانے والی عورت کے لیے کسی کو دھیان نہیں رہتا کہ اس کے جن حقوق کا ڈھنڈورا آپ پیٹ رہے ہیں جو اسے عنایت ہوئے ہیں اس میں قتل ہو جانا تو نہیں آتا۔ اس میں ریپ ہو جانا تو نہیں آتا۔ اس میں بسوں، دفتروں، سڑکوں حتی کہ گھروں تک میں ہراس ہونا تو نہیں آتا۔

تعلیم کے مواقع جو بیٹے کو ملتے ہیں اس پہ بیٹی کا حق کیوں نہیں۔ صحت کے جن مسائل سے عورت کا سامنا ہوتا ہے اس کا بہترین علاج اس کی قسمت میں کیوں نہیں۔ صرف گھر سنبھالنے اور ہر سال بچہ پیدا کرنے کے علاوہ بھی عورت کا اپنا ایک الگ وجود ایک الگ شناخت ہے۔ اسے تسلیم کیوں نہیں کرتے؟

مجھے یاد نہیں پڑتا میں نے نور مقدم کے قتل پہ کسی عالم کی جانب سے اس کی مذمت دیکھی ہو۔ الٹا وکٹم بلیمنگ کی گئی۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ وہ مرد بھی تو اسلامی احکام کے خلاف چل رہا تھا۔ لیکن چونکہ نور مقدم عورت تھی سو اس کے سارے قصور ٹھہرے۔ اسے چھوڑیں وہ تو آپ کے فتوے کی حقدار ٹھہرے گی۔ دوسری کو دیکھتے ہیں۔

مجھے نہیں یاد آپ نے شوہر کے ہاتھوں مر جانے والی پنڈی کی قرۃ العین کے حق میں ہی کوئی ایک قرار داد پیش کی ہو۔ وہ تو نکاح کے ساتھ اس مرد کے ساتھ رہ رہی تھی جس نے بچیوں کے سامنے ان کی ماں مار دی۔ آپ نے ان بچیوں کے حق میں کیا بیان دیا۔ مجھے تو نظر نہیں آیا۔

آئے روز مدارس میں جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ مار پیٹ کر کے مار دینے کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ کیا ان کے حوالے سے آپ نے کچھ کام کیا؟ نظر سے نہیں گزرا کچھ کیا ہو تو ضرور بتائیے۔

آٹھ مارچ تو عالمی سطح پہ خواتین کے دن کے طور پہ منایا جاتا ہے۔ کبھی کسی کو اس سے اپنے مذہب پہ خطرہ محسوس نہیں ہوا۔ خدا کا نام ہے یہ مذہب کے نام پہ اپنے گھروں کے چولہے جلانا چھوڑ دیں۔ اس آگ میں معصوم و بے قصور لوگ جلتے ہیں۔

عورت اپنے حق کے لیے بات گھر میں کرے یا سڑک پہ اس نے اپنے اس عمل کا جواب آپ کو نہیں دینا۔ اگر آپ کا روز قیامت پہ یقین ہے تو ہر انسان نے اپنے اعمال کی جواب دہی اللہ کو کرنی ہے۔ بندوں کو نہیں۔ نہ ہی بندے کو اس کا اختیار ہے۔

آج آپ کے ان خطرات کی وجہ سے ہی یہ عالم ہے کہ بچے کو اکیلے گھر سے باہر بھیجتے ڈر لگتا ہے۔ خود باہر نکلیں تو یہ امید نہیں ہوتی کہ رات کو گھر واپس خیریت سے پہنچیں گے۔ کسی سے بات کرنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑتا ہے۔ آپ زبردستی کسی کی بھی عزت نہیں کروا سکتے۔ اور خوف یا ڈر سے ملنے والی عزت کسی کام کی نہیں ہوتی، یہ بھی یاد رکھئیے۔

میری باتیں آپ کی سمجھ میں نہیں آئیں گی، کیونکہ آپ سمجھنا نہیں چاہتے۔ عورتوں کو کیا کرنا ہے کیا نہیں۔ کیسے رہنا ہے، کیا کھانا ہے، شادی کرنی ہے، پڑھنا ہے، بچہ پیدا کرنا ہے یا نہیں یہ اسے طے کرنے دیں۔ آپ اپنے آپ کو دیکھیں کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ یہ روز بروز موب کلنگ، دھرنے دینے سڑکیں بند کرنے اور مذہب کے نام پہ دہشت گردی کرنے سے دنیا آپ کے بارے کیا سوچ رہی ہے اس پہ غور کریں۔ فیٹیف کی گرے لسٹ سے کیسے نکلنا ہے یہ سوچیں۔ عورتوں کو پتہ ہے کہ وہ کیا کر رہی ہیں۔

ریپ، قتل، چوری ڈکیتی، لوٹ مار دہشت گردی بم دھماکوں میں ملوث مرد ہیں اور بدنام عورتیں ہیں۔

میں جانتی ہوں کہ آپ کو اور آپ کے حواریوں کو یہ باتیں پسند نہیں آئیں گی۔ وہ مجھے بھی گالیوں سے نوازیں گے۔ فتوے لگائیں گے۔ کردار کشی کریں گے۔ مگر آپ کو شاید علم نہیں کہ یہ سب کچھ پیدا ہوتے ساتھ ہی عورت برداشت کرنا شروع کر دیتی ہے۔ کیونکہ بیٹی پیدا ہونے پہ زیادہ تر لوگ تو سوگ میں جاتے ہیں۔ سو ہمیں عادت ہیں۔ ہم پیدائشی ملامتی جنس ہیں۔ ہم سہ لیں گے۔ مگر آپ مرنے کے بعد خدا کو کیا منہ دکھائیں گے اس کا سوچ لیجئیے۔

ہندوستان کی مسکان کی جرات پہ واہ واہ اور اپنے ملک کی عورت کی جرات کو دبانے کے لیے ٹھاہ ٹھاہ۔ مولانا ایہہ کوئی چنگیاں گلاں نہیں (مولانا یہ کوئی اچھی باتیں نہیں)۔

فقط
اٹھ مارچی عورت (ناموں میں کیا رکھا ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments