علی ترین کی ملتان سلطان


علی ترین جب سیاست میں وارد ہوئے تو مجھے کچھ خاص اچھا نہیں لگا۔ لیکن جب اس نے الیکشن میں خود کو پورٹریٹ کرنا شروع کیا اس کا عوام کے ساتھ جو تعلق دیکھنے کا ملا وہ بہت دلچسپ تھا۔ اس نے نوجوانوں کو ساتھ ملایا، ان کی ٹیم بنائی، ان کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا، ان کے ذمے کام لگایا، ان کو ٹاسک دے کر گویا ان کو عملی طور پر میدان میں اتار دیا۔ اس نے روایتی سیاسی بزرگوں اور برادری سرداروں کے دم پر الیکشن نہیں لڑا بلکہ اس نے سیاست کو جدت بخشی، خود کمپین کو لیڈ کیا نہ کہ ڈائری میں لکھے لکھائے شیڈول کو فالو کیا۔

سیاسی میدان سے ہٹ کر بھی یہ نوجوان حلقے میں بہت مقبول ہے۔ حلقے کے نوجوانوں کے ساتھ مل کر کرکٹ کھیلتا ہے، کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد کرتا ہے، ٹورنامنٹ آرگنائز کراتا ہے، سوشل ورک میں آگے آگے ہوتا ہے، مختصر یہ کہ اس نے اپنے لوگوں کو اپنایا ہے۔ روایتی سیاستدانوں کی طرح اس کی سیاسی اور ذاتی زندگی کے احباب مختلف نہیں ہیں بلکہ اس کے احباب وہی لوگ ہیں، جن کے ساتھ صبح سے شام تک یہ وقت گزارتا ہے اور انہی کو ساتھ لے کر وہ میدان سیاست میں اترا۔

جب یہ الیکشن ہارا تو اس کی والدہ کی نم آنکھوں کے ساتھ تصویر نے دل موہ لیا جس میں یہ ماں کے گلے لگ کر مسکرا کر اسے تسلی دے رہا ہے۔ چونکہ اس کی ہار اک بڑا اپ سیٹ تھی لہذا سوشل میڈیا پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر بہت لے دے ہوئی۔ جہانگیر ترین اور عمران خان تک دباؤ میں تھے پھر اس نے اک ٹی وی انٹرویو دیا اور کھل کر شکست تسلیم کی، اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا، اس کی سٹریٹجی، اس کا اخلاق، اس کی جدت، اس کا نکتہ نظر، اس کی عمر یہ سب اس کے پلس پوائنٹ ہیں۔

میں جانتا ہوں کہ لوگ میری اس بات پہ اعتراض اٹھائیں گے۔ موروثی سیاست کا راگ الاپا جائے گا۔ اک ایسا ملک جہاں کمہار کا بیٹا کمہار نائی کا بیٹا نائی موچی کا بیٹا موچی بنتا آ رہا ہے وہاں سیاستدان کا بیٹا سیاستدان نہیں بن سکتا۔

شام چوراسی گھرانے سے میوزک کے جو استاد نکلتے آئے ہیں ہم ان کے متعلق فخر سے کہتے ہیں جی موسیقی تو ان کے خون میں ہے لیکن جب سیاستدان کی باری آئے تو ہمارا نظریہ اک دم سے تبدیل ہو جاتا ہے۔

اور ویسے بھی جنرل الیکشن میں ٹکٹ نہ لے کر اس نے اپنے اس داغ کو کچھ حد تک دھو دیا ہے۔ اک لمحے کے لیے علی ترین کو جہانگیر ترین کے بیٹے کی نظر سے نہیں اک ایسے نوجوان کی نظر سے دیکھیے جو نوجوان ہے جو تعلیم یافتہ ہے، جو ویزنری ہے، جو ترقی پسند ہے، جو روایتی سیاست سے ہٹ کر اپنے بل بوتے پر کچھ نیا کر رہا ہے، جس کے حلقہ احباب میں اردگرد کے مڈل کلاس نوجوان ہیں جو سیاست کو اک علم کے طور پر لیتا ہے اور خدمت کو سائنس کی طرح پراسیس میں تقسیم کرتا ہے، جس کے پاس صرف مسائیل سے آگاہی ہی نہیں بلکہ ان کے ممکنہ حل کے پلان بھی ہیں۔

میرا تحریک انصاف سے کسی طرح کا کوئی واسطہ نہیں مگر مجھے علی ترین پسند ہے۔ مجھے اس میں وہ ایکس فیکٹر نظر آتا ہے جو اک لیڈر میں ہونا چاہیے۔ مجھے روایتی سیاستدانوں کی طرح اس میں اجڈ پن، غرور، عوام سے دوری، مسائیل سے ناواقفیت، تھانے کچہری کی چالوں، انتقامی رویے اور جاگیردارانہ سوچ کی بجائے اخلاق، عاجزی، ٹیم ورک، پازیٹوٹی، عقل و دانش، علم اور متانت نظر آتی ہے۔ اس نوجوان سرائیکی سپوت نے اپنے خطے کی نمائندہ کرکٹ ٹیم ملتان سلطان خرید لی ہے اور پی ایس ایل میں اینٹری لی ہے ہمارے وسیب کا اک اک نوجوان علی ترین اور اس کی ٹیم ملتان سلطان کے ساتھ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).