مسئلہ کشمیرکے کچھ تاریخی حقائق


مطلق آئیڈیل کہیں موجود نہیں حتیٰ کہ جنت میں بھی نہیں، درحقیقت ہمیں ہمیشہ سامنے موجود برائیوں میں سے کم تر برائی کا انتخاب کرنا پڑتا ہے، اگر ہم خود کو دھوکے میں رکھ کر خوشی اور سکون محسوس کرنے کے عادی نہ بن چکے ہوں تو ہمیں کھردری زمین اور ٹیڑھے درختوں کی طرح کے حالات اور منظر نامے کا درست مشاہدہ اور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی خیالی دنیا جس سے باہر نکلنے کا دروازہ تک نہ ہو، مستقل طور پر رہائش کے لیے مناسب جگہ نہیں۔

چہ جائیکہ کہ ہم دوسروں کو بھی اس خیالی دنیا میں قیام کا مشورہ دیں۔ معذرت کے ساتھ جیسا کہ ہمارے قوم پرست یا وطن پرست بھائی کر رہے ہیں جو کسی قابل عمل لائحہ عمل کے بغیر صرف نظریہ کو پھیلا کر مخلص، جذباتی اور تاریخی حقائق کے شعور سے ناآشنا نوجوانوں کو گمراہ اور ضائع کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں، صرف اور صرف نفرت کی کاشت نفرت اور پھر مایوسی کی فصل ہی پیدا کرے گی، اور نتیجہ یہ ہو گا کہ کوئی مخلص اور سادہ لوح بھی کبھی کسی چوک میں کھڑے ستون پر چڑھ جائے گا، اور کبھی کسی چوک میں چارپائی بچھا کر لیٹ رہے گا، اور اپنے تئیں اسے تحریک آزادی کی خدمت سمجھ بیٹھے گا، ایسی غیر موثر، مضحکہ خیز، اور انفرادی کوششیں یا حرکات کبھی نہ تو اکثریتی رائے عامہ پر اثر انداز ہو سکتی ہیں، اور نہ ہی ان سے معروضی حالات میں ذرا بھر بھی فرق پڑتا ہے، اور یہی اس حکمت عملی کے مکمل طور پر غیر موثر ہونے کا ثبوت ہے۔

کچھ اور مخلص سادہ لوح یہ سوچتے ہیں کہ اگر انیس سو سینتالیس کی تقسیم نہ ہوتی، تو برصغیر کی ریاستیں، آج بھی قائم ہوتیں جبکہ تقسیم ہند کے بعد بتدریج نہ صرف تمام ریاستوں بلکہ سکم جیسے آزاد ممالک کو بھی ضم کر لیا گیا ہے، اور آج برصغیر پاک و ہند میں کوئی بھی آزاد ریاست باقی نہیں رہنے دی گئی۔ ریاست جموں کشمیر کے مہاراجہ جو اپنے القابات میں فخریہ طور پر ”سپر انگلیشیہ“ لکھا کرتے تھے، بھی اپنے ”اصل مالکوں“ کے ایک اشارے پر کبھی تمام شمالی علاقہ جات کا انصرام و اہتمام حاکموں کے حوالے کر دیا کرتے، اور جب ان حاکموں کے طے کردہ ڈیزائن کے مطابق ان علاقوں کی مذہبی تقسیم کی بنیاد پر ایک نئے انتظام اور ملک کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے، تو اس فیصلے کو باقاعدہ بنانے کے لیے منصوبہ ساز کچھ ہی عرصہ قبل ان علاقوں کو واپس مہاراجہ کے انتظام میں دیتے، اور اس کا نمائندہ گھنسارا سنگھ تعینات ہوتا ہے، تاکہ یہ تقسیم اس یعنی مہاراجہ کے نمائندے سے وقوع پذیر کروائی جا سکے، اس مہم کے دوران گلگت سکاوٹس کے کیپٹن براون اور میجر میتھیوز کی موجودگی اور ان کا کردار بھی بہت سے حقائق کی پردہ کشائی کرتا ہے، یہ وہی منصوبہ تھا جس کی جزئیات تک کا ”گرینڈ آرکیٹیکٹ“ پہلے ہی فیصلہ کر چکے تھے۔

پوری ریاست کے بارے میں بھی جنگ سے قبل ہی نقشے پر لکیریں لگا کر ریاست کی تقسیم کا فیصلہ کر لیا گیا تھا، کہ کہاں تک اور کون سا علاقہ کس فریق کو دینا ہے، لہذا پہلے تو اسی سلطنت انگلیشیہ نے بیع نامہ امرتسر کے تحت کشمیر کو اس کے باشندوں سمیت فروخت کیا اور پھر انیس سو سینتالیس میں اس ریاست کو ایک کیک کی طرح تیز چھری یعنی طاقت کے بل پر اپنی منشاء کے مطابق تقسیم کروا دیا۔ دونوں بار ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھتے ہوئے ان کی رائے، اور حق خود ارادیت کے بنیادی انسانی حق کو انتہائی بے دردی سے پامال اور نظر انداز کیا گیا، اور المیہ یہ کہ ریاست جموں و کشمیر کے باشندگان کے تسلیم شدہ بنیادی انسانی حق کے بارے میں یہی غیر انسانی اور ظالمانہ اغماز فریقین کی طرف سے آج تک جاری ہے۔

یاد رہے کہ کشمیر میں بھارتی فوج کے اترنے کے آپریشن کی نگرانی خود لارڈ ماؤنٹ بیٹن کر رہا تھا، اور ادھر پاکستان کی طرف سے جنرل فرینک میسروی، مشترکہ سپریم کمانڈر آکن لیک کے زیر نگرانی قبائلی حملے اور باقی امور مینیج کر رہا تھا، میجر جنرل (ر) اکبر خان رنگروٹ اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں، کہ کشمیر پر قبائلی حملے کی اطلاع سب سے پہلے بھارتی فوج کو راولپنڈی کے ہیڈ کواٹر سے بھیجے جانے والے ایک پراسرار تار کے ذریعے پہنچائی گئی۔

بقول میجر امیر افضل ( سابق ایڈیٹر مجلہ ہلال) یہ جنگ انگریز کمانڈرز کے درمیان ایک وار گیم کی طرح لڑوائی گئی، اور اس کے نتائج مکمل طور پر ان کے اندازوں اور منصوبوں کے مطابق نکلے یا نکلوائے گئے۔ اور جو فوجی افسر طے شدہ لائن سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا اس کے پر کتر دیے جاتے یعنی بقول جنرل ایوب خان ”کٹ ٹو دا سائز“ کر دیا جاتا۔ جب اس جنگ کے یعنی 1947۔ 48 کی جنگ کے آخری دنوں میں نوشہرہ جھنگڑ سیکٹر میں بھارت نے طے شدہ لائن سے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو وہی جنرل فرینک میسروی جو خود کو اس جنگ سے بظاہر لاتعلق اور بے خبر ظاہر کیا کرتا تھا، لیاقت علی کو ایک خط لکھتا ہے، کہ بھارت کا نوشہرہ جھنگڑ لائن سے آگے بڑھنا پاکستان کی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور پھر میسروی کی ہی زیر نگرانی اسی پاکستان سے جہاں سے جہاد کشمیر کے لیے چھوٹا ایمونیشن اور گولیاں تک میسر نہیں ہوتی تھیں، دو کور کا بھاری توپ خانہ میسر ہو گیا, اور دو برگیڈ فوج بھی حملے کی پوزیشن میں لے آئی گئی, اس توپ خانے نے اکھنور تک بیری پتن کے علاقے پر ایک رات میں بھاری توپوں کے پانچ ہزار گولے فائر کئیے اس کے بعد اگر منصوبے کے مطابق حملہ کیا جاتا, تو حملہ آور دستوں کو جموں پر قبضہ کرنے سے کوئی روک نہ پاتا لیکن اس بھاری گولہ باری کے بعد حملہ نہ کیا گیا، اور دوسری طرف سے محاصرہ پونچھ کو ناکام کروا کر، اور بھارتی فوج کی طرف سے پونچھ اوڑی لنک روڈ کی قائلیوں کی قائم ناکہ بندی ختم کروا کر پونچھ کا رابطہ اوڑی کے ساتھ بحال کروا دیا گیا۔

اور پھر منصوبے کے عین مطابق ”جنگ بندی عمل میں لائی گئی , اور اس کے بعد کشمیر اور کشمیریوں کو تقسیم کرنے والی یہ خونی لائن تقریباً ستر سال گزرنے کے باوجود بدستور اب تک قائم ہے۔ ہم کشمیریوں کو تاریخ , حقائق اور معروضی حالات کی درست آگہی اور شعور کے ساتھ کسی جذباتی اور غیر حقیقی کیفیت میں رہنے کے بجائے , اپنی تحریک آزادی کا لائحہ عمل طے کرنا چاہیے , تاکہ آہستہ ہی سہی لیکن ہم آگے تو بڑھیں , اور اس غیر انسانی اور بے رحم جمود کو کسی طرح توڑ دیں , جو مسئلہ کشمیر پر مسلط کر دیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments