نور مقدم: ’میرا مقصد ان تمام لڑکیوں کو انصاف دلانا ہے جو میری بیٹی کی طرح قتل ہوئیں‘

سحر بلوچ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


نور مقدم
’کچھ عرصے تک ہم لوگ یقین نہیں کر پا رہے تھے کہ نُور، ہماری نُور، کا قتل ہو چکا ہے۔ ذہن میں یہی چل رہا تھا کہ وہ زخمی ہے۔۔۔ ہسپتال میں ہے اور واپس آجائے گی۔‘

’مجھے رونا آجاتا ہے، نُور کے بارے میں بات کرتے ہوئے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ نور کا قتل ایک تحریک کو جنم دے گا۔ جس کے نتیجے میں ان تمام لڑکیوں کے مقدمات نتائج تک پہنچ سکیں گے جن کو بے رحمی سے ان کے والدین سے چھینا گیا ہے۔‘

یہ تمام تر باتیں نُور کے ان دوستوں اور رشتہ داروں نے کی ہیں جن سے میری ملاقات اسلام آباد میں نور کی بنائی گئی تصاویر کی رونمائی کے دوران ہوئی۔

اس تقریبِ رونمائی کے دوران بات کرنے کا مقصد یہ سوال پوچھنا بھی تھا کہ نُور کے والدین اور رشتہ دار ان کو کس طرح یاد رکھنا چاہتے ہیں۔

اس تقریب میں نُور کے والد اور سابق سفارتکار شوکت مقدم بھی شامل تھے اور ہر ایک فرد کا وہاں آنے پر خود شکریہ ادا کر رہے تھے۔

نُور کے بارے میں سوال پوچھنے پر ایک لمحے کے لیے ان کے چہرے کا زاویہ بدلا اور انھوں نے ان کے بچپن کے بارے میں بات شروع کی۔

وہ کہنے لگے کہ ’(نور) مجھے تنگ نہیں کرتی تھی۔ ضد نہیں کرتی تھی۔ باقی بچوں کی طرح شرارتی تو تھی لیکن مجھے حیرت ہوتی تھی کہ میری نئے نئے ملکوں میں پوسٹنگ کے باوجود وہ بہت جلد وہاں کے لوگوں سے گُھل مِل جاتی تھی، بہت جلدی نئے دوست بنا لیتی تھی۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’پچھلے چند ماہ سے دنیا کے مختلف ممالک سے سب اُس کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔۔۔ میں جواب دے رہا ہوں کے کیا ہوا۔‘

شوکت مقدم نے اپنی آواز بھاری ہونے پر لمبا سانس بھرا اور پھر سے بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اپنی بیٹی کو ایسے ہی یاد رکھنا چاہتا ہوں جیسی وہ تھی۔ انسان دوست اور سب کا خیال رکھنے والی۔‘

شوکت مقدم جس تصویر کے پاس کھڑے تھے وہ نُور نے بچپن میں بنائی تھی۔ اسی تصویر کے پاس ان کی بہن سارہ مقدم ایک سفارتکار اور ان کی بیوی کو دیگر تصاویر کی طرف لے جارہی تھیں۔ اور اسی کے پاس ایک بڑے سفید چارٹ پر سب اپنے اپنے خیالات لکھنے کے ساتھ ساتھ دستخط بھی کر رہے تھے۔

اسی کے قریب ایک بڑی دیوار پر اللہ کے 99 نام لکھے ہوئے تھے۔ یہ تمام تر تصاویر نُور نے خود بنائی تھیں اور ان کے نزدیک ہر کوئی تصویر لے رہا تھا۔ انھیں تصاویر کے پاس نُور کے دو کزنز کھڑے ہوئے تھے۔

نُور کی کزن سے جب بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ ‘نُور بہت ہنستی اور ہنساتی تھی۔ اُس کی ہنسی پر ہی ہنسی آجاتی تھی۔ اس واقعے سے ایک ماہ قبل ہم سب کزنز ایک گاڑی میں پھنس کر گھومنے گئے تھے۔ جس کے دوران ہنسی کو روکنا مشکل تھا۔ میں آج بھی ان تصویروں کو دیکھتی رہتی ہوں۔’

انھوں نے بتایا کہ پھر ایک روز فون آیا اور بتایا گیا کہ نُور کو قتل کردیا گیا ہے۔ ‘اس دوران جو منظر میں نے گھر میں داخل ہوتے دیکھا تھا وہ ناقابلِ بیان ہے اور وہ میں کبھی بھول نہیں سکتی۔ نُور کے والدین کو اپنی بیٹی کا ماتھا تک چُومنے کا موقع نہیں ملا۔۔۔ اب بھی کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جب بہت شدت سے نُور یاد آتی ہے۔ پھر اس کے لیے دعا کرلیتی ہوں۔’

ان کے ساتھ ہی کھڑے نُور کے کزن نے کہا کہ وہ اب بھی نُور کے بارے میں ‘تھی’ کا لفظ استعمال نہیں کر پاتے۔

‘مجھے اب بھی ایسا لگتا ہے کہ وہ کہیں گئی ہوئی ہے اور واپس آ جائے گی۔ اسے بڑی بے رحمی کے ساتھ ہم سے چھینا گیا ہے اور اس سچائی کو قبول کرنے میں وقت لگے گا۔ مجھے اب بھی اس کے سنائے ہوئے قصے یاد ہیں اور ساتھ یہ بات بھی کہ اس کی ہنسی سن کر زیادہ ہنسی آتی تھی۔’

اسی تقریب میں نُور کی ہمسائی مریم برکی ناصر بھی موجود تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ نُور کو بچپن سے جانتی ہیں اور ان کے بچے ایک ساتھ سکول جایا کرتے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ‘نُور بہت پُرامن اور پیاری لڑکی تھی۔ خدا کے بہت نزدیک تھی۔۔ مجھے آج بھی رونا آجاتا ہے کہ نُور کے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔ مجھے لگتا ہے کہ نُور ایک تحریک بنے گی تاکہ کسی کے ساتھ ایسا ظلم نہ ہو۔’

نُور کی بہن سارہ مقدم واپس آئیں تو انھوں نے کہا کہ وہ بات ’کہاں سے شروع کریں؟‘

‘میری وہ صرف بہن ہی نہیں تھی بلکہ سب سے اچھی دوست بھی تھی۔ میں نُور کو بس یہ بتانا چاہوں گی کہ مجھے فخر ہے کہ میں اُس کی بہن ہوں۔ آج جتنی بڑی تقریب یہاں ہوئی ہے وہ نُور کے اتنے خوبصورت کام کے لیے ہونی ہی تھی۔ وہ یہاں ہوتی تو دیکھتی کہ لوگ اس کے کام کو کتنا پسند کر رہے ہیں۔۔۔’

یہ بھی پڑھیے

نور مقدم کیس میں فیصلہ محفوظ، ’مہم چلا کر عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی‘

نور مقدم قتل کیس: ’مقتولہ کے بھائی کو شامل تفتیش کیوں نہیں کیا، کیا پتہ یہ غیرت کا معاملہ ہو‘

’فوٹو گرامیٹری ٹیسٹ کیے بغیر کیسے فرض کر لیا کہ فٹیج میں نظر آنے والی لڑکی نور مقدم ہی ہے‘

نور مقدم قتل کیس: ’ڈرگ پارٹی کے بعد ہوش آیا تو کوئی نور کو قتل کر چکا تھا‘

اسی تقریب کے ایک کونے پر نُور کے بچپن سے لے کر بڑے ہونے تک کی ویڈیو چل رہی تھی۔ اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نُور کے والدین نے ہر ماہ کسی نئے ملک میں نئی پوسٹنگ کے دوران نُور کی تصاویر کھینچی ہوئی تھیں۔

کہیں پر چار سالہ نُور سب کھلونوں کو ایک ساتھ پکڑنے کی کوشش کرتے نظر آرہی ہیں تو کہیں وہ اپنے دونوں ہاتھ کیمرے کی طرف اٹھا کر اس پر لگا رنگ دکھا رہی ہیں۔ بڑے ہونے کی تصاویر میں وہ اپنی بہن سارہ کے ساتھ جھولے پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ اور کہیں وہ سر پر حجاب لیے بچوں کو پڑھا رہی ہیں۔

نُور کی والدہ کوثر مقدم نے بتایا کہ نُور ایک وقت تک حجاب لیا کرتی تھی۔ ‘تھوڑا بہت مذہب کی طرف رجحان تھا اس کا۔ ہم نے حج کیا تھا تو اس کے بعد اس نے چار سال تک تو حجاب رکھا۔ لیکن بعد میں اسے یہاں اسلام آباد میں کچھ عجیب سا محسوس ہوا تو اس نے حجاب پہننا چھوڑ دیا۔ نہ ہم نے اسے حجاب پہننے سے روکا تھا، اور نہ ہی حجاب چھوڑنے پر اس سے کوئی سوال کیا۔’

noor

نُور کی والدہ نے بتایا کہ وہ اتنے سارے لوگوں کی طرف سے نُور کی حمایت دیکھ کر بہت خوش ہیں اور اداس بھی۔ 'مجھے میری بیٹی سارہ نے کہا کہ ماما ہمیں پتا ہی نہیں تھا کہ ہمارے گھر میں ایک سٹار ہے! ہمیں پتا ہی نہیں تھا۔ وہ تو اتنی پیاری بیٹی تھی اللہ سب کو ایسی بیٹی نصیب کرے۔'

تمام لوگوں سے بات کرنے کے بعد جب شوکت مقدم کی طرف واپس پہنچی تو وہ اب تقریب سے جانے والوں کو باہر تک چھوڑنے جا رہے تھے۔ اسی تقریب کے دوران انھوں نے پریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا مقصد ان تمام لڑکیوں کو انصاف پہنچانا ہے جو نُور کی طرح قتل کی گئی ہیں۔

’ساری خواتین سڑکوں میں، دفتروں میں گاڑی چلاتے ہوئے محفوظ رہیں۔۔۔ خواتین، ہماری بیٹیاں۔۔۔‘

اس کے بعد شوکت مقدم اپنا جملہ پورا کئے بغیر ہی واپس اندر چلے گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32553 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments