سکھر میں صفائی مہم


کیا ہی مزے کی بات ہے کہ سکھر میں دوبارہ تزئین و آرائش کا سلسلہ شروع ہے۔ اس دفعہ کی مہم زیادہ شدت سے جاری ہے۔ دیکھا جائے تو پچھلے مضمون کے بعد سے لے کر اب تک سکھر میں سڑکوں کے کنارے لگے پودوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کچرے میں بھی پچھلے سالوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ سکھر کی بڑھتی آبادی اور پھیلتی حدود اس کچرے میں مزید اضافے کا باعث ہیں۔ اس کی دوسری وجہ پچھلی کئی دہائیوں سے انتظامیہ اور رہائشیوں کی اپنی اپنی ذمہ داریوں سے غفلت بھی ہے۔

جیسے میں نے ادب کے تناظر میں کہا کہ اعلیٰ معیار کا ادب تب ہی تخلیق ہو سکتا ہے جب عام قاری کا مجموعی شعور بہتر ہو گا۔ بالکل اسی طرح شہر میں صفائی کا معیار تب بہتر ہو گا جب عام شہری کا اپنے حقوق اور ذمہ داریوں سے متعلق مجموعی شعور بہتر ہو گا۔ صفائی کے متعلق ہماری ترجیحات کیا ہیں یہ دیکھنا بہت اہم ہے۔ کیا ہماری صفائی گھر سے جھاڑو نکال لینے کے بعد ختم ہوجاتی ہے یا ہم اس صفائی کو سڑک کی صفائی کے ساتھ ملا کر دیکھتے ہیں۔

بہت سی چیزیں براہ راست ہم پر اثر انداز ہوتی نہیں لگتیں لیکن اس حقیقت کا ادراک مجھے ماحولیاتی نفسیاتی پڑھ کے ہوا کہ ماحول اور بڑھتی آلودگی کس شدت سے زمین خاص طور سے انسان کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ زمین کو لاحق پانچ سب سے بڑھ خطرات میں نہ تو جنگ ہے نہ قحط نہ دہشت گردی نہ فحاشی نہ کسی کلچرل ویلیو کا تباہ ہونا۔ زمین اور انسان کو لاحق پانچ بڑے خطرے کسی نہ کسی حوالے سے آلودگی، موسمیاتی تبدیلی، جنگلات کی کٹائی، نارتھ پول ساؤتھ پول کی برف کا تیزی سے پگھلنا وغیرہ ہے۔

زمین پہ پینے کا پانی تیزی سے ختم ہو رہا ہے اور اگلے کچھ سالوں میں اکثر ممالک میں پینے کا پانی ختم ہو چکا ہو گا اور ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ فضائی آلودگی میں بھی حالات کچھ اسی قسم کے ہیں ائر کوالٹی انڈیکس میں پاکستان کے اکثر شہر سب سے زیادہ فضائی آلودگی کے حامل شہروں میں شامل ہیں اور ہمارا سکھر بھی ان میں سے ایک ہے۔ سردیاں آتے ہی اسموگ حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ صبح اکثر دس بجے تک شہر سے ذرا باہر جاؤ تو سڑک پہ سفر خطرناک حد تک مشکل ہوتا ہے اور حد نگاہ تقریباً صفر ہوتی ہے۔

جسے ہم کہر سمجھ کے نظر انداز کر رہے ہیں۔ اسموگ وہ دھند ہوتی ہے جس میں دھواں بھی وافر مقدار میں موجود ہو۔ ٹھنڈے موسم میں یہ دھند بھاری ہو کے نیچے نیچے رہتی ہے اور آمد و رفت متاثر کرتی ہے۔ لیکن گرمیوں میں بھی یہ نقصان دہ دھند ہمارے اردگرد ہوتی ہے نظر اس لیے نہیں آتی کیوں کہ اس میں آبی بخارات کم اور دھواں زیادہ ہوتا ہے اور گرمی کی وجہ سے کرۂ ہوائی میں کچھ اوپر معلق ہوتا ہے۔ یہ دھواں مسلسل ہمارے سانس کے ساتھ پھیپھڑوں میں جاکر انہیں نقصان پہنچا رہا ہے۔ اب ہمارے پھیپھڑوں کو خراب ہونے کے لیے سگریٹ کی ہرگز ضرورت نہیں ہماری شہر کی ہوا یہ کام بخوبی کر رہی ہے۔ سکھر میں سانس کی بیماریاں فضائی آلودگی اور معدے اور گردے کی بیماریاں گندے پانی کے استعمال کی وجہ سے بڑھتی جا رہی ہیں۔

اگر حالیہ انتظامیہ کے اقدامات دیکھیں تو شاید کچھ تسلی ہوتی ہے کہ جلد یہ مسائل نمٹ سکیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ چلیے ابھی تو سکھر کے موجودہ ایڈمنسٹریٹر علی رضا انصاری صاحب بہت جان فشانی سے سکھر کی صفائی کے مسئلے کو حل کرنے میں مصروف ہیں۔ لیکن کیا ایک سسٹم ایک شخص کے دار و مدار پہ چل سکتا ہے؟ جب کوئی دوسرا بندہ اس سیٹ پہ آئے گا تب۔ یا جب یہ مہم ختم ہو جائے گی تب سکھر کے حالات کیا ہوں گے؟

ہماری ایک غلط فہمی یہ ہے کہ عوام کچھ نہیں کر سکتے جب کہ جمہوری نظام میں سب سے اہم کردار ہی عوام کا ہوتا ہے۔ نفسیاتی اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو سوشل پریشر اس سے کہیں زیادہ شدید اثر رکھتا ہے جتنا ہم سوچتے ہیں۔ ہم ہر کام اسی سوشل پریشر کے تحت کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے فی الحال ہمارا معاشرتی رویہ کچھ ایسا ہے کہ ہم کوئی بھی مثبت کام کرتے ہوئے شدید اعصابی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں کیوں کہ کوئی اور وہ کام نہیں کر رہا ہوتا۔

آپ اپنے گھر کے سامنے ڈسٹ بن صرف تب رکھتے ہیں جب گلی کے باقی دس گھروں کے سامنے بھی ڈسٹ بن ہو۔ ہم ٹرینڈ فالو کرنے میں شیر ہیں لیکن ٹرینڈ شروع کرنے کی ہمت نہیں کر پاتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ سکھر صاف ہو لیکن کچھ کھا کر کچرا پرس میں یا اپنے کسی تھیلے میں ڈالتے ہوئے جھجکتے ہیں کہ کہیں کوئی ہمیں ”نفسیاتی“ نہ سمجھ لے۔ ہم ظاہر یہ کرتے ہیں کہ بنیادی طور پہ ہم جو کر رہے ہیں وہ اس لیے کیوں کہ یہ کوئی خاص اہم فرق نہیں ڈالے گا۔

دس ریپر پہلے ہی سڑک پہ پڑے ہیں میں نے بھی ڈال دیا تو کیا ہوا، سب یہی کر رہے ہیں لیکن اس کے پیچھے کی نفسیات دیکھی جائے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمیں کچھ مثبت کرتے ہوئے بھی سوشل ایکسیپٹنس چاہیے ہوتی ہے۔ ہم اس لیے یہ سب کرتے ہیں کیوں کہ ”سب یہی کر رہے ہیں“ ہماری اپنی کوئی اخلاقی حدود بطور انسان، بطور مسلمان یا بطور شہری ہم نے طے ہی نہیں کیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس پہ نہ گھروں میں بات ہوتی ہے نہ اسکولوں میں۔ صفائی نصف ایمان کہتے ضرورت ہیں لیکن وہ صرف نہا کے وضو کر لینے تک محدود ہے۔

اگر آپ کو لگ رہا ہو گا کہ آج میرا ہاتھ سیاسی حوالے سے ہلکا ہے تو دوبارہ غور کیجیے۔ باشعور عوام سیاسی حوالے سے زیادہ خطرناک بھی ہے اور مفید بھی ہے۔ آپ جب عوامی سطح پہ صفائی کے لیے مثبت معاشرتی دباؤ پیدا کریں گے وہ خودبخود سیاسی نمائندوں اور انتظامیہ کو بھی مستقل بنیادوں پہ صفائی کا معیار بہتر رکھنے پہ مجبور کرے گا۔

اچھا اب سوال یہ ہے کہ معاشرتی سطح پہ یہ مثبت دباؤ کیسے پیدا کیا جائے گا۔ معاشرتی دباؤ کبھی کبھی براہ راست ٹوکنے سے پیدا کیا جاتا ہے کبھی کبھی صرف خاموشی سے مسلسل ایک رویہ اختیار کر کے۔ مثال کے طور پہ آپ کی گلی میں ایک پوائنٹ بن گیا ہے جہاں سب کچرا ڈالتے ہیں۔ کچرا کنڈی بھی وہاں رکھی ہوگی لیکن اندر سے خالی ہوگی اور سب اردگرد کچرا پھینک کے چلے جائیں گے۔ وجہ وہی ہے کہ سب یہی کر رہے ہیں۔ کچھ مزید کائیاں ہوں گے جو اپنی گلی تو صاف رکھیں گے اور آ کر آپ کی گلی میں کچرا پھینک کے جائیں گے۔

گلی کے بس کچھ باشعور افراد مستقل گلی کی صفائی پہ توجہ دیں۔ سکھر میونسپل کارپوریشن کو بار بار یاد دلائیں کہ کچرا اٹھانا ہے۔ خود ہمیشہ کچرا کنڈی کے اندر کچرا ڈالیں۔ اب اردگرد کچرا پھینکنے والے کچھ عرصے تک تو اپنا چلن برقرار رکھیں گے۔ لیکن جب گلی کے وہ چند باشعور افراد انہیں ٹوکتے رہیں گے۔ اور انہیں نظر آئے گا کہ اب صرف انہی کا کچرا باہر پڑا ہوتا ہے اور جب تک وہ کچرا پڑا رہتا ہے سب کو پتا ہوتا ہے کہ یہ فلانے صاحب کی حرکت ہے یہ چیز ان کو رویہ بدلنے پہ مجبور کرے گی۔

میں جب کسی دکان پہ جاتی ہوں یا تو اپنے ساتھ کپڑے کا تھیلا لے کر جاتی ہوں یا دکان دار کو جتاتی ہوں کہ آپ اتنا کچھ دکان کی تزئین و آرائش پہ لگا رہے ہیں تو بائیو ڈی گریڈ ایبل یا ماحول دوست تھیلے کیوں نہیں مہیا کرتے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اکثر وہ دکان دار جن کی میں مستقل گاہک ہوں وہ مجھے یا تو پیپر بیگ دیتے ہیں یا بائیو ڈی گریڈ ایبل شاپر دیتے ہیں۔ تیسری صورت میں میرا اپنا تھیلا کام آتا ہے۔ وہ ماحول دشمن تھیلے اس لیے رکھ رہے ہیں کیوں کہ وہ سستا ہے وہ الگ بات ہے لیکن گاہک بھی اسے قبول کر رہا ہے۔ جتنا خرچہ دکان دار مستقل گاہک کو کولڈ ڈرنک پلانے یا دکان کی تزئین و آرائش میں لگا رہے ہیں اس سے کم میں ماحول دوست تھیلے رکھ سکتے ہیں۔ لیکن نہیں رکھتے کیوں کہ کوئی پوچھتا نہیں۔

آپ گھروں میں جاکر ایک ایک چیز دیکھتے ہیں اعتراض کرتے ہیں۔ گھر نیا نہیں بنوایا، فرج ابھی تک پرانا ہے، بیٹی کی شادی کب کر رہے ہو وغیرہ وغیرہ لیکن یہ کبھی نہیں پوچھتے کہ گھر میں ڈسٹ بن نہیں ہے؟ تمہارا کچرا تو دروازے پہ ہی پڑا ہوا تھا۔ چلیے اور کچھ نہ سہی ایک چیز کا ہی خیال کیجیے۔ آپ کے گھر کا کچرا آپ کے گھر کے بہت سے ایسے حالات کا پتا دے رہا ہوتا ہے جو آپ خود منہ سے دوسروں کو نہیں بتانا چاہیں گے۔ تو کیا یہ اچھا نہیں ہو گا کہ ایک بند کچرے کا تھیلا ایک مخصوص وقت گھر سے باہر رکھا جائے اور جمعدار وہیں سے لے کر چلا جائے نہ کہ ہفتوں تک آپ کے گھر کے حالات کچرے کی صورت سب کو گلی میں گزرتے نظر آئیں۔ اس کچرے میں کیا کچھ ہوتا ہے یہ آپ کو خود زیادہ بہتر پتا ہے۔

میں نے سکھر کی بات کی لیکن یہ آرٹیکل پڑھنے والے تمام دوسرے شہر کے افراد بھی اپنے اپنے شہر کے حالات کی بہتری کے لیے یہ طریقہ اختیار کر سکتے ہیں۔ یہ یاد رکھیے کہ آپ انتظامیہ سے تب تک معیاری کام نہیں لے سکتے جب تک آپ کو خود پتا نہ ہو کہ معیاری کام ہوتا کیا ہے۔ آپ ان باتوں پہ احتجاج کرتے رہیں گے جو بنیادی طور پہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہی نہیں۔ ایسے میں نقصان یہ ہو گا کہ انتظامیہ کا نمائندہ آپ کو دلائل دے کر چپ کرا دے گا اور جو واقعی انتظامیہ کا کام ہے اس پہ نہ آپ توجہ دیں گے نہ وہ کام کریں گے۔

سکھر سمیت اکثر پاکستان کے شہروں کا مسئلہ یہی ہے کہ اکثر کام بھی سیاسی مفادات کے لیے ہوتے ہیں اور ان پہ اعتراض بھی سیاسی نوعیت کے ہی ہوتے ہیں اور جب دونوں پارٹیز کے مفاد پورے ہو جاتے ہیں بات وہیں کی وہیں رہ جاتی ہے نقصان ہوتا ہے عوام کا کیوں کہ عوام بھی انہی سیاسی قلابازیوں میں کنفیوز ہو جاتے ہیں۔

ہمارا کچھ سماجی ماحول اس انداز کا ہے کہ باشعور طبقہ مسائل کا ذمہ دار فوراً محنت کش طبقے کو ٹھہرا کے سائیڈ میں ہوجاتا ہے۔ صفائی کے معاملے میں بھی سارا بوجھ اسی محنت کش طبقے پہ ڈال دیا جاتا ہے کہ ان لوگوں کو تو کوئی شعور ہے ہی نہیں۔ جب کہ بنیادی طور پہ عوام کی اکثریت ناصرف محنت کش افراد پہ مشتمل ہوتی ہے بلکہ وہ ایوریج ذہانت کے حامل لوگ ہوتے ہیں جو مبصرانہ سوچ کے حامل نہیں ہوتے اور عوامل کو باریک بینی سے نہیں دیکھ پاتے اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ان کو جو تعلیمی نظام مل رہا ہے وہ انہیں مبصرانہ سوچ اختیار کرنے کا موقع ہی نہیں دیتا۔

انہیں فرماں برداری سکھائی جاتی ہے۔ یہ فرماں برداری سوشل پریشر کو بغیر کسی چوں چرا ماننے کا کام بخوبی کر لیتی ہے۔ اصل مسئلہ پیدا ہوتا ہے اس طبقے کی سوچ سے جو عوامل کو باریک بینی سے دیکھتا تو ہے لیکن اس کے نتائج اپنی سیاسی اور نظریاتی پسندیدگی کی بنیاد پہ توڑ مروڑ کے پیش کرتا ہے۔ اور پھر عوام کو ریوڑ کی طرح ان نظریات کی طرف ہانکتا رہتا ہے۔ سکھر کے عوام کو ضرورت ہے کہ اب وہ خود دیکھیں کہ انہیں کس ٹرینڈ کا حصہ بننا ہے اور کون انہیں صرف اپنے مفاد میں استعمال کر رہا ہے۔

سکھر کی صفائی کسی سے بھی زیادہ عوام کا اپنا ذاتی مفاد ہے۔ صفائی ستھرائی کے ابتر حالات کی وجہ سے سب سے زیادہ مصیبت بھی عوام کو سہنی پڑ رہی ہے۔ میری سکھر کے باشعور طبقے سے بھی یہی استدعا ہے کہ آپ عوام کو باشعور بنائیے وہ چاہے حکومت کی سائیڈ ہو یا اپوزیشن کی۔ باشعور عوام آپ کی سب سے بڑی سیاسی طاقت ہوں گے۔ اپنی سطحی مفادات کے لیے عوام کو مسائل کی نظر نہ کریں۔

 

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments