”گلوبل“ کا لہنگا پہن کے بیٹھی دلہن، انگریزی زبان


ٹی وی پہ ایسے کئی سکہ دانشور ہیں جو مسلسل لوگوں کی زبان درست کرواتے رہتے ہیں۔ چند دن قبل ایسے ہی ایک دانشور نے اینکر علینہ شیخ کی ایک ترکیب کی درستی کی یا شاید درستگی کی اور ساتھ ہی دھمکی بھی جڑ دی کہ اگر ایسی زبان بولی گئی تو وہ نہ جانے کیا کر دیں گے۔

ہمارے ایک پروفیسر صاحب نے ایک واقعہ سنایا تھا کہ ایک دفعہ انگریزی کے استاد پریکٹس کروا رہے تھے کہ ”It’s I“ ہوتا ہے۔ ”It‘s me“ نہیں ہوتا۔ ”اٹز می“ بولنا غلط ہے۔ عین اسی وقت کلاس روم کے دروازے پر دستک ہوئی۔ استاد صاحب نے پوچھا کہ دروازے پہ کون ہے۔ جواب آیا کہ

”It’s me, the principal“
سوچیں کہ استاد صاحب کے احساسات کیا ہوں گے۔

اردو کو ہی لے لیں۔ جہاں سب کچھ بدل رہا ہے وہاں تخاطب کے صیغے کے ساتھ ”ں“ لگانے کی نئی ریت بھی ہے۔
لوگو! کی جگہ لوگوں تم کدھر ہو؟
لڑکو! کی جگہ لڑکوں بات سنو؟
عورتو! کی جگہ۔ عورتوں اپنے حق کے لیے نکل پڑو۔

اب اردو کے بابوں کا تو خون آتش فشاں بنے گا نا۔ مگر ان کی تو ٹی وی والے نہیں سنتے بچے کیا سنیں گے۔ بس کوئی دن جاتا ہے کہ لغت بھی اعلان کر دے گی کہ تخاطب کے لیے ”ں“ کے ساتھ بھی الفاظ درست ہوتے ہیں۔

افففوہ۔ مسئلہ تو انگریزی ہے اور میرے سر پہ اردو سوار ہو گئی۔ شاید سب زبانوں کا ہی مسئلہ ہے۔

مگر ذرا رکیے۔ زبان کی بات ہو تو پنجابی کا ذکر کیے بنا ہم کیسے رہ سکتے ہیں۔ لاہور، فیصل آباد، سرگودھا اور سیالکوٹ میں سے کس کی پنجابی درست ہے؟ سچ کہوں تو بطور پنجابی پوٹھوہاری اور پہاڑی کو تو پنجابی ماننے سے انکار ہے۔ بسں کہہ سکتے ہیں کہ کچھ ملتی جلتی زبانیں ہیں۔

ذرا سوچیں
گھر جا=گھر گچھ
ابو دی کرسی= ابو نی کرسی
بھئی کوئی بات ہے کرنے والی۔
مگر انصاف یہی ہے کہ تنوع جیسا بھی ہو جب اس کے مدعیان موجود ہوں تو اسے درست مان لیا جاتا ہے۔

دوسری جانب سرائیکی وسیب والے تو خود ہی الگ زبان رکھنے کے دعویدار ہیں لہذٰا یہ مسئلہ تو حل ہوا۔ خیر پنجابی کا ایک دیہاتی بلار جس نے کبھی باہر کہیں سفر بھی نہ کیا ہو نہ کوئی اور زبان سمجھتا ہو، اسے بھی سرائیکی کی سمجھ آتی ہے۔ تو پھر ہم سرائیکی کو پنجابی کا تنوع کہیں گے یا الگ زبان؟ لمبی بحث ہے۔

انگریزی کی طرف چلتے ہیں۔

انگریزی ایک تو اپنا ایک عجیب سا نظام رکھتی ہے۔ اوپر سے محترمہ اب فرماتی ہیں کہ وہ تو عالمی زبان ہیں۔ تو جو عالمی ہونے کا دعویٰ کرے اسے گھر کا دروازہ بڑا رکھنا پڑتا ہے۔ چند دن پہلے برطانیہ کے ایک وزیر نے اپنی ہی کھلاڑی، جو کہ ”اعلیٰ کلاس“ سے تعلق نہیں رکھتی ہیں، کو ”کم تر لہجہ“ اپنانے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ جس پہ بعد میں موصوف کو معذرت بھی کرنا پڑی۔ یاد رہے کہ بی بی سی ”اعلیٰ کلاس“ کی انگریزی استعمال کرتا ہے۔

اس سے مجھے یاد آیا کہ کہتے ہیں کہ محترم جارج برنارڈ شا یا برنرڈ شاہ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ یہ جو لفظ ”fish“ ہوتا ہے یہ دراصل گوٹی ”ghoti“ ہوتا ہے۔ بھلا کیسے؟

لفظ فش میں موجود ”f“ ف کی آواز دیتا ہے۔ مگر ف کی آواز تو ”gh“ بھی دیتے ہیں جیسا کہ ”enough“ میں دیکھ لیں۔ اس کے بعد I آتا ہے جو/ I / کی آواز دیتا ہے۔ مگر/ I /کی آواز تو O بھی دیتا ہے۔ نہیں یقین تو لفظ women دیکھ لیجیے۔ آخر پہ sh ہیں جو ش کی آواز دیتے ہیں مگر ش کی آواز تو ”ti“ بھی دیتے ہیں۔ لفظ emotion کی مثال دیکھ لیں۔ اس طرح ہم فش کو گوٹی کے سپیلنگ دے سکتے ہیں۔

F=gh
I=o
Sh=ti
Fish=ghoti

تو جناب انگریزی تو برطانیہ میں بھی دایاں دکھا کر بایاں مارتی ہے پاکستان کس کھیت کی مولی ہے۔ امریکی انگریزی کے لیے تو پہلے ہی عالمی دانشور اپنے دلوں میں اوکھی سوکھی جگہ بنا ہی چکے تھے مگر اب بھارتی انگریزی، پاکستانی انگریزی، افغانی انگریزی حتیٰ کہ چینی انگریزی بھی اپنے پروں پہ پرواز کر رہی ہے تو کتب کے دانشور کب ان کو کوئی اتھارٹی مانیں گے؟ بیچارے، ”غ“ کو ’گ‘ پڑھنے والے بھارتی، اور ’ث‘ ، ’س‘ اور ’ص‘ کے درمیان غوطے کھانے والے پاکستانی عوام کے ووکل کارڈ اعلیٰ کلاس کا برطانوی لہجہ کہاں سے لائیں۔ کچھ ممالک تو بے چارے صدیوں سے اس غم و الم میں ہیں کہ وہ بڑے ملک تھے مگر ایک جزیرہ نما کی زبان، انگریزی، گلوبل کیوں بنتی جا رہی ہے۔ پر اب یہ اپنے لہجوں میں اسے بول کر اس سے بدلے چکا رہے ہیں۔

خیر ان کو تو چھوڑیں، پاکستان کی بات کرتے ہیں اب جب ہم نے مان لیا ہے کہ انگریزی گلوبل زبان ہے۔ اور عالمی ذریعہ ترسیل معلومات ہے۔ اس کے ساتھ سائنس اور علوم کی زبان بن گئی ہے تو کیا یہ ضروری ہے کہ ہم اس کا تیا پانچا جاری رکھیں اور اپنے بچوں کا بھی امتحان لیں اور کلرکوں کا بھی جو بے چارے پہلے تو خط پنجابی، سندھی، بلوچی یا پشتو یا سرائیکی میں ترجمہ کرتے ہیں پھر اسی علاقائی زبان میں جواب بنا کے اس کی عجیب و غریب انگریزی بناتے ہیں۔ قوم اور دفاتر کے آدھے کام تو اسی وجہ سے تاخیر کا شکار رہتے ہیں۔

کیا اپنی لینگویج پالیسی بنانا اتنا مشکل کام ہے کہ یہ کبھی نہیں ہو سکتا؟

کوئی انگریزی کا لفظ بولے تو ارد گرد سے سو آوازیں آتی ہیں کہ غلط غلط۔ کوئی ایک پیراگراف لکھے تو دیکھنے والا سرخ کر دیتا ہے کہ سب غلط ہے۔ ایم اے انگلش کرنے والے، ڈگری لے کر کئی سال انگریزی کی تیاری کرتے ہیں اور پھر مرکزی سول سروس کا امتحان دیتے ہیں پھر بھی ان کا انگریزی ’مضمون‘ کا پرچہ فیل ہو جاتا ہے۔ بھئی ’the‘ لگانا ہمیں نہیں آتا تو ہم کیا کریں؟ ؟ کوئی تو بتائے کہ ہم کیا کریں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments