مشاہدہ سے تجربہ تک


مادی آنکھ سے خاکی دنیا کی رگ رگ میں پنہاں خوبصورتی کو حسین انداز نظر سے بغور دیکھنا اور اس خوبصورتی سے پیوست ترنم کو تخیل کے کانوں سے درجہ سماعت عطا کرنا مشاہدہ کہلاتا ہے۔ عام چلن ہے کہ ہر چیز پر جیسی بھی نگاہ پڑ جائے اسے مشاہدہ سے تعبیر کیا جاتا ہے مگر حقیقت میں مشاہدہ بالکل ایک الگ چیز کا نام ہے۔ فرض کریں دو آدمی ایک سرسبز و شاداب باغ میں چہل قدمی کرتے ہوئے خوشبو سے معطر فضا سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

اچانک دونوں کی نظر ایک ہلکے نیلے رنگ کے پھول پر پڑ جاتی ہے جس کی پنکھڑیاں جام شبنم سے لبریز ہیں۔ دونوں دیکھتے ہیں منہ سے سبحان اللہ کی صدا دلوں کو پہنچنے والی مسرت پر گواہ بن کر بلند ہوتی ہے۔ ایک شخص آگے بڑھ جاتا ہے مگر دوسرا اس پھول کے قریب دو زانوئے ہو کر اس کی ایک ایک پنکھڑی کو بغور دیکھتا ہے اور ان پر پڑے شبنم کے قطروں کے اندر پوشیدہ زندگی کو محسوس کرنے کی خاطر اپنے دست پر چھڑکتا ہے۔ پھول دونوں آدمیوں نے دیکھا تھا مگر مشاہدہ صرف ایک نے کیا۔

اس مثال سے میرا مقصد اس نقطہ کو عیاں کرنا ہے کہ صرف دیکھنا اور گزر جانا مشاہدہ کی حد سے کوئی تعلق نہیں رکھتا بلکہ مشاہدہ صرف اس دیکھنے کو کہا جاتا ہے جس کے ساتھ جذبات کا رشتہ قائم ہو۔ درج بالا مثال میں جو شخص پھول اور شبنم کا بغور جائزہ لیتا ہے اس کی جمالیاتی حس کو تسکین کی منزل عطا ہوتی ہے۔ تسکین کی منزل کا میسر آ جانا جذبات کی اونچائی ہے اور جب جذبات کی اونچائی نصیب ہو گئی تو اس کا سادہ سا مطلب ہے کہ مشاہدہ ہو گیا۔

مشاہدہ کا انسانی زندگی میں اہم کردار ہے۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ بڑے بڑے واقعات کے نتائج کا رخ مشاہدات کی بدولت یکسر بدل گیا۔ روزمرہ کی زندگی میں اگر اس نقطہ پر غور کیا جائے کہ مشاہدہ کی کیا اہمیت ہے تو سو بات کی ایک بات ہی تخیل سے زبان تک کا سفر طے کرتی ہے اور وہ ہے اگر کامیابی کی منزل سے ہمکنار ہونے کی تمنا ہے تو ہاتھ کی ایک انگلی مشاہدہ کے ہاتھ میں دے دینی چاہیے۔

مثال کے طور پر ایک طالب علم بے حد محنت کرتا ہے بہت زیادہ مطالعہ کرتا ہے۔ اپنی اصل منزل سے نا آشنا ہے ہی مگر معاشرے میں موجود اسی شعبہ سے تعلق رکھنے والے کامیاب لوگوں کی منزل کی تلاش میں کی جانے والی محنت سے بے خبر بھی رہتا ہے۔ اس وجہ سے وہ کامیابی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں میں شمار ہوتا ہے۔

دوسرا طالب علم درج بالا طالب علم کی زندگی کا مشاہدہ کرتے ہوئے سب سے قبل اپنے اصل مقصد کی کھوج لگائے گا اور اصل منزل کا تعین کرنے کے بعد ان راستوں کی تلاش میں سرگرداں ہو جائے گا جو اس کی جستجو کو منزل سے ملاتے ہوں گے۔ یوں وہ کامیابی کے پھل کو حاصل کرنے والوں میں شمار ہو گا۔

مشاہدہ کے ساتھ ساتھ تجربہ بھی کامیابی کے لوازم میں شامل ہے۔

زندگی کی روح کو ہتھیلی پر چراغ کی مانند روشن کیے معاشرے کی ستم گری کے اندھیرے میں پرخار راستوں سے آشنا ہونا تجربہ کہلاتا ہے۔ جستجو سے کامیابی کی طرف سفر کے دوران تجربہ سے دوستی وہ گوہر عطا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جو گر کے بحر کا شناور ہے اور سفر کا زاد راہ بن کر منزل کی جانب جاتے راستوں کے قفل کی کنجی سے آشنا۔ تجربہ کا بھی آدمیت کی زندگی میں نہایت اہم کردار ہے۔ مشاہدہ کی طرح اس نے بھی تاریخ کے بہاؤ کے رخ کو موڑنے کی خاطر کئی کارنامے دکھائے ہیں۔

برطانیہ کی ہی مثال لے لیجیے۔ اس کی فوج امریکہ میں امریکی ریاستوں کے باشندوں کے ہاتھوں ناکامی سے بری طرح دوچار ہوئی تو اس نے اپنا رخ ہندوستان کی طرف موڑا اور تجربہ کی بنا پر وہ غلطیاں دہرانے سے باز رہی جو وہ امریکہ میں کر چکی تھی اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ انگریز کا راج ہندوستان کی سر زمین پر عالم نے دیکھا اور موجودہ دور تک اس کا راج بالواسطہ قائم و دائم ہے۔

تجربہ اور مشاہدہ آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ تجربہ کے بغیر مشاہدہ بے کار ہے تو مشاہدے کے بغیر تجربہ کی مثال اس پھول جیسی ہے جس کے اندر خوبصورتی تو موجود ہوتی ہے مگر خوشبو کا نام تک موجود نہیں۔ جو لوگ مشکلات کے دریا کا سامنا کرتے ہوئے کامیابی کے سمندر میں غوطہ زن ہونا چاہتے ہیں انہیں تجربہ کی کشتی میں بیٹھ کر مشاہدہ کے چپو سے حالات کی تیز لہروں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

علی حسن اویس

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی حسن اویس

علی حسن اُویس جی سی یونی ورسٹی، لاہور میں اُردو ادب کے طالب علم ہیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے ضلع حافظ آباد سے ہے۔ مزاح نگاری، مضمون نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ تحقیقی آرٹیکل بھی لکھتے ہیں۔

ali-hassan-awais has 66 posts and counting.See all posts by ali-hassan-awais

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments