حکومت جا نہیں رہی لیکن موجود بھی نہیں ہے


وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے یقین ظاہر کیا ہے کہ جہانگیر ترین مسلسل پارٹی کے وفادار رہیں گے اور وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی صورت میں اپوزیشن کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ جہانگیر ترین گروپ کا دعویٰ ہے کہ اسے 30 ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔ اس گروپ نے گزشتہ دنوں دو بار ملاقات کی ہے اور خبروں کے مطابق جہانگیر ترین خفیہ طور سے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے بھی مل چکے ہیں۔

اس دوران مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اپوزیشن کا حکمران جماعت تحریک انصاف کے متعدد ارکان سے رابطہ ہے۔ ان کے بقول یہ تعداد تحریک عدم اعتماد منظور کروانے کے لئے درکار تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ گویا اپوزیشن یا مسلم لیگ (ن) آسانی سے وزیر عظم کو اقتدار سے محروم کر سکتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے اشارہ دیا ہے کہ عمران خان کو 23 مارچ سے پہلے قومی اسمبلی میں اکثریت سے محروم کردیا جائے گا۔ واضح رہے پاکستان جمہوری تحریک اس دن سے حکومت کے خلاف لانگ شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ان متضاد دعوؤں کی وجہ سے ملک کی سیاسی صورت حال بدستور بے یقینی کا شکار ہے۔ حکومت اور اس کے اہم ترین ترجمانوں کی تمام تر صلاحیت اپوزیشن کے خلاف بیان دینے اور ان خبروں کی تردید کرنے میں صرف ہورہی ہے کہ اپوزیشن کسی بھی وقت عدم اعتماد کی تحریک لاکر حکمران جماعت اور وزیر اعظم کے لئے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔ گزشتہ روز وزیر اعظم نے منڈی بہاؤالدین میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے بھی دراصل اپوزیشن کی سیاسی مہم جوئی کا زور توڑنے کی کوشش کی تھی۔

منڈی بہاؤالدین کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے اپنا پورا زور اپوزیشن لیڈروں کی کردار کشی پر صرف کیا اور دعویٰ کیا کہ وہ 2023 کا انتخاب جیتنے کی تیاری کررہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اپوزیشن لیڈر بڑی بدعنوانی میں ملوث رہے ہیں اور ان کا اصل خوف یہی ہے کہ عمران خان جیت کر ان کی لوٹی ہوئی دولت ملک واپس لے کر آئے گا۔ اس تقریر میں وزیر اعظم کا پاکستانی عوام کو ایک سطری پیغام یہ تھا کہ اگر وہ ملک کی حاالت بہتر بنانا چاہتے ہیں اور لوٹی ہوئی قومی دولت واپس ملک میں لانے کے خواہاں ہیں تو یہ کام صرف عمران خان کرسکتا ہے۔ کیوں کہ وہ پرویز مشرف کی طرح این آر او نہیں دے گا اور ساری زندگی ملک و قوم کے ’چوروں‘ کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ عمران خان کی یہ باتیں انہی دعوؤں کا خلاصہ ہیں جو وہ 2018 کا انتخاب جیتنے سے پہلے کرتے رہے تھے۔ ان کے چہیتے وزیر اور تحریک انصاف کی تنظیم نو کرنے کے ذمہ دار اسد عمر اقتدار سنبھالنے سے پہلے بیرونی بنکوں میں پاکستان کے قومی خزانے سے لوٹے ہوئے 200 ارب ڈالر واپس لانے کے دعوے کیا کرتے تھے۔ اس خیالی حساب کتاب کے مطابق اس رقم سے تحریک انصاف کی حکومت نے ایک سو ارب بیرونی قرض ادا کرنے پر صرف کرنا تھے اور باقی ماندہ 100 ارب ڈالر سے عوام کوخوشحال بنانے کے منصوبوں کا آغاز کرنا تھا۔ وائے حسرت کہ اسد عمر اس ان کی تکمیل کی طرف ایک قدم بھی نہیں بڑھا سکے اور محض آٹھ ماہ میں وزارت خزانہ حفیظ شیخ کے سپرد کرکے حکومت سے علیحدہ ہوگئے اور پاکستان ایک بار پھر آئی ایم ایف سے قرض لینے کے خواستگاروں میں شامل ہوگیا۔

ملک پر ساڑھے تین سال تک حکومت کرنے کے بعد بھی جب عمران خان اپنی کارکردگی کا حساب دینے کی بجائے پرانے نعرے دہرانے پر مجبور ہیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کے پاس عوام کے لئے کوئی سیاسی پیغام نہیں ہے ۔ اور وہ یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ گزشتہ انتخابات میں ان کے سب نعرے دوسروں کی ناکامیوں کے تناظر میں پرکھے جاتے تھے ۔ پاکستانی عوام اور شاید خواص کے ایک طبقہ کو بھی امید تھی کہ عمران خان کی صورت میں ملک کو ایک مسیحا میسر آسکتا ہےجو ایک طرف ملکی اسٹبلشمنٹ کی ساری خواہشات پوری کرے گا تو دوسری طرف ملک میں دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی جس کے باعث عوام مطمئن و خوشحال ہوں گے ۔ یوں ملک میں ایسی تمام سیاسی جماعتوں کا راستہ روکنا مقصود تھا جو گزشتہ تیس چالیس برس سے حکومتوں میں حصہ دار رہی ہیں لیکن اصلاح احوال کا کوئی بامقصد منصوبہ مکمل نہیں کیا جاسکا۔ ان میں سے کوئی خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہؤا۔ لیکن عمران خان کو یہ سمجھنے میں بھی دقت کا سامنا ہے کہ وہ ایک ہی نعرہ دوبارہ بیچ کر کامیابی کی امید نہیں کرسکتے۔ کوئی سیاسی پارٹی یا سیاستدان کبھی بھی اپنے سارے وعدے پورے نہیں کرسکتا لیکن اس کے باوجود وہ کسی ایک شعبہ میں کارکردگی دکھا کر عوام کو اطمینان ضرور دلا سکتا ہے ۔

عمران خان کی حالت اس سے برعکس ہے۔ ان کا سب سے بڑا منصوبہ سیاسی مخالفین کو چور اچکا اور قومی دولت لوٹنےوالا ثابت کرنا تھا لیکن ساڑھے تین سال کی حکومت کے باوجود وہ کسی ایک لیڈر کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت سامنے لاکر اسے عدالتی نظام میں قوم کا مجرم ثابت نہیں کرسکے۔ یہ ان کی سب سے بڑی ناکامی ہے کیوں کہ اس معاملہ میں انہیں تمام سرکاری وسائل اور متعلقہ اداروں کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اب وہ یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ ان کی حکومت نے تو کسی سیاسی لیڈر کے خلاف کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا بلکہ دونوں اپوزیشن پارٹیوں نے خود اپنے ادوار میں ایک دوسرے کے خلاف مقدمے قائم کئے تھے اور انہیں ان کا ہی جواب دینا ہے۔ لیکن اس دعوے سے عمران خان کا مقدمہ مضبوط نہیں، کمزور ہوتا ہے۔ انہوں نے قومی دولت لوٹنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے عوام کا مینڈیٹ لیا تھا اور اب وہ عدالتی نظام پر انگلی اٹھا کر اپنے وعدوں سے منحرف ہونا چاہتے ہیں لیکن سیاسست میں ایسی کوتاہی کی قیمت ا دا کرنا پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان اپنے تمام سرکاری اختیارات استعمال کرتے ہوئے کسی بھی قیمت پر مخالفین کو عاجز کرنا چاہتے ہیں۔

وزیر اعظم نے گزشتہ روز کی تقریر میں اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے نواز شریف کو ملک سے باہر جانے کی ’اجازت‘ دے کر غلطی کی تھی۔ وہ یہ دعویٰ کرتے ہوئے درحقیقت اپنے حامیوں کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ نواز شریف دھوکہ دے ملک سے فرار ہوکر قانون کی گرفت سے بچ گئے ہیں۔ لیکن شہباز شریف اور مریم نواز بدستور ملک میں ہی ہیں اور ملک کا نظام قانون ابھی تک انہیں کسی الزام میں حتمی قصور وار قرار نہیں دے سکا۔ عمران خان کو جاننا چاہئے کہ نواز شریف اگر ملک میں ہوتے اور خاص طور سے اگر انہیں جیل میں بند رکھا جاتا تو وہ سیاسی لحاظ سے عمران خان کے لئے زیادہ خطرناک ہوتے۔ وزیر اعظم جب نواز شریف کے حوالے سے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں تو درحقیقت وہ یہ تسلیم کررہے ہیں کہ وہ بدعنوان لوگوں کو سزا دینے کے منصوبہ پر عمل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس بوجھ سے نجات پانے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ عمران خان یہ معاملات عدالتی نظام کے حوالے کرکے ان سے لاتعلق ہوجاتے۔ اگر عدالتیں ان کے سیاسی مخالفین کو سزائیں دیتیں تو وہ اپنے انجام کو پہنچتے اور اگر عدالتوں میں کسی شخص کو قصور وار ثابت نہ کیا جاسکتا تو اسے مناسب عزت و احترام فراہم کیا جاتا۔ البتہ عمران خان کا رویہ اس سے برعکس رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی حکومت تمام تر دعوؤں کے باوجود عوام سے کیا گیا کوئی وعدہ پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔

اب صورت حال یہ ہے کہ حکومت کے آخری سال میں جو وقت انہیں اپنے نامکمل منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے پر صرف کرنا چاہئے تھا، اس میں وہ اپنی حکومت بچانے کی ترکیبیں کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ کبھی مسلم لیگ (ق) سے وعدے کئے جاتے ہیں ، کبھی بلوچستان عوامی پارٹی کو راضی رکھنے کے لئے وزارتیں دینے کا عہد ہوتا ہے اور کبھی متحدہ قومی موومنٹ کو راضی رکھنے کے لئے بہادر آباد جا کر اس پارٹی کی سیاسی اہمیت و توقیر میں اضافہ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس دوران تحریک انصاف کے متعدد ارکان عدم توجہی اور اپنے حلقوں میں رائے کے دباؤ کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ملنے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ رانا ثنااللہ کا دعویٰ سو فیصد درست نہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اپوزیشن تمام تر اعلانات کے باوجود تحریک عدم اعتماد نہ لاسکے یا اس میں کامیاب نہ ہو لیکن ایک بات واضح ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اس صورت حال کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ یہی عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

یوں تو ملک کی سب سیاسی قوتوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ داخلی سیاسی انتشار سے ملک کو فائدہ نہیں پہنچے گا۔ اپوزیشن کو یقیناً ملک میں استحکام اور خیر سگالی کے ماحول کے لئے کردار ادا کرنا چاہئے لیکن موجودہ بداعتمادی کی فضا پیدا کرنے میں حکومت اور وزیر اعظم نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے مسائل کا سیاسی حل تلاش کرنے کی بجائے، آمرانہ ہتھکنڈے اختیار کرنے اور مفاہمت پیدا کرنے کی بجائے اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ ذاتی دشمنی کا ماحول پیدا کرکے اپنی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ اب بھی سوال یہ نہیں ہے کہ عمران خان کی حکومت ختم کی جاسکتی ہے یا نہیں یا یہ کہ اپوزیشن عدم اعتماد لانے اور منظور کروانے میں کامیاب ہوسکتی ہے یا نہیں۔ بلکہ پوچھا یہ جائے گا کہ ملکی حکومت کیا کام کررہی ہے اور کس شعبہ میں اس کے فٹ پرنٹ محسوس کئے جاسکتے ہیں۔

عمران خان کی حکومت کو شاید کوئی ’حقیقی‘ خطرہ نہ ہو لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں حکومت کی موجودگی کا احساس ختم ہورہا ہے۔ لاقانونیت عام ہے اور ملک کا وزیر اعظم اپنی ہر کوتاہی یا ناکامی کی ذمہ داری دوسروں پپر عائد کرکے خود سرخرو ہونا چاہتا ہے۔ یہی صورت حال عمران خان کی قائدانہ صلاحیتوں پر سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے اور سیاسی قوت کے طور پر ان کے مستقبل کو اندیشوں سے دوچار کررہی ہے۔ ایسے میں ترین گروپ اور دیگر عناصر تحریک انصاف کے متبادل تلاش کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments