مندر کو بیٹھک بنانا کہاں کا انصاف ہے؟


پاکستان کے صوبہ سندھ میں ایک تاریخی مندر کو بیٹھک بنایا کیا ہے جو تاریخی بگاڑ کے ساتھ ساتھ بڑی نا انصافی بھی ہے۔ اس طرح سندھ میں بہت سے تاریخی مقامات کی اصلیت گم کی گئی ہے۔ محققین اور مورخین کی غیر سائنسی تحقیق اور غیر حوالہ شدہ رائے کی وجہ سے ان قدیم مقامات کی اصلیت اور پس منظر معدوم بنا دیا گیا ہے۔

یہی حال جامشورو سے 65 کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع جامشورو میں گوپانگ ریلوے اسٹیشن اور خاصائی شورہ قبیلے کے گاؤں کے درمیان واقع ایک قدیم مندر تھا جس کو سما حکمران خاندان کے سالار دولہہ دریا خان کی بیٹھک یا آرام گاہ بنا دیا گیا ہے۔

اس جگہ کو قبولیو خان سمہ عرف عام ​​دولہہ دریا خان کی آرام گاہ (بیٹھک) کا نام دیا گیا ہے یہ نا انصافی معروف ماہر آثار قدیمہ سید حاکم علی شاہ بخاری اور مورخ ڈاکٹر پروفیسر غلام محمد لاکھو کے بیانات کی روشنی میں کی گئی ہے۔

دولہہ دریا خان سندھ پر سمہ حکمرانی کے دور میں وزیر بھی تھا اور سلطان جام نندو عرف جام نظام الدین سمو کے دور میں وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھا۔ جام نندو کن تاریخوں کے مطابق 1439 ء میں اور کچھ تاریخوں کے مطابق 1463 ء میں تخت نشین ہوا تھا اور 1509 ء میں وفات پا گئے۔

سندھ کی تاریخ میں دریا خان کے نام اور قبیلے کے حوالے سے جان بوجھ کر ایک تنازعہ بھی پیدا کیا گیا ہے۔ دریا خان سمہ حکمرانی کے دفاع میں لڑتے ہوئے 1521 ء میں شہید ہوا۔ جام نندو خان ​​ان سے اتنا خوش تھا کہ اس نے اسے بھان سعید آباد (اب سندھ کا ضلع جامشورو) کے قریب گاؤں ٹلٹی اور جوہی (اب سندھ کا ضلع دادو) کے قریب گاؤں گاہا میں جاگیریں الاٹ کر دیں۔ دونوں گاؤں اب بھی منچھر جھیل کے قریب موجود ہیں۔

تاریخ سندھ پر کتب، تحفۃ الکرام اور جنت السندھ کے مطابق، دریا خان جوہی کے قریب گاؤں گاہا میں آباد ہوئے، جہاں اس نے مذہبی تعلیمات کے لئے ایک مدرسہ قائم کیا۔ یہ مدرسہ اتنا مشہور تھا کہ یہاں ہرات سے مولانا یار محمد ابہری، مولانا اسیر الدین ابہری اور عبدالعزیز ابہری جیسے علماء آ کر پڑھانے لگے۔ گاؤں گاہا (اب سید بہار علی شاہ) جوہی سے 7 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

یہ یقین سے کہا جاتا سکتا ہے کہ دولہ دریا خان کی نام نہاد بیٹھک قدیم زمانے کا ایک مذہبی مقام ہے۔ عمارت اور جگہ کی تعمیر ہی بتاتی ہے کہ یہ مندر ہے، بیٹھک ہے۔ برصغیر حتیٰ کہ ایشیا کی تاریخ میں گنبد کے ساتھ اس قسم کی تعمیر شدہ آرام گاہ (بیٹھک یا اوطاق) کا کوئی حوالہ نہیں ملتا۔

بغیر کسی حوالہ اور سائنسی تحقیق کے اس پرانے مذہبی مقام کا تعلق دولہ دریا خان جوڑا گیا ہے۔ بڑا ثبوت یہ بہی ہے کہ اس طرح کی اینٹوں اور جپسم کے مواد سے طرز تعمیر کی سندھ میں سمہ حکمرانوں کے میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ سمہ حکمرانوں نے قبریں اور مقبرے تاشے ہوئے پتھروں کے سلیبوں سے تعمیر کیے تھے۔

بہرحال اس مذہبی مقام کے قریب ایک پرانے بستی کی باقیات موجود ہیں، اس لئے ٹھٹھہ (سماء کے دور میں دارالحکومت) سے گاؤں ٹلٹی یا گاہا آتے ہوئے دریا خان کے اس جگہ یا اس مقام پر مختصر قیام کو رد کیا نہیں جا سکتا۔ سفر کے دوران، دریا خان نے اس مذہبی مقام کے قریب کہیں توقف کیا ہو گا مگر اس سلسلے میں کوئی تاریخی گواہی نہیں ملتی۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ دریا خان مندر کی تعمیر کو بیٹھک نہیں بنا سکتا تھا۔ تاریخ کا تقاضا ہے کہ اس طرح ایسے مقامات کا تاریخی ریکارڈ درست ہونا چاہیے۔

میرے خیال میں یہ شیو مندر ہے، کیونکہ اس کی تعمیر مانجھند کے قریب شیو مندر سے ملتی جلتی ہے، حالانکہ یہ مندر مانجھند کے قریب شیو مندر سے پرانا ہے۔ میں نے خود کئی بار اس قدیم مندر کا مشاہدہ کیا ہے۔ مندر کا اگلا حصہ جنوب مشرق کی طرف ہے اور پچھلا حصہ شمال مغرب کی طرف ہے۔

فرض کریں اگر یہ مسجد ہوتی تو اس میں محراب ہوتی اور اس کا پچھلا محراب والا حصا مغرب کی جانب کعبة اللہ کی طرف ہوتا۔ اس لئے یہ گنبد والی تعمیر نہ مسجد ہو سکتی ہے اور نہ ہی کوئی بیٹھک۔ مندر کو ایک کمپاؤنڈ وال ہے جو بھی خستہ حال ہے۔ اس مندر کے تین حصے ہیں۔ گنبد والا حصہ درمیان میں ہے۔ پکی اینٹوں کو جپسم (چیرولی) مواد کے ساتھ تعمیر گیا ہے۔

یہ تاریخی مقام خستہ حال کا شکار تھا۔ صرف گنبد والا حصہ اور احاطے والی دیوار کا پچھلا حصہ موجود تھا جس کے جلد تباہ ہونے کا خدشہ تھا۔ اینڈومینٹ فنڈ ٹرسٹ (EFT) کراچی نے دولہہ دریا خان کی بیٹھک کے طور پر اس کی درست حالی تو کی مگر اس کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ ایک سے زیادہ کنبد تعمیر کیے ہیں۔ ہے کوئی انصاف کرنے اور پوچھنے والا؟ اب یہ مسجد نما ایک ریسٹ ہاؤس لگ رہا ہے۔ اب تو مندر کی اصلی صورت بالکل گم ہو گئی ہے۔

اس کی درست حالی درست کی جاتی تو سندھ پاکستان کا تاریخی اور ثقافتی ورثہ گمشدگی سے بچ جاتا۔ اس کے نئے سرے سے درست حالی کی جائے اور اس مندر کے تاریخی ریکارڈ کو بھی درست کیا جائے کیوں کہ بغیر کسی تاریخی حوالے سے کسی مندر کو بیٹھک بنانا کہاں کا تاریخی انصاف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments