کیا آپ مالیخولیا سے ڈپریشن کے سفر سے واقف ہیں؟
اکیسویں صدی میں جس نفسیاتی عارضے کو ہم ڈپریشن کا نام دیتے ہیں اسے چند سو برس پہلے تک مالیخولیا کا نام دیا جاتا تھا۔
آج سے پانچ سو برس پیشتر ڈاکٹر رابرٹ برٹن نے 1621 میں اپنی کتاب
THE ANATOMY OF MELANCHOLY
میں لکھا تھا ’اگر اس دنیا میں جہنم موجود ہے تو وہ مالیخولیا کے مریض کے دل میں ہے‘
اور بیس سال پیشتر نیویارکر میگزین کے 1998 کے ایک افسانے میں ڈیوڈ والیس رقم طراز ہیں ’ڈپریشن کے مریض کا ایک نفسیاتی مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے درد کا مناسب الفاظ میں اظہار بھی نہیں کر سکتا اور اپنے عزیزوں سے اپنا کرب بیان نہیں کر پاتا۔ یہ مسئلہ اس کی ڈپریشن کے کرب میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔ ‘
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈپریشن آخر کس قسم کا نفسیاتی مسئلہ یا ذہنی بیماری ہے اور اسے بیان کرنا اتنا دشوار کیوں ہے؟
میں آپ کو اپنی ایک مریضہ کی کہانی سناتا ہوں تا کہ آپ کے لیے اس دشوار مسئلے کو سمجھنا قدرے آسان بنا سکوں۔
میری جب اپنی مریضہ مورین سے ملاقات ہوئی تو ان کی عمر چھیاسٹھ برس تھی۔ وہ مجھ سے ملنے سے پہلے دو ماہرین نفسیات سے علاج کروا چکی تھیں لیکن انہیں کوئی افاقہ نہ ہوا تھا۔ ان ماہرین نفسیات نے مورین کے نفسیاتی مسئلے کی تشخیص ڈپریشن کی تھی اور ادویہ سے ان کا علاج کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہے تھے۔
میں نے جب مورین سے درخواست کی وہ مجھے پہلے دن سے اپنی نفسیاتی پریشانی کی کہانی سنائیں تو وہ کہنے لگیں۔
’ پینتیس برس کی شادی کے بعد ایک صبح ناشتے کی میز پر میرے شوہر نے مجھے ایک تڑا مڑا کاغذ کا ٹکڑا دیا۔ میں نے کاغذ کو کھول کر دیکھا تو اس پر لکھا تھا۔ ‘ میں نے جو پینتیس برس تمہارے ساتھ گزارے ہیں وہ وقت کا ضیاع تھے۔ اب میں تمہیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ’
اس کے بعد مورین کے شوہر نے پہلے سے تیار کیا ہوا اپنا سوٹ کیس اٹھایا۔
مورین نے جب کہا ’کیا ہم اس حوالے سے کچھ تبادلہ خیال کر سکتے ہیں؟‘
تو شوہر نے کہا ’اب کہنے سننے کو کچھ باقی نہیں رہ گیا‘
شوہر گھر سے چلا گیا اور بیوی نڈھال ہو کر بستر پر گر گئی۔ ٹوٹ کر بکھر گئی۔
مورین کا دل ٹوٹ گیا۔ ان کے ریٹائرمنٹ کے اور زندگی کے GOLDEN YEARS کے خواب چکناچور ہو گئے اور وہ شدید ڈپریشن کی کھائی میں گر گئیں۔ ایسی کھائی جس سے نہ ادویہ اور نہ ہی ڈاکٹر انہیں باہر نکالنے میں کامیاب ہو سکے۔
میں مورین سے ہر ہفتے ملتا رہا۔ جب مورین کا مجھ پر اعتماد بڑھا تو ایک دن میں نے ان سے کہا ’مورین مجھے یہ بتائیں کہ آپ اپنے شوہر سے ملنے سے پہلے کیا کرتی تھیں؟‘
کہنے لگیں ’میں ایک آرٹسٹ تھی۔ میں بچیوں کو پینٹنگ سکھاتی تھی۔ میری طالبات میری بہت عزت کرتی تھیں۔ میں بہت خوش رہتی تھی‘
آرٹ کا ذکر کرتے مورین کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی۔ ایسی چمک جیسے بادلوں کے پیچھے سے چاند مسکرایا ہو۔
میں ان تمام ڈپریشن کی مریضاؤں سے ’جو شوہر کی جدائی یا موت کے بعد ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں‘ پوچھتا ہوں کہ وہ شادی سے پہلے کیا کرتی تھیں؟ میرے فلسفے کے مطابق اس سوال کے جواب میں ڈپریشن کے علاج کا راز مخفی ہوتا ہے۔
میں نے مورین سے کہا کہ میری خواہش ہے کہ آپ دوبارہ آرٹ کی طرف مراجعت کریں کیونکہ اس سے آپ دوبارہ صحتمند ہو جائیں گی۔
پہلے تو مورین نے انکار کیا کہ اسے برش اٹھائے طویل عرصہ گزر گیا ہے اور وہ سب فن بھول چکی ہیں لیکن میں نے کہا آرٹ آپ کے دل میں کہیں چپکے چپکے سو رہا ہے مر نہیں گیا۔ وہ انکار کرتی رہیں میں اصرار کرتا رہا آخر میرے اصرار نے ان کے انکار کو اقرار میں بدل دیا۔
میں نے کہا ’ہفتے میں دو دن آدھ گھنٹہ ایزل کے سامنے پینٹ اور برش لے کر بیٹھا کریں۔ چاہے کچھ بھی پینٹ نہ کریں۔ یہ آپ کی تھراپی کا حصہ ہے کیونکہ ہمارے کلینک کا نام
CREATIVE PSYCHOTHERAPY CLINIC
ہے۔ مورین مسکرائیں اور مان گئیں۔
پہلے پانچ ہفتے کچھ نہ ہوا لیکن چھٹے ہفتے مورین کا ماضی کا ذوق و شوق لوٹ کر آیا اور انہوں نے ایک ایسی پینٹنگ بنائی جس میں ایک بوڑھا مرد ریڑھی پر سیب بیچ رہا تھا۔ وہ سیب ایسے بنائے گئے تھے کہ لگتا تھا کہ اگر آپ نے انہیں چھوا تو سب گر جائیں گے۔ وہ پینٹنگ
THREE DIMENTIONAL
تھی۔ مورین جس سینئر سینٹر جاتی تھیں وہاں ایک خاتون نے اسے چار سو ڈالر میں خرید لیا۔ اس سے مورین کی حوصلہ افزائی ہوئی اور انہوں نے دوسری پینٹنگ بنائی جو پانچ سو ڈالر میں بکی پھر تیسری پینٹنگ بنائی جو سات سو ڈالر میں بکی۔ ہر پینٹنگ کے ساتھ مورین کی ڈپریشن کم ہوتی گئی اور ان کے چہرے کی مسکراہٹ اور دل کی شگفتگی لوٹ آئی۔
پھر میں نے مورین سے کہا کہ ڈپریشن کا ایک علاج محبت بھی ہے۔
کہنے لگیں اس عمر میں مجھ سے کون محبت کرے گا
میں نے کہا محبت کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ آپ اپنے دل کا دروازہ کھلا رکھیں، کوئی نہ کوئی دستک دے کر آ ہی جائے گا۔ مورین ایک نوجوان باکرہ کی طرح مسکرائیں اور شرمائیں۔
اس گفتگو کے چند ماہ بعد انہیں ایک بہتر سالہ فنکار ملا جو واٹر کلر میں مہارت رکھتا تھا۔ پہلے ان کی دوستی ہوئی پھر وہ ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔
یہ کہانی میں نے اس لیے سنائی ہے تا کہ آپ کو بتا سکوں کہ ڈپریشن کے مریض صحتمند ہو سکتے ہیں۔
رابرٹ برٹن نے اپنی ایک ڈپریشن کی مریضہ کے بارے میں پانچ سو سال پہلے ’جب ڈپریشن کی کوئی دوا موجود نہ تھی‘ کہا تھا کہ جب وہ محبت میں گرفتار ہوئی تو ڈپریشن کی کھائی سے باہر نکل آئی۔
جب ہم ڈپریشن کی بیماری کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس نفسیاتی عارضے کی تفہیم کئی ادوار سے گزری ہے۔
پہلا دور وہ تھا جب لوگ سمجھتے تھے کہ مالیخولیا گناہوں کی سزا کی وجہ سے ہے اور لوگ اس سے چھٹکارا پانے کے لیے دعائیں مانگتے تھے اور قربانیاں دیتے تھے۔
دوسرا دور وہ تھا جب یونانی طبیب بقراط نے کہا کہ مالیخولیا کا تعلق گناہوں سے نہیں حفظان صحت کے اصولوں سے ہے۔ ان کا خیال تھا کہ جب کسی انسان کے جسم میں BLACK BILE۔ MELAN CHOLEبڑھ جاتی ہے تو اس کے ذہن پر بادل چھانے شروع ہو جاتے ہیں چاروں طرف تاریکی پھیل جاتی ہے اور وہ انسان یاسیت کا شکار ہو جاتا ہے۔
تیسرا دور وہ تھا جب انیسویں ٓصدی میں ماہر نفسیات ایمل کریپلن نے نفسیاتی بیماریوں کو دو خانوں میں تقسیم کیا
پہلے خانے کو ڈیمینشیا پریکوکس کا نام دیا جو اب سکزوفرینیا کہلاتا ہے۔ اس بیماری کا تعلق سوچ اور فکر سے ہے
دوسرے خانے کو مینک ڈپریشن کا نام دیا جس بیماری کا تعلق جذبات سے ہے۔
چوتھا دور وہ تھا جب بیسویں صدی میں ایڈولف مییر نے ڈپریشن کے نام اور ترکیب کو مقبول عام بنایا۔ بیسویں صدی کی تحقیق نے ہمیں یہ بتایا کہ ڈپریشن میں تین طرح کے عوامل کارفرما ہوتے ہیں
حیاتیاتی عوامل۔ BIOLOGICAL FACTORS۔
بعض خاندانوں میں ڈپریشن کی بیماری موروثی ہوتی ہے اور والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے اور ان بچوں کے دماغ میں کیمیاتی مادوں۔
DOPAMINE۔ NON ADRENALINE۔ SEROTONINکی کمی ہوتی ہے اور وہ جوانی میں ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں
نفسیاتی عوامل۔ PSYCHOLOGICAL FACTORS
ایسے لوگ یا حد سے زیادہ حساس ہوتے ہیں اور یا اتنے مثالیت پسند اور
idealistic and perfectionaistic ہوتے ہیں کہ جب ان کی اپنی ذات سے دوسروں سے یا زندگی سے توقعات پوری نہیں ہوتیں تو وہ دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں
سماجی عوامل۔ SOCIAL FACTORS
وہ لوگ جو کسی غلط انسان سے شادی کر لیں یا کسی غلط جگہ ملازمت کر لیں یا کسی غلط جگہ ہجرت کر جائیں تو وہ بھی ڈپریشن کا شکار ہو سکتے ہیں۔
اب نفسیات کے ماہرین نے ایکBIO۔ PSYCHO۔ SOCIAL MODEL
اپنایا ہے۔ اب وہ ہر مریض کی تشخیص سے اندازہ لگاتے ہیں کہ اس مریض کی ڈپریشن میں کون کون سے حیاتیاتی نفسیاتی اور سماجی عوامل کارفرما ہیں۔ ایسی تشخیص کے بعد وہ ان کا ادویہ تھیرپی اور تعلیم سے علاج کرتے ہیں۔
پچھلی صدی میں سائنس ’طب اور نفسیات نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اب ڈپریشن کے ان مریضوں کا علاج ممکن ہے جن کا علاج دو سو سال پہلے ممکن نہ تھا۔
ہم اپنے کلینک میں گرین زون تھیرپی سے بھی استفادہ کرتے ہیں۔ ہم مریضوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ علاج کے ساتھ ساتھ ایک مشغلہ بھی اپنائیں اور دوستوں کا ایک حلقہ بھی بنائیں۔
ہم انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنی مدد آپ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اپنا خیال خود رکھیں۔
نوٹ۔ میں نے پچھلے سال ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام ہے
ENCOUNTERS WITH DEPRESSION
اگر کوئی دوست وہ کتاب پڑھنا چاہے تو مجھے ای میل کر دے میں وہ کتاب تحفے کے طور پر انہیں بھیج دوں گا۔ میرا ای میل ایڈریس ہے
welcome@drsohail.com
۔ ۔
- ’خدا نے کائنات کو تخلیق نہیں کیا‘: سائنسدان سٹیون ہاکنگ - 16/04/2024
- کیا آپ اپنے بچوں سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں؟ - 12/04/2024
- درویش، چاند اور سورج - 07/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).