ہاسٹل میں ایک صبح کا منظر


ہاسٹل میں ہر صبح ٹھیک پونے 9 بجے کے بعد افراتفری پھیلی ہوتی کہ آج ہاسٹل وارڈن صاحب کی خواہش کو پورا کیا جائے اور ٹھیک 9 بجے کالج پہنچا جائے۔ کیوں کہ ہاسٹل وارڈن صاحب روز بچوں کی طرح بضد ہوتے کہ تمام طلبہ کو 9 بجے کالج ہونا چاہیے۔ مگر وارڈن صاحب دیکھتے ہیں کہ کچھ نوجوان 9 بجے آنکھیں ملتے ہوئے واش روم کی صرف رواں دواں ہو رہے ہیں۔ یہ نظارہ دیکھ کر وارڈن صاحب غصہ سے سرخ لال ہوتے اور فی بندہ سو روپیہ جرمانہ ادا کرنے کا حکم صادر فرماتے۔

لیکن طلبہ جرمانے کا سن کر اپنی چال اور ڈھال دونوں آہستہ کر دیتے کہ جب جرمانہ دینا ہی ہے تو بھائی یہ افراتفری کیسی۔ اب آرام سے جائیں گے بھائی۔ اس پر وارڈن صاحب لال ٹماٹر ہوتے لیکن کچھ کر نہیں پاتے۔ کچھ طلبہ جو وارڈن صاحب کے ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھتے تھے وہ ان سے اس بات پر نالاں تھے کہ یہ ابھی پیسے دے کر ان کا بھاشن سنو اور پھر کالج جا کر ان کی کلاس کا بھاشن الگ۔ یہ سوال ہمیشہ سوال ہی رہا کہ وہ پہلے استاد بنے تھے یا ہاسٹل وارڈن۔ ایک دو دفعہ یہ سوال میٹنگ میں بھی اٹھایا گیا مگر وارڈن صاحب خود بھی اس کا کوئی خاص جواب نہ دے سکے۔

خیر ایک دو نے یہ بھی کہہ دیا کہ سر آپ ہماری کلاس یہاں ہی لے لیا کریں، تاکہ ہم سکون سے کالج میں ساڑھے دس کے آس پاس انٹری لیں اور ٹھیک 1 بجے کھانا شانا کھا کر پھر سے اپنی خواب گاہ کو بخیر و عافیت پہنچ سکیں۔

کچھ طلبہ مکمل تیار ہو کر واش روم کے باہر کتابیں بغل میں چھپائے کنگھی کر رہے ہیں اور کنگھی کرنے کے بعد بالوں کو اوپر سے آہستہ آہستہ تھپتھپاتے کہ پف بن سکے۔ یہ لڑکیوں کو امپریس کرنے کا آخری فارمولا ہوتا تھا۔ جبکہ پہلا فارمولا فیس واش سے شروع ہوتا تھا کہ کون سا فیس واش ہے جو ان کی اس چمڑی کو گال کر نیچے سے نئی چمڑی نکال لائے اور کہے کہ لیجیے جناب یہ ہے آپ کی اصل رنگت۔ کچھ نوجوانوں نے تو رنگ گورا کرنے کے چکر میں اپنی چہرے کی چمڑی ادھیڑ دی مگر مجال ہے کہ چہرے کو کوئی ایک حصہ بھی گورا ہوا ہو۔

ہاں البتہ نعمان عرف نومی بھائی کا ناک گورا ہو گیا اور باقی چہرہ پیدائشی رنگت کے مطابق رہا۔ اب نومی بھائی کے لیے یہ عجیب سے کشمش پیدا ہو گئی کہ کون سے رنگ کو کس کے ساتھ مشابہ کیا جائے، کیوں کہ چہرہ نے تو صاف صاف الفاظ میں ناک سے رنگت میں مشابہت اختیار کرنے میں انکار کر دیا۔ پھر دو مہینے لگا کر ناک کی رنگت کو چہرے کے مشابہ کیا۔ تب جا کر نومی بھائی جوکر سے انسان بنے۔

ادھر ہمارے کمرے میں معاذ، حمزے کی فیئر اینڈ لولی کریم کو رول کر کے اس میں سے کریم نکال کر لگا رہا ہے اور حمزہ پاس کھڑا نگرانی کر رہا ہے کہ کہیں زیادہ ہی نہ لگا لے۔ حیرت تو اس بات پر تھی کہ پچھلے ایک ماہ سے یہ کریم کی ٹیوب میں سے رول کرنے پر اس میں سے کچھ نا کچھ نکل ہی آتا تھا۔ چوہدری صاحب حسب معمول پاس کھڑے ہیں اور شو پالش اٹھا رکھی ہے اور تھانے داروں کی طرح برش طلب کر رہے ہیں۔ اتنے میں ہاسٹل وارڈن صاحب ہمارے کمرے میں داخل ہوتے ساتھ ہی عام فہم کے سوالات ایسے کرتے تھے جیسے وکیل کسی ریپ کیس کی جانچ پڑتال میں کرتا ہے۔

” ٹائم دیکھا ہے تم لوگوں نے؟ 9 بجے رہے ہیں اور تم ابھی یہاں ہو۔ زین تم تیل سے کیا کر رہے ہو؟“

میں نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا کہ ”سر میں تو سر میں تیل لگانے والا تھا۔ اگر کوئی اور بھی اس کا استعمال ہے تو بتا دیجیے۔ “

ساتھ ہی ہاسٹل وارڈن صاحب مزید سنجیدگی اختیار کرتے اور سو روپے جرمانے کا اعلان کرتے۔ حالانکہ یہ وہ بھی جانتے تھے اور ہم بھی کہ آج تک ہاسٹل کی تاریخ میں کسی طالب علم نے نہ جرمانہ دیا ہے اور نہ آنے والے وقت میں دیا جائے گا۔

” چلو چلو۔ اب نکلو بھی“ اب وارڈن صاحب شدید غصے میں ہیں۔ یہ لیجیے ہم کنڈی لگا رہے ہیں اور سارے کے سارے ہاسٹل سے باہر۔ اب سارے ایک قافلے کی صورت میں کالج گراؤنڈ کو عبور کر رہے ہیں جیسے کالج کو فتح کرنے جا رہے ہو۔

جیسے ہی قافلہ کالج کے قریب پہنچتا ہے تو کوئی نا کوئی طالب علم وارڈن صاحب سے ہاسٹل واپسی کی اپیل کرتا ہے کہ سر آج جمعہ ہے اور جمعے کو ہماری اسلامیات کی کلاس ہوتی ہے اور اسلامیات کی کتاب میں کمرے میں بھول آیا ہوں۔

” بے شرم، بے غیرت، بے حیا“ بس یہ کہہ کر اجازت دے دیتے۔ اگر کوئی اور لفظ بھی ”بے“ کے ساتھ ان الفاظ کے وزن کا ذہن میں آتا تو وہ بھی ساتھ ملا لیتے۔

کلاسز کو شروع ہوئے ہوئیں قریبا آدھا گھنٹہ گزر چکا ہے اور ہاسٹل کی جنتا اب اساتذہ کی منتیں ترلے کر کے کلاسز میں اینٹریاں لے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments