خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا معرکہ


 

خیبر پختونخوا کے 17 اضلاع میں 19 دسمبر کو ہونے والے پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کے غیر متوقع نتائج سامنے آنے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صوبے کے باقی ماندہ 18 اضلاع کی 65 تحصیلوں اور لگ بھگ 1830 ویلج و نیبر ہوڈ کونسلوں میں 31 مارچ کو دوسرے مرحلے کے انتخابات کا اعلان کر کے صوبے کی تمام قابل ذکر جماعتوں کو لنگوٹ کس کے میدان میں نکلنے پر ایک بار پھر مجبور کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے دوسرے مرحلے کے انتخابات 31 مارچ کو منعقد کرنے کا نہ صرف فیصلہ کیا ہے بلکہ الیکشن شیڈول جاری کر کے پہلے مرحلے میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے امیدواران کی ابتدائی فہرست بھی جاری کردی ہے۔

جاری کردہ فہرست کے مطابق دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کے لئے 2 3 ہزار 839 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ تفصیلات کے تحت 65 تحصیلوں کے چیئر مینوں کے لئے 873 اور ایک ہزار 830 ویلج و نیبرہوڈ کونسلوں کی جنرل نشستوں کے لئے 15 ہزار 336 امیدوار میدان میں اترے ہیں، خواتین نشستوں کے لئے 3 ہزار 488، مزدور کسان کے لئے 7 ہزار 16، نو جوان نشست کے لئے 6 ہزار 6 جبکہ اقلیتی نشست کے لئے 120 امیدواران نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ تین روز تک ان کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد ان کے مسترد ہونے یا تصدیق کا فیصلہ کیا جائے گا جبکہ 24 سے 26 فروری تک ریٹرننگ افسران کے فیصلے کے خلاف درخواست جمع کرائی جا سکے گی۔

یاد رہے کہ 31 مارچ کو صوبے کے جن اٹھارہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ منعقد ہو رہا ہے ان میں چار سابقہ قبائلی اضلاع شمالی وزیرستان، کرم، اورکزئی اور جنوبی وزیرستان بھی شامل ہیں جہاں تاریخ میں پہلی دفعہ بلدیاتی انتخابات کا ڈول ڈالا جا رہا ہے جب کہ تین سابقہ قبائلی اضلاع خیبر، مہمند اور باجوڑ میں پہلے مرحلے کے تحت بلدیاتی انتخابات منعقد ہو چکے ہیں۔ دوسرے مرحلے کے الیکشن پر گفتگو کرتے ہوئے اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے مرحلے میں 17 اضلاع کی 66 تحصیلوں کے نتائج کے مطابق جمعیت علماء اسلام نے میئر اور تحصیل چیئرمین کی 24 نشستوں پر کامیابی سمیٹ کر کے صوبے میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے، حکمران جماعت تحریک انصاف کا 17 نشستیں جیت کر دوسرا نمبر رہا ہے جب کہ پہلے مرحلے میں 10 آزاد امیدواران کامیاب ہو کر تیسری پوزیشن پر آئے ہیں، عوامی نیشنل پارٹی کے 7، مسلم لیگ (ن) کے 3، جماعت اسلامی اور تحریک اصلاحات پاکستان کے 2، 2 اور پیپلز پارٹی کا ایک امیدوار کامیاب ہوا ہے۔

پہلے مرحلے کے انتخابات جہاں جمعیت علماء کے لیے ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوئے ہیں وہاں اس مرحلے کے نتائج خیبر پختونخوا میں نو سال سے برسراقتدار تحریک انصاف کے لیے سیاسی ہزیمت کا پیغام لے کر آئے ہیں۔ اسی طرح یہ مرحلہ صوبے میں بڑا سیاسی قد کاٹھ رکھنے کا دعویٰ رکھنے والی عوامی نیشنل پارٹی کے لیے بھی لمحہ فکریہ ثابت ہوا ہے۔ جبکہ ان انتخابات نے اپنے آپ کو ملک کی سب سے بڑی جماعت ہونے اور چاروں صوبوں میں وجود رکھنے کی دعوے دار پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی خیبر پختونخوا میں سیاسی بھرم کھول کر رکھ دیا ہے۔

یہ انتخابات ملک گیر مذہبی و سیاسی پارٹی کہلائی جانے والی اور ملک بھر میں اس جماعت کو سیاسی اور انتخابی شناخت دینے والی جماعت اسلامی کے لیے بھی سیاسی تازیانہ ثابت ہوئے ہیں جس کو جہاں صوبے کے وسطی اضلاع میں کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی وہاں اسے باجوڑ کے اپنے روایتی گڑھ میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے البتہ یہ بات حیران کن بھی ہے اور دلچسپ بھی کہ اسے تاریخ میں پہلی دفعہ جمعیت علماء اسلام کے گڑھ کہلائے جانے والے دو جنوبی اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان اور لکی مروت کی دو تحصیلوں درابن اور سرائے نورنگ پر کامیابی نصیب ہوئی ہے جسے جماعت اسلامی کے حلقوں میں ایک خوشگوار اور حیران کن تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اسی طرح بلدیاتی انتخابات کے اس پہلے مرحلے کے نتائج قوم پرست جماعت قومی وطن پارٹی کے لیے بھی شدید دھچکے کا باعث بنے ہیں جسے صوبے کی کسی بھی تحصیل حتیٰ کہ اس پارٹی کے مرکزی اور صوبائی قائدین کی آبائی تحصیل شیرپاؤ میں بھی کامیابی نہیں مل سکی ہے البتہ یہ انتخابات صوبے میں حال ہی میں سابق ممبر قومی اسمبلی الحاج شاہ جی گل آفریدی کی قیادت میں نئی اینٹری دینے والی تحریک اصلاحات پاکستان نامی پارٹی کے لیے کسی حد تک خوش آئند ثابت ہوئے ہیں جس کے امیدواران نے ضلع خیبر کی دو تحصیلوں پر کامیابی حاصل کر کے ایک اچھی اننگز کا آغاز کیا ہے۔

واضح رہے کہ اس پارٹی جس نے حال ہی میں جنم لیا ہے کہ بانی اور مرکزی چیئرمین الحاج شاہ جی گل آفریدی نہ صرف ممبر قومی اسمبلی رہ چکے ہیں بلکہ ان کا شمار ان چند نمایاں قبائلی راہنماؤں میں ہوتا ہے جو سابقہ قبائلی اضلاع کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے میں کافی پیش پیش رہے ہیں اور اس وقت بھی ان کے ایک بھائی سینیٹر اور ان کے بیٹے اور بھتیجے ممبر خیبر پختونخوا اسمبلی ہیں جب کہ ان کی حمایت یافتہ ایک خاتون ممبر صوبائی اسمبلی ہیں۔

اس تمام بحث کو مدنظر رکھتے ہوئے اب دیکھنا یہ ہے کہ 31 مارچ کو منعقد ہونے والے دوسرے مرحلے کے انتخابات جن میں جہاں صوبے کے سب سے بڑے ڈویژن مالاکنڈ جس میں تقریباً صوبے کی تمام نامی گرامی جماعتوں کے مضبوط ووٹ بینک کے علاوہ سوات کا ضلع بھی شامل ہے جو وزیر اعلیٰ محمود خان کا آبائی ضلع ہے وہاں ہزارہ ڈویژن میں بھی اس مرحلے کے تحت الیکشن ہو رہے ہیں جہاں پر حکمران پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان گھمسان کارن پڑنے کا امکان ہے، اسی طرح یہاں پہلے مرحلے کی طرح دوسرے مرحلے میں بھی جمعیت علماء اسلام کی جانب سے کسی بڑے سرپرائیز کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments