بہادر شاہ ظفر: آخری مغل بادشاہ کی انگریزوں کے ہاتھوں گرفتاری اور شہزادوں کے قتل کی داستان

ریحان فضل - بی بی سی ہندی، دہلی


سنہ1857 میں جب انگریزوں نے دلی پر دوبارہ قبضہ کر لیا تو کیپٹن ولیم ہڈسن تقریباً 100 سپاہیوں کے ساتھ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو پکڑنے کے لیے شہر سے نکلے۔ جب کیپٹن ہڈسن نے ہمایوں کے مقبرے کا رُخ کیا تو اس وقت تک دلی کی سڑکوں پر موجود کسی بھی باغی نے اُن پر گولی نہیں چلائی۔

ولیم ہڈسن کو یقیناً اس بات کی فکر تھی کہ ہمایوں کے مقبرے کے آس پاس موجود لوگ ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے، اس لیے انھوں نے پہلے ہی خود کو قبر کے قریب موجود کھنڈرات میں چھپا لیا۔

امرپال سنگھ نے حال ہی میں 1857 کی بغاوت پر ’دی سیز آف دلی‘ یعنی ’دہلی کا محاصرہ‘ نامی کتاب تحریر کی اور فی الحال وہ لندن میں مقیم ہیں۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’ہڈسن نے مزار کے مرکزی دروازے سے ملکہ زینت محل سے ملاقات کرنے اور شہنشاہ کو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرنے کے لیے اپنے دو نمائندے مولوی رجب علی اور مرزا الٰہی بخش بھیجے۔‘

بادشاہ ظفر نے ابھی تک ہتھیار ڈالنے کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ دو گھنٹے تک کچھ نہیں ہوا۔ ہڈسن کو فکر لاحق ہو گئی اور سوچنے لگے کہ شاید ان کے آدمیوں کو مقبرے کے اندر قتل کر دیا گیا ہے لیکن پھر ہڈسن کے نمائندے یہ پیغام لے کر باہر آئے کہ بہادر شاہ ظفر صرف ہڈسن کے سامنے ہتھیار ڈالیں گے اور وہ بھی اس وقت جب ہڈسن بذات خود جنرل آرچڈیل ولسن کے وعدے کو ان کے سامنے دہرائیں گے اور وہ وعدہ یہ تھا کہ بادشاہ کی جان بخشی کر دی جائے گی۔

بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے پرانے قلعے میں پناہ لی

انگریزوں کو شروع سے ہی اس بات پر الجھن تھی کہ بہادر شاہ ظفر کو کس نے اور کب جان بخشنے کا وعدہ کیا تھا۔

اس سلسلے میں گورنر جنرل کے احکامات شروع سے ہی واضح تھے کہ باغی چاہے کتنا ہی بڑا یا چھوٹا ہو، اگر وہ ہتھیار ڈالنا چاہے تو ان کے سامنے کوئی شرط یا حد نہیں رکھی جائے۔

بہادرشاہ ظفر

ابتدا میں جب انگریز دہلی میں داخل ہوئے تو شہنشاہ نے قلعہ کے اندر اپنے محل میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ 16 ستمبر 1857 کو خبر آئی کہ برطانوی فوج نے قلعہ سے چند سو گز کے فاصلے پر باغیوں کے اڈے پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ قلعے میں صرف اس لیے داخل نہیں ہو رہے کہ ان کے پاس فوجیوں کی تعداد کم ہے۔

19 ستمبر کو بادشاہ نے اپنے پورے خاندان اور عملے کے ساتھ محل چھوڑنے اور اجمیری گیٹ کے راستے پرانے قلعے میں جانے کا فیصلہ کیا۔ 20 ستمبر کو انگریزوں کو خفیہ طور پر اطلاع ملی کہ بادشاہ بہادر شاہ ظفر پرانے قلعہ سے نکل کر ہمایوں کے مقبرے پہنچ گئے ہیں۔

میں نے امرپال سنگھ سے پوچھا کہ ایک طرف تو انگریز باغیوں کو بے رحمی سے پھانسی دے رہے تھے لیکن وہ بادشاہ ظفر کی جان بخشنے کے لیے کیوں تیار تھے؟

اس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’ایک تو بہادر شاہ بہت بوڑھے تھے اور وہ اس بغاوت کے برائے نام رہنما تھے۔ دوسرے انگریز دہلی میں دوبارہ داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے، لیکن شمالی ہند کے دیگر حصوں میں ابھی تک لڑائی جاری تھی اور انگریزوں کو خوف تھا کہ اگر بادشاہ مارا گیا تو شاید باغیوں کے جذبات بھڑک اٹھیں۔ چنانچہ ولسن نے اتفاق کیا کہ اگر بادشاہ ہتھیار ڈال دیں تو ان کی جان بخشی جا سکتی ہے۔‘

تصویر

بہادر شاہ ظفر نے اپنے ہتھیار ہڈسن کو سونپے

ولیم ہڈسن نے اپنی کتاب ’ٹوئلو ایئرز آف سولجرس لائف ان انڈیا‘ میں ایک عینی شاہد برطانوی افسر کی طرف سے اپنے بھائی کو لکھے گئے خط کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’ملکہ زینت محل (ہمایوں کے) مقبرے سے سب سے پہلے باہر آئی تھیں۔ ان کے بعد بادشاہ بہادر شاہ ظفر پالکی میں سوار نکلے تھے۔‘

ہڈسن نے آگے بڑھ کر بادشاہ سے ہتھیار ڈالنے کے لیے کہا۔ بادشاہ ظفر نے ان سے پوچھا، کیا آپ ہی ہڈسن بہادر ہو؟ کیا آپ مجھ سے کیے گئے وعدے کو میرے سامنے دہرائیں گے؟‘

کیپٹن ہڈسن نے جواب دیا کہ ’ہاں، سرکار آپ کو یہ بتاتے ہوئے بہت خوشی محسوس کر رہی ہے کہ اگر آپ ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو آپ کی، زینت محل اور ان کے بیٹے کی جان بخش دی جائے گی۔ لیکن اگر آپ کو بچانے کی کوشش کی گئی تو میں اس جگہ کتے کی طرح آپ کو گولی مار دوں گا۔‘

پھر بوڑھے بادشاہ نے اپنے ہتھیار ہڈسن کے حوالے کیے جو انھوں نے اپنے اُردلی کے حوالے کر دیے۔

بہادر شاہ ظفر کی نظریں زمین پر جمی ہوئی تھیں

شہر میں داخل ہونے کے بعد، بادشاہ ظفر کو سب سے پہلے بیگم سمرو کے گھر میں رکھا گیا اور ایم ایچ 61 بٹالین کے 50 سپاہیوں کو ان کی نگرانی کے لیے منتخب کیا گیا۔ کیپٹن چارلس گریفتھ ان افسران میں شامل تھے جنھیں بہادر شاہ ظفر کی نگرانی کی ذمہ داری دی گئی تھی۔

بعد میں انھوں نے اپنی کتاب ’دی نیوریٹو آف دی سیز آف دہلی‘ یعن ’دہلی کے محاصرے کی داستان‘ میں لکھا: ’مغل خاندان کا آخری نمائندہ برآمدے میں ایک سادہ چارپائی پر رکھے گدے پر آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا۔ ان کی شکل و صورت میں کوئی عظمت والی بات نہیں تھی سوائے اُن کی سفید داڑھی کے جو کمر بند تک پہنچ رہی تھی۔‘

درمیانے قد کے بادشاہ اپنی عمر کے 80 سال گزار چکے تھے، وہ سفید لباس پہنے ہوئے تھے اور اسی کپڑے کی پگڑی سر پر تھی۔ ان کے پیچھے دو نوکر مور کے پنکھوں سے بنے پنکھے سے ہوا کر رہے تھے۔ ان کے منھ سے ایک لفظ بھی نہیں نکل رہا تھا۔ ان کی نظریں زمین پر جمی ہوئی تھیں۔

ان سے تین فٹ کے فاصلے پر ایک انگریز افسر دوسرے پلنگ پر بیٹھا تھا۔ اس کے دونوں طرف دو انگریز سپاہی سنگینوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ افسر کو ہدایات تھیں کہ اگر شہنشاہ کو بچانے کی کوشش کی جائے تو وہ شہنشاہ کو وہیں اپنے ہاتھوں سے گولی مار دیں۔

ہڈسن شہزادوں کی شناخت کے لیے شاہی خاندان کے افراد کو لے گیا

دوسری طرف بادشاہ کے پکڑے جانے کے ایک دن بعد یعنی 22 ستمبر تک جنرل آرچڈیل ولسن یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ زندہ بچ جانے والے شہزادوں کے ساتھ کیا کیا جائے جو ابھی تک ہمایوں کے مقبرے کے اندر موجود تھے۔

کیپٹن ہڈسن کا خیال تھا کہ فرار ہونے کی کوشش کرنے سے پہلے انھیں حراست میں لے لیا جانا چاہیے۔ ان شہزادوں میں باغی فوج کے سربراہ مرزا مغل، مرزا خضر سلطان اور مرزا مغل کے بیٹے مرزا ابوبکر شامل تھے۔

جنرل ولسن کی رضامندی سے ہڈسن نے ان کی گرفتاری کے لیے 100 فوجیوں پر مشتمل ایک دستہ تشکیل دیا، جس کی مدد لیفٹیننٹ میک ڈاؤل نے کی۔ یہ پوری ٹیم گھوڑوں پر آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ہمایوں کے مقبرے کی طرف روانہ ہوئی۔

بیگم زینت محل

ملکہ زینت محل

ہڈسن نے شاہی خاندان کے ایک فرد یعنی بادشاہ کے بھتیجے کو اپنے ساتھ لے جانے کی تدبیر کی تھی۔ ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر وہ ان کے نمائندے کے طور پر کام کریں گے اور شہزادوں کو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کریں گے تو اُن کی جان بخش دی جائے گی۔

انھیں شہزادوں کی شناخت کا کام بھی دیا گیا تھا کیونکہ ہڈسن خود کسی شہزادے کو نہیں پہچانتے تھے۔

بہت کوشش کے بعد شہزادے ہتھیار ڈالنے پر راضی ہوئے

ہڈسن مقبرے سے آدھا میل پہلے رُک گئے۔ انھوں نے بادشاہ کے بھتیجے اور اپنے سربراہ خفیہ افسر رجب علی کو شہزادوں کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ وہ غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیں ورنہ نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔

ہڈسن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ان کے نمائندوں کو شہزادوں کو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرنے کے لیے کافی جدوجہد کرنی پڑی۔ آدھے گھنٹے بعد شہزادوں نے ہڈسن کو پیغام بھیجا کہ کیا وہ انھیں قتل نہ کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ ہڈسن نے ایسا کوئی وعدہ کرنے سے انکار کیا اور غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کا اعادہ کیا۔

اس کے بعد ہڈسن نے شہزادوں کو ان کے پاس لانے کے لیے دس سپاہیوں کی ایک ٹیم بھیجی۔

لیفٹیننٹ میک ڈاویل نے بعد میں لکھا: ’تھوڑی دیر بعد تینوں شہزادے بیلوں کے ذریعے کھینچے جانے والے ایک چھوٹے سے رتھ میں باہر آئے۔ ان کے دونوں طرف پانچ سپاہی چل رہے تھے۔ ان کے بالکل پیچھے دو تین ہزار لوگوں کا ہجوم تھا۔

’انھیں دیکھتے ہی میں اور ہڈسن اپنے سپاہیوں کو پیچھے چھوڑ کر اُن سے ملنے کے لیے اپنے گھوڑوں پر سوار آگے بڑھے۔ انھوں نے ہڈسن کے سامنے سر جھکایا۔ ہڈسن نے بھی سر جھکا کر جواب دیا اور رتھ چلانے والوں سے کہا کہ وہ آگے بڑھتے ریں۔ ہجوم نے بھی ان کے پیچھے آنے کی کوشش کی لیکن ہڈسن نے ہاتھ دکھا کر انھیں روک دیا۔ میں نے اپنے سپاہیوں کو اشارہ کیا اور ایک ہی لمحے میں انھوں نے بھیڑ اور رتھ کے درمیان پوزیشن سنبھال لی۔

ہڈسن نے سگریٹ پی کر لاپرواہ ہونے کا تاثر دیا

شہزادوں کے ساتھ اُن کے ہتھیار اور بادشاہ کے ہاتھی، گھوڑے اور گاڑیاں بھی باہر لائی گئیں جو گذشتہ روز باہر نہیں آ سکی تھیں۔ شہزادوں نے ایک بار پھر پوچھا کہ کیا اُن کی زندگی بخش دی جائے گی؟

ہڈسن لکھتے ہیں: ’میں نے اس کا جواب ’بالکل نہیں‘ دیا اور انھیں اپنے سپاہیوں کی نگرانی میں شہر بھیج دیا۔ میں نے سوچا کہ جب شہزادے ہتھیار ڈال چکے ہیں تو کیوں نہ مقبرے کی تلاشی لی جائے۔ وہاں ہمیں 500 کے قریب چھپائی گئیں تلواریں ملی۔ اس کے علاوہ بہت سی بندوقیں، گھوڑے، بیل اور رتھ بھی تھے۔

میک ڈاویل نے کہا کہ ’ان کا وہاں قیام اب خطرے سے خالی نہیں۔ پھر بھی ہم تقریباً دو گھنٹے تک وہاں رہے۔ اس دوران میں سگریٹ پیتا رہا تاکہ انھیں یہ تاثر ملے کہ میں بالکل پریشان نہیں ہوں۔‘

تھوڑی دیر کے بعد، ہڈسن اور میک ڈاویل اپنے سپاہیوں سے ملے جو شہزادوں کو ان کی نگرانی میں شہر کی طرف لے جا رہے تھے۔

ہڈسن نے تینوں شہزادوں پر دو دو گولیاں چلائیں

ہڈسن اور میک ڈاویل دونوں نے بعد میں لکھا کہ شہر واپس آتے ہوئے انھیں خطرہ محسوس ہوا۔ امرپال سنگھ کا کہنا ہے کہ ’جب وہ دہلی سے پانچ میل دور تھے تو ہڈسن نے میک ڈاویل سے پوچھا، ان شہزادوں کا کیا کرنا ہے؟ ’میرے خیال میں ہمیں انھیں یہیں مار دینا چاہیے۔‘ میک ڈاویل نے جواب دیا۔

’ہڈسن نے ان رتھوں کو وہاں رکنے کا حکم دیا۔ ہڈسن نے تینوں شہزادوں کو رتھ سے اترنے اور اپنے لباس اتارنے کو کہا۔ کپڑے اتارنے کے بعد انھیں دوبارہ رتھ پر بٹھا دیا گیا۔ ان کے زیورات، انگوٹھیاں، بازوبند اور جواہرات سے جڑی تلواریں بھی چھین لی گئیں۔ ہڈسن نے رتھ کے دونوں طرف پانچ سپاہیوں کو تعینات کیا۔ پھر ہڈسن اپنے گھوڑے سے اُترے اور اپنے کولٹ ریوالور سے ہر شہزادے پر دو دو گولیاں چلائیں۔ وہ سب کے سب وہیں ڈھیر ہو گئے۔‘

شہزادوں کی لاشیں عوامی مقام پر رکھ دی گئیں

جب شہزادوں کو رتھ سے نیچے اُترنے کو کہا گیا تو وہ بڑے اعتماد کے ساتھ نیچے اُترے۔ انھیں احساس تھا کہ ہڈسن اپنی طاقت کے بل بوتے پر انھیں مارنے کی جسارت نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے لیے انھیں جنرل ولسن سے اجازت لینا ہو گی۔ انھوں نے یہ سوچ کر اپنے کپڑے بھی اتار دیے کہ شاید انگریز انھیں بغیر کپڑوں کے دہلی کی گلیوں میں ذلیل کرنا چاہتے ہیں۔

تھوڑی دیر کے بعد بادشاہ کے ایک خواجہ سرا اور ایک دوسرے شخص نے جس پر کئی لوگوں کو قتل کرنے کا الزام تھا فرار ہونے کی کوشش کی لیکن میک ڈاویل اور اس کے سواروں نے ان کا پیچھا کر کے انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔

میک ڈاویل نے بعد میں لکھا: ’تب تک 4 بج چکے تھے۔ ہڈسن ان شہزادوں کی لاشوں کو رتھ میں رکھتے ہوئے شہر میں داخل ہوا۔ ان لاشوں کو ایک عوامی مقام پر لے جا کر ایک چبوترے پر لٹا دیا گیا تاکہ عام لوگ ان کا انجام دیکھ سکیں۔ ان کے جسم پر کپڑے نہیں تھے۔ ان کی شرمگاہ صرف چند چیتھڑوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ ان کی لاشیں 24 ستمبر تک وہیں پڑی رہیں۔‘

ہڈسن نے ایک خط لکھ کر اعتراف کیا کہ انھوں نے شہزادوں کو قتل کیا

ہڈسن نے بعد میں اپنے بھائی کو ایک خط لکھا: ’میں نے ہجوم سے کہا کہ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے چار ماہ قبل زبردستی ہماری خواتین اور بچوں کو قتل کیا۔ سرکار نے انھیں ان کے کام کی سزا دی ہے۔‘

’میں نے خود انھیں یکے بعد دیگرے گولیاں ماریں اور حکم دیا کہ ان کی لاشیں چاندنی چوک میں کوتوالی کے سامنے چبوترے پر پھینک دی جائيں۔ میں ظالم نہیں ہوں لیکن مجھے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ مجھے ان لوگوں کو مارنے میں بہت خوشی ہوئی۔‘

بعد میں ریورنڈ جان روٹن نے اپنی کتاب ’دی چیپلینڈ نیریٹو آف دی سیج آف دہلی‘ (The Chaplain’s Narrative of the Siege of Delhi) میں لکھا، ’سب سے بڑے شہزادے کا قد کاٹھ بہت مضبوط تھا۔ دوسرا اس سے تھوڑا چھوٹا تھا۔ تیسرے شہزادے کی عمر بیس سال سے زیادہ نہیں ہو گی۔‘

یہ بھی پڑھیے

جہاں آرا: شاہجہاں کی بیٹی جو دنیا کی ’امیر ترین‘ شہزادی بنی

بہادر شاہ ظفر: آخری مغل بادشاہ جن کی قبر کا سو برس تک کسی کو پتہ نہیں چلا

شاہ جہاں: تاج محل کے معمار جن کی سلطنت امیر ترین اور رعایا غریب ترین تھی

کیا مودی بہادر شاہ ظفر کے اصل مزار پر گئے تھے؟

ان کی لاشوں کی نگرانی کے لیے کوک رائفل کے ایک گارڈ کو تعینات کیا گیا تھا۔ ان کی لاشیں تین دن تک کوتوالی کے باہر پڑی رہیں۔ پھر انھیں نہایت بے عزتی کے ساتھ قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ شاید اس کی وجہ انتقام ہو کیونکہ تین ماہ قبل باغیوں نے انگریزوں کی لاشیں اسی حالت میں اسی جگہ رکھ دی تھیں تاکہ دہلی کے لوگ انھیں دیکھ سکیں۔’

باقی شہزادے بھی پکڑے گئے

27 ستمبر کو بریگیڈیئر شاورز کو ایک دستے کے ساتھ باقی بچ جانے والے شہزادوں کو پکڑنے کے لیے بھیجا گیا۔ اس دن شاورز نے تین اور شہزادوں مرزا بختاور شاہ، مرزا مینڈو اور مرزا جواں بخت کو حراست میں لے لیا۔ اکتوبر کے اوائل میں شہنشاہ کے مزید دو بیٹوں کو پکڑ کر گولی مار دی گئی۔ ان دونوں نے انگریزوں کے خلاف باغی فوج کی قیادت کی تھی اور ان پر انگریزوں کے قتل عام کا الزام تھا۔

اسی دوران ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ جب ان شہزادوں کو فائرنگ سکواڈ کی طرف سے گولی ماری جا رہی تھی تو 60 رائفل والوں اور کچھ گورکھا سپاہیوں کی طرف سے چلائی جانے والی گولیاں یا تو ان شہزادوں کو لگیں نہیں یا صرف انھیں زخمی کر سکیں۔

لیکن اس کے بعد ایک پرووسٹ سارجنٹ نے ان شہزادوں کے سر میں گولی مار کر ان کی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔ لیکن کرنل ای ایل اومنی نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ ’گورکھا سپاہیوں نے جان بوجھ کر شہزادوں کے جسم کے نچلے حصے میں گولیاں چلائیں تاکہ انھیں زیادہ تکلیف پہنچے اور وہ دردناک موت مریں۔‘

اس وقت انھیں گندے کپڑے پہننے کے لیے مجبور کیا گیا لیکن انھوں نے اپنی موت کا بہادری سے سامنا کیا۔

سکھ رسالدار نے دو شہزادوں کو بچایا

لیکن بہادر شاہ ظفر کے دو بیٹے مرزا عبداللہ اور مرزا قویش انگریزوں کے چنگل سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔

دہلی کی زبانی کہانیاں اُردو کے مصنف عرش تیموری نے بیسویں صدی کے اوائل میں اپنی کتاب ‘قلعۂ معلی کی جھلکیوں’ میں درج کیا ہے۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ ’دونوں مغل شہزادوں کو ایک سکھ رسالدار کی نگرانی میں ہمایوں کے مقبرے میں رکھا کیا گیا تھا۔ اسی رسالدار کو ان شہزادوں پر رحم آ گیا۔ انھوں نے ان سے پوچھا کہ تم یہاں کیوں کھڑے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ صاحب نے ہمیں وہاں کھڑے ہونے کو کہا ہے۔‘

سکھ نے اسے گھور کر کہا، اپنی زندگی پر رحم کھاؤ۔ جب وہ انگریز واپس آئے گا تو وہ تمہیں ضرور مار ڈالے گا۔ جس سمت بھی بھاگ سکتے ہو دوڑوں اور سانس لینے کے لیے بھی مت رکنا۔ یہ کہہ کر رسالدار نے ان کی طرف سے منھ موڑ لیا۔

دونوں شہزادے مختلف سمتوں میں بھاگے۔ بعد ازاں میر قویش کسی طرح فقیر کے بھیس میں ادے پور پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، جہاں مہاراجہ نے ان کی سرپرستی کرتے ہوئے انھیں دو روپے یومیہ تنخواہ پر اپنے پاس رکھا۔ ہڈسن نے قویش کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی، لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکا۔

بہادر شاہ ظفر کا دوسرا بیٹا عبداللہ بھی انگریزوں کے ہاتھ نہیں آ سکا اور انھوں نے اپنی پوری زندگی ریاست ٹونک میں انتہائی غربت میں گزاری۔ بہادر شاہ کے باقی بیٹوں کو یا تو پھانسی پر لٹکا دیا گیا یا طویل سزائیں کاٹنے کے لیے کالا پانی بھیج دیا گیا۔

کچھ شہزادوں کو آگرہ، کانپور اور الہ آباد کی جیلوں میں انتہائی مشکل حالات میں رکھا گیا جہاں ان میں سے زیادہ تر دو سال کے اندر ہی مر گئے۔ انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو قتل نہ کرنے کا وعدہ پورا کیا۔ انھیں دہلی سے بہت دور برما بھیج دیا گیا جہاں انھوں نے سات نومبر سنہ 1862 کی صبح پانچ بجے اپنی آخری سانس لی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32546 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments