عمران خان کا استقبال روسی نائب وزیر خارجہ نے کیوں کیا؟


پہلے تو یہ بتاتا چلوں کہ پاکستانی چینلوں کی خبروں میں جو کہا جا رہا ہے کہ روس میں عمران خان کا ریڈ کارپٹ استقبال ہوا تو یہ سرکاری زعماء کے استقبال کے ضمن میں ایک معمول ہے۔ اس پر اچنبھا ہونا چاہیے نہ تفاخر۔ دوسری بات یہ کہ راستوں کو قمقموں سے سجایا گیا۔ ارے بھائی یہ روشنیاں تین سال پہلے نئے سال کے سلسلے میں نصب کی گئی تھیں۔ بجلی وافر ہے چنانچہ یہ تب سے شام گئے روشن ہی رہتی ہیں۔ باقی آرائشیں بھی نئے سال کی ہی ہیں۔ یہ تو تھا محض جملہ معترضہ۔

اب آتے ہیں کہ ہمارے وزیر اعظم کا استقبال ان کے ہم منصب وزیراعظم روس میہائیل میشوستن یا کم سے کم وزیر خارجہ روس سرگئی لاوروو نے کیوں نہیں کیا اور ان کی بجائے ایک نائب وزیر خارجہ نے کیوں کیا؟

بلاشبہ ایسا کیا جانا نہ مناسب ہے اور نہ ہی معمول کے مطابق۔ پہلے آپ کو بتاتا چلوں کہ روس کے نظام حکومت میں کئی سیاسی عہدے بیوروکریٹس کے پاس ہوتے ہیں۔ جیسے سرگئی لاوروو اپنے پیش رو کے عہد میں ایڈیشنل سیکریٹری وزارت خارجہ تھے اور کئی نائب وزرائے خارجہ میں سے ایک۔ ان کے پیش رو اور نامور عربی دان آنجہانی یاوگینی پریماکوو بھی ورکنگ بیوروکریٹ تھے۔ اس طرح روس کے وزیر خارجہ درحقیقت سیکریٹری آف سٹیٹ ہیں جن کے ایڈیشنل یا کئی جوائنٹ سیکریٹری، نائب وزیر خارجہ کہے جاتے ہیں۔

Russia’s Deputy Foreign Minister Igor Morgulov received the prime minister

عمران خان کے استقبال کے لیے محض نائب وزیر خارجہ کا موجود ہونا کئی وجوہ کی بنا پہ ہے۔ سب سے پہلی وجہ اس دورے کی درخواست پاکستان کی جانب سے کیا جانا تھی جو روس کی جانب سے بظاہر عجلت میں منظور کی گئی مگر روس یوکرین کے تناظر میں ایسا کیے جانے کے سیاسی مضمرات بھی ہیں جو آئندہ ایک دو ماہ میں طشت از بام ہوں گے۔

دوسری وجوہ میں روس یوکرین تنازعہ کے حوالے سے روس کی سریع پیش رفت کے سبب، وزیراعظم اور وزیر خارجہ جیسے اعلیٰ روسی عہدیداروں کا بے حد مصروف ہونا بھی ہے۔ ایسے حالات میں امریکہ کے ایک اتحادی ملک کے وزیراعظم کے استقبال پر خاطر خواہ توجہ دیا جانا ممکن نہ تھا۔ ویسے بھی روسی حکام یہ حقیقت بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان روس کی جانب جھکاؤ کا اظہار محض امریکہ کو متبادل طاقت سے ممکنہ لگاؤ باور کرانے کی خاطر ہی کرتا ہے جس کا روس کو تو کوئی فائدہ ہوتا نہیں البتہ کوئی ضرر بھی نہیں پہنچتا تاہم پاکستان امریکہ کی نگاہوں میں مشکوک تر ہو جاتا ہے۔ ایسا کیے جانے میں معاون ہونا، خارجہ پالیسی کے حوالے سے روس کے لیے کچھ نہ کچھ بہتر ہی ہوتا ہوگا۔

روس کی پاکستان میں دلچسپی اگر ہے تو افغانستان سے منشیات کی سمگلنگ اور اسلامی بنیاد پرستی کے وسط ایشیا میں نفوذ کو روکنے اور کاروباری مواقع کے حصول کے علاوہ کوئی سیاسی مفاد نہیں۔ پہلے دو مقاصد کے تحت ایک عرصہ سے عسکری سطح پر تعاون باہمی جاری ہے۔ رہا کاروبار تو روس پر مغرب یعنی امریکہ اور یورپ کی بڑھتی ہوئی پابندیوں کے دور میں گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments