ڈاکٹر مہدی حسن: بردبار، سنجیدہ اور حق گو


میرا ان سے براہ راست تو کوئی ربط نہیں تھا البتہ وہ میرے ماموں پھوپھی زاد بھائی اور بڑے بہنوئی محمد ظفیر ندوی صاحب کی روزنامہ امروز لاہور میں ایک رفیق کار رخشندہ حسن کے شوہر تھے۔ نام تھا مہدی حسن جو بعد میں پروفیسر مہدی حسن کے نام سے نامور ہوئے تھے۔

بعد میں میں اپنی بہترین دوست غزالہ نثار سے ان کی تعریفیں سنتا رہا تھا۔

وضع دار اس قدر تھے کہ بھائی ظفیر جن سے ان کا باقاعدہ سوچ کا اختلاف تھا، کے ہر بچے بچی کے بیاہ میں انہوں نے تعلق اور مروت کی بنا پر شرکت کی تھی۔ اور تو اور جب بھائی صاحب دنیا سے اٹھ چکے تھے تو ان کے پوتے علی کے بیاہ میں بھی وہ اسی طرح شامل تھے جیسے ان کی زندگی کے دوران۔

تب تک تو وہ یونیورسٹی سے ریٹائر بھی ہو چکے تھے اور بہت جانے پہچانے بھی جانے لگے تھے۔ علی کی شادی کی تقریب میں ہی میں نے ان سے کھل کے باتیں کی تھیں۔ میں تب روس سے علی کی شادی میں شریک ہونے کے لیے آیا تھا۔ مجھ سے روس کے بارے میں پوچھتے رہے میں نگاہیں جھکائے جواب دیتا رہا تھا۔ وہ یقیناً روس کے بارے میں مجھ سے زیادہ علم رکھتے تھے مگر مجال ہے جو انہوں نے مجھے ٹوکا ہو، میری باتوں میں مخل ہوئے ہوں، میری کہی کسی بات کو رد کیا ہو، اپنی جانب سے روس کے بارے میں کوئی بات کہی ہو، بس سنتے رہے ایک کامل استاد کی مانند۔

مجھے ایک اور کامل استاد کا بھی فیض حاصل رہا جو تھے تو ریٹائر ہائی سکول ماسٹر مگر سوچ، فہم اور علم میں انتہائی سرفراز تھے جنہیں ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی کانفرنس میں نامور سندھی ادیب اور دانشور ابراہیم جویو نے Giant intellectual  سے ملقب کیا تھا۔ وہ تھے استاد فدا حسین گاڈی صاحب۔

البتہ پروفیسر مہدی حسن صاحب زیادہ نفیس الطبع اور خوش لباس تھے۔ اکہرا بدن، سرخ و سپید چہرہ، عینک کے شیشوں کے پیچھے ذہانت سے چمکتی روشن انکھیں۔ کیا خوش شکل اور جامہ زیب انسان تھے۔ گفتگو میں کس قدر ٹھہراو تھا اور دلائل میں کس قدر وزن۔ اپنی بات تب کہتے جب دوسرے کی پوری سن لیتے۔ ان کی گفتگو کے درمیان کوئی اپنی بات کہنے لگتا تو جعلی دانشوروں کی طرح نہ تو صرف نظر کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھتے اور نہ ہی بولنے والے کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ کر جھینپ جانے پر مجبور کرتے بلکہ اپنی بات روک کر پہلے اس کی بات سنتے۔ یا تو فوراً اس کے کہے کا جواب دے دیتے یا پھر شفقت بھرے لہجے میں جواب پانے کے لیے توقف کرنے کا کہہ دیتے۔

مجھے چونکہ محض میڈیکل کالج کے پروفیسروں سے پالا پڑا تھا جن کے لیکچر تکنیکی نوعیت کے لگے بندھے ہوتے اس لیے مجھے باقی علوم پڑھانے سکھانے والے دانشور پروفیسر مرعوب و متاثر کرتے تھے مگر پروفیسر مہدی حسن کی شخصیت بلاشبہ متاثر کن تو تھی مگر رعب جمانے کے وہ شاید قائل ہی نہ تھے تبھی تو اس قدر انسان دوست اور جوئندہ کو یابندہ کرنے کے خوگر تھے۔

آج سوشل میڈیم پر ان کے ارتحال کی خبر دیکھی تو رنجیدہ ہو گیا۔ کس سے تعزیت کروں کس سے دکھ بانٹوں؟ فوراً غزالہ کو فون کیا اس کا فون مصروف تھا۔ چونکہ ایک بار وجاہت مسعود کہہ چکے تھے کہ انہوں نے پروفیسر مہدی حسن اور احمد سلیم سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ساتھ ہی میرے نام کی پخ بھی لگا دی تھی تو میں نے انہیں فون کیا۔ وہ ان کے بارے میں خاکہ لکھ چکے تھے اور مغموم تھے۔ انہیں کہیں جانا تھا۔ فون بند ہوتے ہی غزالہ نثار کا فون آ گیا۔ بہت دکھی اور روہانسی تھیں ۔ کہہ رہی تھیں یوں لگتا ہے میری زندگی کی اساس تمام ہو گئی۔

سب روشن مشعلیں بجھتی جا رہی ہیں۔ فی الحال تو اندھیرا بڑھ رہا ہے۔ رب جلیل آنے والی نسلوں پہ رحم فرمائیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments