گجرات میں گرشما ویکاریا قتل کیس: ’میری آنکھوں کے سامنے چاقو سے میری بیٹی کا گلا کاٹا گیا‘


گرشما ویکاریا
(اس تحریر کا مواد بعض قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔)

گرشما ویکاریا کا خاندان انڈیا میں گجرات حکومت سے ریاست میں خواتین کے تحفظ سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں سوال کر رہا ہے۔ بی بی سی گجراتی سے بات کرتے ہوئے ویکاریا خاندان کے چند افراد نے کہا کہ ان کی بیٹی کو دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا ہے اور ایسے میں حکومت بیٹیوں کی حفاظت کا دعویٰ کیسے کر سکتی ہے۔

اطلاعات کے مطابق شادی کی پیشکش ٹھکرانے پر فینیل گویانی نے مبینہ طور پر گھر والوں کے سامنے گرشما کا گلا کاٹ دیا۔

گرشما کی خالہ رادھیکا نے کہا کہ ’اگر ایسے واقعات ہوتے رہے تو ہماری بیٹیاں کیسے پڑھ سکیں گی۔ حکومت نے ‘بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ’ کے بینر ہر طرف لگائے ہوئے ہیں اور اس کی خوب تشہیر کی جا رہی ہے۔ لیکن اگر اس طرح کے واقعات نہیں روکے جا سکتے تو خواتین کی حفاظت سے متعلق بینرز اور پوسٹرز کو ہٹایا جائے، نعرے لگانے سے روکا جائے، ’بیٹی بچاؤ‘ کے بینر کی بجائے یہ لگایا جائے کہ اگر بیٹی کو بچانا ہے تو اسے گھر پر رکھو۔‘

گرشما کی خالہ فینیل کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کر رہی ہیں تاکہ دوسروں کو بھی سبق ملے۔

انھوں نے کہا کہ ’جو گرشما کے ساتھ ہوا وہ ملک میں کسی اور بیٹی کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے۔ ہماری بیٹیاں کیسے محفوظ رہیں گی؟ وہ تب ہی محفوظ رہیں گی جب ریاستی حکومت مناسب تحفظ فراہم کرے گی۔‘

گرشما کی والدہ ولاس ویکاریا نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ صرف اپنی بیٹی کے لیے انصاف مانگ رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’میری بیٹی معصوم تھی، اس کا کوئی قصور نہیں تھا مگر پھر بھی اسے قتل کر دیا گیا۔ میں صرف انصاف چاہتی ہوں، میری آنکھوں کے سامنے میری بیٹی کا گلا کاٹا گیا، بہت خون بہہ رہا تھا۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے ہوا۔‘

گرشما ویکاریا

'فینیل ایک سال سے گرشما کو پریشان کر رہا تھا'

پولیس کو بتایا گیا کہ ’فینیل گذشتہ ایک برس سے گرشما کی ہراسانی کر رہے تھے، ان کا پیچھا کر رہے تھے، انھیں ہراسانی کا شکار بنا رہے تھے۔ اس کے بعد دونوں خاندانوں کے درمیان صلح بھی ہو گئی تھی۔‘

اس دل دہلا دینے والے واقعے کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے، جس کی وجہ سے لوگ پولیس کے نظام اور عوام کی حساسیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ یہ بھی الزام ہے کہ ملزم فینیل کے خلاف کار چوری کا مقدمہ بھی درج ہے۔

پولیس اس معاملے کی بھی تفتیش کر رہی ہے۔ فینیل کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔

سورت کے کامریج علاقے کی خولواد لکشمدھان سوسائٹی کی رہنے والی گرشما ویکاریا جے جے شاہ کالج امرولی سے بی کام کر رہی تھیں۔

اس دن ایسا کیا ہوا کہ نوبت قتل تک آ پہنچی؟

گرشما کے لواحقین نے الزام عائد کیا ہے کہ فینیل پنجک گویانی گذشتہ ایک برس سے گرشما کے ساتھ ہراسانی کر رہے تھے۔ سوراشٹر میں گاڑیادھر علاقے کے موتی واوڑی گاؤں کے باسی فینیل، سورت کے علاقے کپوڑا میں واقع ساگر سوسائٹی کے رہائشی ہیں۔

پولیس شکایت میں یہ بھی درج ہے کہ گرشما کے گھر والوں نے اس معاملے پر فینیل کے گھر والوں سے بات کی تھی۔

گرشما کے والد کے دوست کے ساتھ ساتھ ان کے ماموں نے بھی فینیل کے گھر والوں سے ملاقات کی، جس کے بعد انھوں نے فینیل کو ایسا کرنے سے روک دیا۔ فینیل نے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ گرشما کا پیچھا کرنا چھوڑ دیں گے۔

پولیس کے مطابق ’فینیل ویلنٹائن ڈے سے دو دن پہلے ہفتے کی شام گرشما کے گھر کے پاس پہنچا۔ انھیں دیکھ کر گرشما نے اپنے تایا سبھاش ویکاریا کو یہ سب بتایا۔

’سبھاش نے فینیل کو روکنے کی کوشش کی، لیکن انھوں نے روکے جانے پر گرشما کے تایا پر حملہ کر دیا اور انھیں چاقو مار کر زخمی کر دیا۔‘

گرشما کے 17 برس کے بھائی اور اس مقدمے میں مدعی کنندہ دھرو نے بھی فینیل کو روکنے کی کوشش کی لیکن فینیل نے ان کے ہاتھ اور سر میں چاقو سے وار کیے۔

شکایت کے مطابق ’گرشما نے اپنے تایا اور بھائی کو بچانے کی کوشش بھی کی، لیکن فینیل نے گرشما کی گردن پر چھری رکھ دی۔ گرشما کے والدین اور خاندان کے دیگر افراد انھیں جان بچانے کی دُہائیاں دیتے رہے، لیکن فینیل نے گرشما کا گلا کاٹ دیا۔‘

اس واقعے کے بعد سورت پولیس کے انسپکٹر جنرل راج کمار پانڈیان نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ ‘اگر خاندان کا کوئی فرد لڑکی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے یا اسے ہراس کر رہا ہے تو سماجی حیثیت کی پرواہ کیے بغیر پولیس میں شکایت درج کروائیں، تاکہ ایسے واقعات کو روکا جا سکے۔‘

’ملزم نے خودکشی کی کوشش کی‘

اس تکلیف دہ واقعے کے ایک عینی شاہد نے بتایا کہ ’قتل کرنے کے بعد فینیل وہیں رہا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ کوئی گرشما کو بچانے کی کوشش نہ کی۔‘ مقامی میڈیا کے مطابق ‘جب انھیں یقین ہو گیا کہ گرشما مر چکی ہے تو اس نے خود کو چاقو سے مارنے کی کوشش کی۔‘

سورت کے ڈپٹی ایس پی بی کے ونار نے بی بی سی گجراتی کو بتایا کہ ’ملزم نے خودکشی کی کوشش نہیں کی کیونکہ وہ خود جائے وقوعہ پر کھڑے ہو گئے تھے تاکہ کوئی دوسرا گرشما کو بچانے کی کوشش نہ کر سکے۔‘

ان کے مطابق ’گرشما زمین پر گر گئی تھیں اور شدید کرب میں تھیں۔ ملزم نے جب تک وہ مر نہیں گئیں کسی کو قریب آنے یا اسے ہسپتال لے جانے نہیں دیا۔‘

بی کے ونار کے مطابق ’ملزم دو سے تین منٹ تک وہاں ٹھہرا رہا۔ وہ تمباکو اور سپاری چباتا رہا اور دوسرے لوگوں کو چاقو سے زخمی کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ دوسروں کو ڈرانے کے لیے ملزم نے خود پر وار کیا۔‘

ڈپٹی ایس پی بی کے ونار کے مطابق مقتول اور ملزم دونوں کی عمریں 20 سے 21 سال کے درمیان تھیں۔

فینیل کے والد پنکج گویانی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ لڑکا ’فینیل خاندان کے لیے مصیبت بن گیا تھا، اس نے کسی کی بات نہیں سنی، جب گرشما کے گھر والے شکایت لے کر آئے تو میں نے اسے ڈانٹا۔ پھر اس نے کہا کہ اب میں گرشما کو تنگ نہیں کروں گا۔‘ مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔

فینیل کے والدین کے مطابق وہ اپنے بیٹے کی خیریت دریافت کرنے ہسپتال بھی نہیں گئے۔

دوسری جانب گرشما کے والد نند لال جب افریقہ سے واپس آئے تو گرشما کی آخری رسومات ادا کر دی گئی تھیں۔ اس دوران گرمی کے باوجود رشتہ داروں کے علاوہ اہل محلہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

فینیل نے کالج چھوڑ دیا تھا

مقامی صحافی وندن بھدانی اسی کالج کے طالب علم رہے ہیں، جس میں فینیل نے تعلیم حاصل کی تھی۔ وندن کے مطابق فینیل کو جون 2020 میں کالج سے نکال دیا گیا تھا کیونکہ ان کی حاضری دس فیصد سے کم تھی۔

وندن نے کہا کہ ’میں نے بھی اسی کالج میں تعلیم حاصل کی ہے اور میں نے فینیل کے کیس کے بارے میں بھی پڑھا ہے۔ فینیل اور اس کے دوستوں سے چھیڑ چھاڑ کی شکایتیں بھی موصول ہوئی تھیں۔ یہاں تک کہ ان کے دوستوں کو بھی معلوم نہیں تھا کہ انھیں کالج سے نکال دیا گیا ہے۔ وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ کلاسز کے دوران وہ کیمپس میں گھومتے رہتے تھے۔‘

ڈپٹی ایس پی بی کے ونار کے مطابق ’فینل نے کالج میں اپنا پہلا سال مکمل کیا تھا اور دوسرے سال میں اس نے تعلیم چھوڑ دی تھی۔‘

بی کے ونار کے مطابق ’وہ سلائی کڑھائی کے بوتیک سینٹر میں کام کرتا تھا لیکن پچھلے 15-17 دنوں سے اس کے پاس کوئی کام نہیں تھا۔ پہلی نظر میں یہ یک طرفہ محبت کا معاملہ لگتا ہے۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ کیا فینیل نے ماضی میں جرائم کیے ہیں، بی کے ونار نے کہا ’ریکارڈ کے مطابق اس نے ایک کار چوری کی تھی۔ اس جرم میں اس کے ساتھ چار پانچ لوگ شامل تھے۔ اس چوری کے پیچھے کیا ارادہ تھا؟ یہ تفصیلی تفتیش کے بعد معلوم ہوگا۔‘

وندن بھدانی کا کہنا ہے کہ ’کچھ لوگوں کے مطابق فینیل 12 فروری کو گرشما کی سوسائٹی میں تین چار لڑکوں کے ساتھ گیا تھا۔ لیکن وہ سوسائٹی سے باہر رہے اور بعد میں فرار ہو گئے تھے۔‘ تاہم پولیس نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔

وندن نے کہا کہ ’وہ کالج بھی گیا تھا اور گرشما کے ساتھ لڑائی بھی ہوئی تھی۔ اس کی دماغی صورتحال خطرناک ہے، اسے دو تین وارننگز مل چکی تھیں۔‘

فینیل کے والد نے بھی یقین دلایا کہ تھا وہ آئندہ گرشما کو پریشان نہیں کرے گا۔ اس کے بعد دو تین ماہ تک سب کچھ پرسکون تھا۔ لیکن پھر فینیل کی گرشما سے لڑائی ہوئی۔

ان کے مطابق ’گرشما نے یہ سب اپنے والد کو نہیں بتایا، البتہ انھوں نے گھر کے باقی لوگوں کو یہ سب بتا دیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

نور مقدم کیس: وہ قتل جس نے اسلام آباد کو ہلا کر رکھ دیا

کرناٹک میں حجاب پر پابندی: ’جب لوگ اپنی مذہبی رسومات پر عمل کر سکتے ہیں تو ہم پر پابندی کیوں؟‘

17 خواتین کو دھوکا دے کر شادی کرنے اور کروڑوں کا فراڈ کرنے والے شخص کے پکڑے جانے کی کہانی

سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں

دن دیہاڑے گرشما کے قتل کی خبر بھی سوشل میڈیا پر پھیل گئی۔

گرشما کے قتل کی ویڈیو جعلی خبروں کے ساتھ سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی۔ بی بی سی گجراتی نے سوشل میڈیا پر کیے جانے والے دعوؤں کی حقیقت کا پتا چلایا۔

بی بی سی گجراتی کو پتا چلا کہ گرشما کے قتل کی ویڈیو کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جھوٹے دعوؤں کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے، اسے ‘لو جہاد’ اور مذہب کی تبدیلی سے جوڑا جا رہا ہے۔

یہ بھی کہا گیا کہ فینیل ایک مسلم نوجوان ہے جنھوں نے گرشما کو اس لیے قتل کیا کیونکہ گرشما نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

اسی طرح کے بے بنیاد دعوے کچھ صارفین کی طرف سے ٹوئٹر پر بھی کیے گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments