پتنگ بازی اور آتش بازی …. انتظار حسین کا اداریہ


 1963ء کا برس تھا۔ محترم انتظار حسین ادبی جریدے ‘ادب لطیف” کے مدیر تھے۔ پچپن برس قبل بھی ہمارے ملک میں وہی بحثیں ہو رہی ہیں جنہوں نے آج بھی قوم کا قافیہ تنگ کر رکھا ہے۔ کچھ مذہب پسند تھے کہ عقیدوں کو خالص کرنے کی جستجو میں شب برات کی آتش بازی پر معترض تھے۔ کچھ جدیدیت پسند تھے کہ فروری کے آسمان پر اڑتی بسنت کی پتنگ کو قدامت کا نشان جانتے تھے۔ انتظار حسین نے فروری 1963 کا اداریہ اسی بحث کی نذر کیا تھا۔ محترمی محمود الحسن کی ادبی کھوج ضرب المثل ہے۔ انتظار حسین کے اداریے کا متن اور ادب لطیف کے سرورق کا عکس ڈھونڈ لائے ہیں۔ مقصد یہ بتانا کہ ظالمو نئی صدی کا آفتاب سر پہ آ گیا۔ آپ ابھی تک انہی باتوں کے طوطا مینا اڑا رہے ہیں جنہوں نے دو نسلوں کا راستہ کھوٹا کیا….

***     ***

اظہار پر پابندی کی نئی صورتیں یوں پیدا ہوئیں کہ پتنگ بازی اور آتش بازی پر اب پابندیاں عائد ہیں۔ شب برات اور بسنت کی تقریبیں آئیں تو یوں آتش بازی بھی لپ چھپ کر چھوڑی گئی اور پتنگ بھی اڑے ۔ مگر ایک احساس گناہ کے ساتھ، مذہبی تیوہار اور موسمی تقریبیں اب شاید ہمارے یہاں جذبے کا بے ساختہ اظہار نہیں رہیں۔ وہ شاعری کے مقام سے گر کر جرم کی سطح پر آگئی ہیں۔ یہ مسئلہ بالواسطہ طور پر ادب کا مسئلہ ہے اس لیے کہ اجتماعی اظہار کی رنگارنگ صورتیں ہی مل جل کر اظہار کی ان صورتوں کو جنم دیتی ہیں جنہیں شعر، افسانہ اور ڈرامہ کہتے ہیں اور اجتماعی اظہار کی وہ صورتیں جو ایک تہذیبی روایت بن جاتی ہیں اتنی ہی قابل احترام ہوتی ہیں جتنی کسی تہذیب میں بڑی شاعری قابل احترام ہو سکتی ہے ۔ انہیں ختم کرنے کی کوشش اس تہذیب کے تخلیقی عمل کو ختم کرنے کی کوشش بن جاتی ہے۔
مسئلہ صرف پتنگ بازی اور آتش بازی کا نہیں بلکہ کوئی ایسی سرگرمی جو مذہبی رسم بن گئی ہے یا کسی مذہبی یا معاشرتی رسم سے متعلق ہو گئی ہے آزاد خیال ادیبوں، ماڈرن مولویوں اور سرکاری افسروں کو قبول نہیں ہے۔ شب برات کے حلوے پر ابھی کوئی پابندی عائد نہیں ہوئی اور بوڑھی عورتیں گھر بیٹھ کر یہ کہنے کی آزادی رکھتی ہیں کہ جنگ احد میں حضور کے دو دانت شہید ہو گئے تھے۔ آپ روٹی نہیں کھا سکتے تھے سو حلوہ پکا کر کھایا تھا مگر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی سرے سے اس تیوہار ہی کا کوئی جواز نہیں دیکھتے۔ اور بقر عید کے سلسلہ میں یہ تجویز ہمارے سامنے آچکی ہے کہ قربانی کے طریقہ کو ایک رسم کے طور پر بجا لانا ختم ہونا چاہیے۔ معاشرتی اصلاحات کی رپورٹ میں شادی بیاہ اور غمی و خوشی کی ساری رسموں اور تقریبوں کو اخلاقی زوال اور اسراف بے جا کے ذیل میں شمار کیا گیا ہے۔

ادیب اس صورت حال سے غیر متعلق نہیں ہو سکتے اس لیے کہ یہ صورت حال پیدا کرنے میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے۔ یہاں مجھے پرانی داستانیں اور کہانیاں یاد آتی ہیں جن میں بتایا جایا کرتا تھا کہ فلاں امیر کے گھر شادی ہوئی تو لکھ لٹے ۔ چھ مہینے تک امیر غریب مقامی اور مسافر امیر کے دستر خوان پر کھانا کھاتے رہے۔ ان زوال پسند داستانوں کے بعد اصلاحی ناولوں اور افسانوں کا زمانہ آیا جن میں بتایا گیا کہ شادی بیاہ میں دعوتوں اور ریت رسموں پر خرچ کرنا جہالت ہے۔ شادی سیدھے سادھے طریقہ سے ہونی چاہیے اور اب پاکستان کا امیر طبقہ بہت سیدھے سادھے طریقہ سے شادی بیاہ کرتا ہے ۔ کسی بڑے ہوٹل میں معزز مہمانوں کو ایک چائے دے دی اور چیک بک دولہا دلہن کے ہاتھ میں تھما دی۔ بیچ میں سے وہ چھوٹا طبقہ صاف اڑ گیا جو ان ریت رسموں کے بل پر اپنا کاروبار چلاتا تھا اور پیٹ پالتا تھا۔ اس حوالہ سے وجود میں آنے والی کچھ چھوٹی صنعتیں تباہ ہو گئیں ، کچھ تباہ ہوا چاہتی ہیں۔ بہرحال اسراف بے جا کی شکایت اب نہیں ہونی چاہیے۔ بڑی شادیوں میں دولت ایک جیب سے نکل کر بصورت چیک دوسری جیب میں چلی جاتی ہے۔ کر کمینوں پر پائی بھی ضائع نہیں ہوتی۔ زوال پسند داستان گو ہار گئے۔ ترقی پسند ادیب اور جماعت اسلامی کے مولوی کامیاب رہے۔ پیسہ کہ کہیں نہ کہیں خرچ ہونا ہے، مہندی اور ابٹنے پر نہیں ہو گا تو امپورٹڈ سرخی اور پاﺅڈر پر خرچ ہو گا اور لڑکے پتنگ نہیں اڑائیں گے تو کرکٹ میچ کی ریڈیو کمنٹری سنیں گے اور گیند بلا کھیل کر آنکھ ناک پھوڑیں گے۔ مگر موخر الذکر سرگرمی پر کسی کو اعتراض نہیں، نہ ادیبوں کو نہ مولویوں کو نہ پولیس کو، بے شک اس سے دفتروں کے کام پٹ ہو جائیں اور گھر باہر کے کام رک جائیں۔
رسمیں ایک تہذیب کی بقا کی ضامن ہوتی ہیں۔ مذہبی رسمیں مذہبی عقائد کو قائم و دائم رکھتی ہیں۔ ان کی مدد کے بغیر کوئی مذہبی عقیدہ اپنے آپ کو برقرار نہیں رکھ سکتا اور یہ بات ہر قسم کے عقیدے کے بارے میں صحیح ہے۔ عقائد و افکار انسانی سرگرمی میں گھل مل کر ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔ مولوی کے وعظ، انٹلکچوئل کی گفتگو اور محقق کی کتاب کے اندر کوئی عقیدہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ جب کسی تہذیب پر یہ عالم آجاتا ہے تو پھر کسی بدیشی تہذیب کی بن آتی ہے اور امپورٹڈ خیالات اور امپورٹڈ طور طریقے اور رسم و رواج جدیدیت کے نام پر اپنا اثر جمانے لگتے ہیں۔
رسمیں خواہ خالص مذہبی ہوں یا معاشرتی، ایک تہذیب کے تخلیقی عمل کی گواہ ہوتی ہیں۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ ایک تہذیب میں زندہ رہنے اور تخلیق کرنے کی کتنی صلاحیت ہے یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کتنی رنگارنگ رسموں اور طور طریقو ں کو جنم دیا ہے اور پھر اسی سے یہ طے ہوتا ہے کہ اس تہذیب کے اندر شعر و ادب اور فنون لطیفہ کے پیدا ہونے اور پنپنے کی کتنی گنجائش ہے۔ بہرحال تہذیبی سانچوں اور ادب میں کوئی تو رشتہ ہے کہ پاکستان میں شب برات کے تیوہار کا جو احوال ہوا ہے وہی ادب کا حال ہے۔ لگتا ہے کہ آتش بازی چھوٹ چکی۔ شب برات پہ ہوتا ہے کہ مولویوں اور پولیس والوں سے لپ چھپ کر کوئی انار چھوڑ لیا اور ادب یہ ہے کہ انگریزی کے پروفیسروں اور نقادوں سے آنکھ بچا کر کوئی شعر ، کوئی افسانہ، کوئی ناول لکھ لیا۔

(انتظار حسین)

ایک کہانی میں کہوں تو سن لے میرے پوت
بن پروں وہ اڑ گیا باندھ گلے میں سوت
(امیر خسرو)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments