میڈیکل کے مسیحا اور ان کی مسیحائی


میں یہ حلف اٹھاتا/اٹھاتی ہوں کہ میں اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں دکھی اور لاچار مریضوں کا علاج بنا کسی تعصب اور ذاتی عناد کے کروں گا/گی۔ یہ وہ رٹے رٹائے چند مخصوص فقرے ہیں جو ہر ڈاکٹر اپنی پیشہ وارانہ زندگی کے آغاز میں کہتا ہے۔ ہمارے ملک میں حلف کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اس لیے ہر ادارہ اور محکمہ اپنی آئینی اور اخلاقی حدود سے باہر رہ کر کام کرنا پسند کرتا ہے۔ تمام بڑے افسران اپنے ذاتی مقاصد اور تشہیر کے لیے غیر قانونی طریقے اپناتے ہیں۔

یقینی طور پر کچھ حد درجہ ایماندار ہوتے ہیں مگر یہ بوسیدہ نظام کسی ایماندار کو کام ہی نہیں کرنے دیتا۔ اگر بات کی جائے پاکستان میں صحت کے شعبے کی تو بد قسمتی سے اس پوری میڈیکل کی زنجیر میں صرف ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہی ہوتا ہے جو مکمل طور پر میڈیکل کا علم رکھتا ہے۔ فارما انڈسٹری سے لے کر میڈیکل سٹور تک ایف اے یا بی اے پاس سیلز مین ہوتے ہیں اور پتھالوجیکل لیب سے لے کر پرائیویٹ کلینک تک کا پیرا میڈیکل کا سٹاف یا تو سرے سے ہی پڑھا لکھا نہیں ہوتا یا پھر گلی محلے میں ایک کوٹھی کے اندر کھلے ہوئے پیرامیڈیکل سکول سے فارغ التحصیل ہوتا ہے۔

یہ پیرا میڈیکل سکول کام کیسے کرتے ہیں؟ اس کے لیے نہ تو عمر کی قید ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی خاص بنیادی تعلیم کی۔ آرٹس کے ساتھ تھرڈ ڈویژن میں میٹرک کافی ہوتا ہے۔ اس صورتحال میں پبلک یہی سمجھتی ہے کہ جو ڈاکٹر نے لکھا ہے وہی صحیح ہے باقی لوگ صرف اپنے پیسے کے لیے مریض کو دھوکا دیتے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی فارماسسٹ مریض کو یہ کہہ دے کہ بھائی فارمولا میں مماثلت ہونی ہونی چاہیے برانڈ مختلف ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔ مگر مریض صرف ڈاکٹر والا لکھا ہوا برانڈ لینے پر ہی اصرار کرتا ہے۔

اگر آپ کسی پرائیویٹ ڈاکٹر کے پاس جائیں تو پاکستان میں مریض کی ہسٹری لینے کا رواج سرے سے ہی نہیں ہے۔ صرف سابقہ ڈاکٹر کی پرچی دیکھ کر نیا ڈاکٹر دوائی تجویز کرتا ہے۔ ہر ترقی یافتہ ملک میں مریض کی ہسٹری لینے کا ایک سپیشل پروٹوکول ہوتا ہے جو کہ میڈیکل کی گائیڈ لائنز کے مطابق ہوتا ہے۔ اس ہسٹری میں سابقہ ادویات، سابقہ اور موروثی بیماریوں کا بہت اختصار کے ساتھ ذکر ہوتا ہے۔ اور نیا ڈاکٹر اسی ہسٹری کو دیکھ کر نئی دوائی تجویز کرتا ہے۔

پھر پریسکریپشن پر مریض کا وزن اور کسی دوائی سے الرجی ہونے یا نہ ہونے کا ذکر کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں مریض کو کون کون سی بیماریاں ہیں ان کا سرے ہی پریسکریپشن پر کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ کیونکہ ڈاکٹر کو یہ پتہ ہوتا ہے کہ میڈیکل سٹور پر اسے چیلنج کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ڈاکٹرز کے پاس بیس پچیس ہزار والا ایک سستا سا کمپیوٹر اور پرنٹر تک بھی نہیں ہوتا اور ڈاکٹرز کی لکھائی تو پھر سب ہی جانتے ہیں۔ ایسے میں کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر نے کوئی اور دوائی لکھی اور میڈیکل سٹور والے نے کوئی اور دوائی دے دی۔ یہ صرف اس بنا پر ہوتا ہے کہ بہت سی دوائیوں کے برانڈز کے ناموں میں مماثلت ہوتی ہے۔

پاکستان میں زیادہ تر ڈاکٹر جو ادویات لکھتے ہیں۔ وہ عام طور پر لوکل فارما کمپنیز کی ہوتی ہے۔ پاکستان میں عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ لوکل اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ڈاکٹر کو بڑی بھاری رشوت دیتی ہیں۔ کسی ڈاکٹر کو کار تو کسی کی بیٹی کا پورے کا پورا جہیز ہی فارما کمپنی کی طرف سے بطور گفٹ ملتا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے فوڈ اینڈ ڈرگ ایجنسی کی طرف سے یہ لازم ہے کہ اپنے منافع کی ایک خاص حد آپ نے نئی ادویات کی ایجاد اور تحقیق پر لگانی ہے۔

حال ہی میں کورونا ویکسین کی تیاری دنیا کی پانچ بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے کی۔ ایک اندازے کے مطابق کسی ایک دوائی کو ایجاد یا دریافت کرنے پر 2.6 بلین ڈالرز لگ جاتے ہیں اور پھر بھی یہ یقین نہیں ہوتا کہ یہ دوائی کلینیکل ٹرائلز پر پورا اترے گی یا نہیں۔ اس طرح سے ان کے منافع کا ایک بڑا حصہ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر لگ جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان کی لوکل کمپنیاں پکایا حلوہ کھانے پر مصروف رہتی ہیں۔ کیونکہ ہم لوگوں نے ہی تو جنت کا کرتا دھرتا بننا ہے۔ یہودی تو صرف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ جب کہ لوکل فارما کمپنیز کے منافع کا زیادہ تر حصہ ڈاکٹر کو رشوت دینے کے کام آتا ہے۔ فرض کریں ایک لوکل فارما کمپنی ہے جو ایک سالٹ کی گولی 50 روپے میں بیچتی ہے بالکل وہی سالٹ والی گولی کوئی دوسری کمپنی 80 روپے میں ایک بیچتی ہے۔ حالانکہ ایک ہی فارمولیشن پر قیمت قریب قریب برابر ہونی چاہیے مگر ڈرپ اور محکمہ صحت کی کرپشن اور فارما کمپنیز کے سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے ایسا ہونا ممکن نہیں ہوتا۔

اس وقت تمام بڑے شہروں میں دوائیوں کی ہول سیل مارکیٹ میں ایک ہی سالٹ 5 روپے سے لے کر 500 روپے میں با آسانی مل جاتا ہے۔ ان ادویات میں شرح منافع اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ آپ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے اس وقت اگر کوئی انڈسٹری سب سے زیادہ کامیاب ہے تو وہ فارما کمپنی ہے۔

چونکہ پاکستان میں اکثریت کم پڑھی لکھی ہے اور جو پڑھے لکھے بھی ہیں وہ بھی ڈاکٹر کی لکھی ہوئی دوائی پر آنکھ بند کر کے یقین کرتے ہیں۔ ڈاکٹر اور میڈیکل سٹور والے عوام کی اس کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ میڈیکل سٹور والا اپنے کسٹمر کو دیکھ کر اسے دوائی دیتا ہے۔ جو فارما کمپنیاں کٹ پرائس پر ادویات بناتی ہیں ان کی پیکنگ اور برینڈ نیم دیکھ کر دور سے یہی لگتا ہے کہ یہ اصل دوائی ہی ہے مگر حقیقت میں مریض کو چونا لگایا جاتا ہے۔

جو ڈاکٹر کچھ مشہور ہو جاتے ہیں اور ان کے پاس ایک اچھی خاصی تعداد میں مریضوں کی آتی ہے تو ان ڈاکٹرز اور پرائیویٹ ہسپتال والوں نے صرف اپنی فارمیسی کے لیے کچھ کامن اور زیادہ بکنے والی ادویات اپنے برانڈ نام سے بنوا کے رکھے ہوتے ہیں۔ یہ مخصوص برانڈ صرف اسی ایک مخصوص میڈیکل سٹور سے ملتی ہے۔ ان برانڈز کو فرنچائزڈ ادویات کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ادویات ڈرپ کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہوتیں اس لیے ان کو اوپن مارکیٹ میں سیل نہیں کیا جا سکتا۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ستر سے اسی فیصد مریضوں کو بہت سی غیر ضروری ادویات لکھی جاتی ہیں۔ اگر ایک مریض کسی ایک ڈاکٹر سے مطمئن نہ ہو تو دوسرا ڈاکٹر بھی اکثر اوقات اسے وہی فارمولا کسی اور برانڈ نام سے لکھ کے دے دیتا ہے یا پھر اسی کلاس آف ڈرگز میں کوئی اور فارمولا لکھ دیتا ہے۔ اس سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ مریض مطمئن ہو کر جائے بھلے ہی اس کے پاس وہی دوائی گھر میں پڑی ہی کیوں نہ ہو۔

اس کے علاوہ جتنے بھی بڑے بڑے پرائیویٹ ہسپتال ہوتے ہیں وہاں ڈاکٹرز، میڈیکل سٹور اور لیب کے ماہانہ اور سالانہ ٹارگٹ ہوتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی پروسیجر کی، ڈاکٹر کی فیس یا دوسرے لوازمات کے لیے کوئی مخصوص فیس نہیں ہوتی۔ ہر ہسپتال، ہر ڈاکٹر ہر لیب والے کی اپنی فیس ہوتی ہے۔ حکومت کا اس سلسلے میں کنٹرول صفر بٹا صفر ہے۔ روز مرہ کی تمام اشیا کے پھر بھی مخصوص ریٹ ہوتے ہیں مگر میڈیکل کے شعبے میں ہر ہسپتال خود سے طے کر لیتا ہے۔

کئی ہسپتال تو ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ہسپتال کم اور بیماریوں کی آماجگاہ زیادہ لگ رہے ہوتے ہیں۔ بیڈ شیٹس سے لے کر ہسپتال کی صفائی تک کوئی خاص انتظام نہیں ہوتا۔ پاکستان میں گنتی کے صرف چار پانچ ایسے ہسپتال ہیں جن کے پاس جے سی آئی سرٹیفکیٹ موجود ہے۔ ان میں سے کوئی بھی سرکاری ہسپتال نہیں ہے۔ اور جو ہیں ان میں صرف اشرافیہ کے لوگ جا سکتے ہیں۔ اگر کسی ترقی یافتہ ملک میں ہسپتال دیکھیں تو ہسپتال کم اور پانچ ستارہ ہوٹل زیادہ لگتے ہیں۔ مگر اس طرف نہ تو محکمہ صحت کی کوئی نظر جاتی ہے اور نہ ہی ڈاکٹر کی۔

فرض کریں کہ ایک حاملہ عورت اگر کسی پرائیویٹ ہسپتال میں چلے جائے تو یہ دیکھا گیا ہے کہ وہاں سرکاری ہسپتال کے مقابلے میں اس عورت کا بڑا آپریشن ہونے کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ پھر جیسے ہی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسے نرسری میں ڈالا جاتا ہے۔ بچے کو ماں کے دودھ کی بجائے مصنوعی خوراک پر ڈالا جاتا ہے۔ اور جب عورت ہسپتال سے ڈسچارج ہوتی ہے تو ملٹی وٹامنز کی صورت میں ایک بڑا سا شاپر تھما دیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عورت کوئی نارمل کام کے لیے نہیں بلکہ ایک لاکھ کی کسٹمر بن کر گئی تھی۔ آج سے بیس پچیس سال پہلے شاذ و نادر ہی ہوتا تھا کہ کسی عورت کا بڑا آپریشن ہوا ہو۔ اگر صرف ڈیلیوری کیسز کی یہ صورتحال ہے تو پھر باقی پروسیجرز کی کیا صورتحال ہوگی۔

جب تک شہباز شریف وزیر اعلی تھے تب پھر بھی محکمہ صحت کے بہت سے کام ہوئے تھے مگر موجودہ دور میں پنجاب اور وفاق میں ٹیکنوکریٹس ہونے کے باوجود موجودہ حکومت سرے سے ہی ناکام نظر آتی ہے۔ محترم وفاقی وزیر اور محترمہ وزیر صاحبہ افسوس کے ساتھ آپ اپنی وزارتوں کے ساتھ انصاف کرتے نظر نہیں آرہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments