پاکستان کی ’آئرن لیڈی‘: ’پہلے میں لوگوں سے ڈرتی تھی اب لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں‘

زنیرا رفیع - صحافی


نیلوفر شیرازی
’میں ہمیشہ سے الگ تھلگ رہنے کی عادی تھی، سکول بھی زیادہ نہیں جاتی تھی مگر چونکہ پڑھائی میں بہت اچھی تھی اسی لیے سکول والے غیر حاضری پر تنگ نہیں کرتے تھے۔ میں بچپن ہی سے شرمیلی تھی، کوئی ذرا آنکھیں دکھاتا تو رونا شروع ہو جاتی۔ سکول یا کھیل کے میدان میں کوئی ڈراتا دھمکاتا تو پریشان ہو جاتی اور گھنٹوں روتی رہتی تھی۔‘

خیبرپختونخوا کے شہر بٹگرام سے تعلق رکھنے والی نیلوفر شیرازی کا بچپن اور نوجوانی اگرچہ کچھ اس طرح سے گزرے تھے مگر انھیں اب پاکستان کی ’آئرن لیڈی‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ انھوں نے حال ہی میں ہاتھوں کی مدد سے 1160 اینٹیں توڑ کر ریکارڈ قائم کیا ہے۔

نیلوفر کا یہ چوتھا ورلڈ ریکارڈ ہے جس کو انٹرنیشنل بریکینگ فیڈریشن کی سند جاری کی گئی ہے۔ اس سے قبل انھوں نے تین ریکارڈ اور بنائے جس میں ہیڈ بریکنگ یعنی سر کے ذریعے اینٹیں توڑنا، اور مکے کی مدد سے خاص قوت توازن کے ساتھ اینٹوں کو اس انداز میں توڑنا کہ مٹھی میں بند انڈا نہ ٹوٹ پائے۔

مگر لوگوں سے کترانے اور جلد گھبرا جانے والی نیلوفر یہاں تک کیسے پہنچیں یہ کہانی کافی دلچسپ ہے۔

’یونیورسٹی میں بھی لوگوں کا مقابلہ کرنا نہیں آتا تھا‘

نیلوفر بتاتی ہیں کہ اگر کوئی انھیں کچھ کہہ دیتا یا تنگ کرتا تو وہ اس چیز کو دوسرے بچوں سے بہت زیادہ محسوس کرتی تھیں اور وقت کے ساتھ ساتھ بہت حساس ہو گئی تھیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ یہ حساسیت اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ ان کو ڈپریشن ہو گیا۔

نیلوفر بتاتی ہیں ایک بار ایک کلاس فیلو نے ان کی ٹیچر سے کسی ایسی بات پر شکایت کر دی جو درحقیقت انھوں نے کی ہی نہیں تھی۔

’اس وقت میں اپنا دفاع نہیں کر پائی مگر یہ بات میرے ذہن پر اتنا سوار ہو گئی کہ میں راتوں کو اکثر اٹھ جاتی تھی اور سوچتی تھی کہ مجھے یہ جواب دینا چاہیے تھا یا مجھے ایسا کہنا چاہیے تھا اور پھر میں بہت روتی تھی اور اپنی آنکھیں ملنا شروع ہو جاتی تھی۔‘

’میں روتے روتے اپنی آنکھیں اپنے ہاتھوں سے بہت زیادہ ملتی تھی اور شاید اسی وجہ سے ریٹینا (آنکھ کا بیرونی پردہ) ڈی ٹیچ ہو گئے۔ اس کے بعد احساس ہوا کہ انسان کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔‘

نیلوفر شیرازی

’تین آپریشن اور سات تکلیف دہ لیزر سرجریز نے زندگی کو بدل دیا‘

نیلوفر نے اپنی زندگی کے مشکل ترین وقت کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ وہ بعض معاملات یا باتوں میں صحیح ہونے کے باوجود بھی خاموشں ہو جاتی تھی کیونکہ وہ جواب نہیں دے پاتی تھیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ وہ اپنے سچ کو ثابت نہیں کر پاتی تھی اور بعد میں یہ صورتحال ڈپریشن میں بدل جاتی اور اسی دوران ان کو ’ریٹینل ڈی ٹیچمنٹ‘ کا عارضہ لاحق ہو گیا۔

’جب ابو مجھے ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تو انھوں نے کہا کہ یہ تو بلائنڈنس تھریٹ (اندھے پن کا خطرہ) ہے۔ ڈاکٹر نے فوری طور پر آپریشن کی ہدایت کی اور آپریشن کے دو ہفتوں بعد جب ٹانکے کُھلے تو پتہ چلا کے آپریشن کامیاب نہیں ہو پایا تھا۔‘

’ڈاکٹر نے کچھ دن بعد دوبارہ آپریشن کی ہدایت کی مگر بد قسمتی سے دوسرا آپریشن بھی فیل ہوا۔‘

انھوں نے بتایا کہ جب آپریشن دو بار فیل ہو گیا تو اس دوران انھیں بہت سی چیزوں کا احساس ہوا جیسا کہ جب آپ دیکھ نہیں سکتے اور دوسروں پر مکمل انحصار کر رہے ہوتے ہیں تو زندگی بہت مشکل ہو جاتی ہے۔

’پھر میں نے سوچ لیا تھا کہ اب مزید میں کسی چیز کا انتظار نہیں کروں گی۔ میں نے ہمت کی اور سپیشل چائلڈز (خصوصی بچوں) کے ایک سکول میں پڑھانا شروع کر دیا۔ جاب کے ساتھ میرا تیسرا آپریشن ہوا جو خوش قسمتی سے کامیاب ہو گیا۔ دو ماہ میں میرے تین آپریشن اور سات لیزر ٹریٹمنٹ ہوئے جس کی وجہ سے میری باڈی کافی ڈی شیپ ہو گئی۔‘

’اپنے جسم کو واپس نارمل کرنے کے لیے میں رننگ کرتی تھی اور پھر ایک بار میں نے برک بریکنگ (اینٹیں توڑنے) کی ویڈیو دیکھی تو میں اس سے بہت متاثر ہوئی۔ میں نے سوچا کہ اگر کوئی لڑکی یہ کرے تو باقی خواتین بھی بہت متاثر ہوں گی اور میں ویسے بھی خود کو مضبوط کرنا چاہتی تھی۔‘

نیلوفر شیرازی

’زندگی اتنے زخم دے چکی تھی کہ درد کا احساس ہی ختم ہو گیا‘

نیلوفر بتاتی ہیں کہ جب انھوں نے پہلی بار گھر میں بات کی تو اُن کے خاندان، دوستوں اور ساتھ کام کرنے والوں نے کبھی اس کھیل کے بارے میں سُنا تک نہیں تھا۔

’ہر کسی نے کہا کہ تم کیسے اینٹیں توڑو گی، تم لڑکی ہو، ہاتھ زخمی ہو جائے گا۔۔۔ نشان پڑ جائیں گے مگر نشان تو زندگی اتنے دے چکی تھی کے اب ان سے ڈر ہی نہیں لگتا تھا مگر جو میرے ماسٹر ہیں انھوں نے کہا کہ آپ کریں آپ کر سکتی ہیں. انھوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔‘

’پہلے میں لوگوں سے ڈرتی تھی اب لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں‘

نیلوفر بتاتی ہیں کہ اب اکثر مجھے بہت ہنسی آتی ہے جب میں کہیں جاتی ہوں تو لوگ مجھ سے ڈر جاتے ہیں حالانکہ جب میں یونیورسٹی جاتی تھی تو ہر صبح دعا کر کے جاتی تھی کہ میرا دن بہت اچھا گزرے، جب کلاس میں ٹیچر حاضری لگاتے تھے تو میں حاضری نہیں بول پاتی تھی کہ بولوں گی تو سب مجھے دیکھیں گے۔

’مارشل آرٹ کے بعد اب لوگ مجھ سے ڈر جاتے ہیں۔ اگرچہ میں بہت بے ضرر سی انسان ہوں مگر لوگ شاید جانتے ہیں کہ میں مضبوط ہو چکی ہوں اور ان کا مقابلہ کر سکتی ہوں۔ تو اب وہ مجھ سے دور رہتے ہیں، ہونا بھی ایسا ہی چاہیے انسان کو مظلوم نہیں بلکہ مضبوط ہونا چاہیے۔‘

یہ بھی پڑھیے

’لوگ کیا کہیں گے۔۔۔ لڑکیاں تھوڑا ہی یہ سب کرتی ہیں‘

وزیرستان کے بے گھر طالب علم کا عالمی ریکارڈ

چھپاک: ’ناک ہے نہ کان پھر جھمکے کہاں پہنوں گی‘

انھوں نے کہا کہ ’خواتین کے ساتھ جو بھی ایشوز ہوتے ہیں ان میں ان کی بھی کہیں نہ کہیں غلطی ہوتی ہے کیونکہ کہ انھوں نے اپنے ذہن میں یہ بات بیٹھا لی ہوتی ہے کہ وہ کچھ کر نہیں سکتی۔ اگر خواتین اپنے دماغ کو بدلیں اور سوچیں کہ وہ کمزور نہیں ہیں تو پھر کچھ مشکل نہیں ہو سکتا۔‘

’میں نے بھی ایک خاتون ہو کر مردوں کو ہرایا ہے، 1160 اینٹیں کوئی مرد بھی نہیں توڑ سکا مگر میں نے اپنے اندر یہ حوصلہ اور ہمت پیدا کی۔‘

نیلوفر شیرازی

’لوگ کہتے تھے ٹاپر ہے، چادر پہن کر رکھتی ہے‘

نیلو فر بتاتی ہیں کہ وہ یونیورسٹی میں بھی ٹاپرز میں شمار ہوتی تھی۔ اکثر لوگ کہتے تھے کہ یہ تو ٹاپر ہے چادر پہنتی ہے۔۔۔ یہ تو بہت اولڈ فیشن ہے۔۔۔ تو میں یہ سمجھتی ہوں کہ آپ دماغ سے ماڈرن یا اولڈ فیشن ہوتے ہیں، کسی کے ظاہر سے ہم اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔۔۔ ماڈرنائیزیشن آپ کے ذھن سے آتی ہے آپ کے پہننے اوڑھنے سے نہیں۔

’میں نے اپنے عالمی ریکارڈ ہمیشہ ٹریڈیشنل کپڑوں میں ہی بنائے ہیں کیونکہ میں اپنے ملک اور اپنے علاقے کی نمائندگی کر رہی ہوتی ہوں۔‘

نیلوفر ہمیشہ باحجاب رہتی ہیں اور ان کے مطابق اُن کا حجاب ان کی کامیابی کے راستے میں کبھی حائل نہیں ہوا۔

’یہ کیسا انسان ہے جو بیٹیوں کو پڑھا رہا ہے‘

نیلوفر بتاتی ہیں کہ ان کے والد کو لوگ ہمیشہ طعنے دیا کرتے تھے کہ ’یہ کیسا انسان ہے جو بیٹیوں کو پڑھا رہا ہے۔‘

نیلوفر نے بتایا کہ ’میرے ابو ہمیں پڑھایا کرتے تھے۔ ہم قبائلی ہیں تو سب کہتے تھے کہ یہ کس طرح کا آدمی ہے، یہ بیٹوں کو پڑھاتا ہے، تو میں اور میری باقی بہنوں نے بھی یہی سوچا تھا کہ کچھ ایسا کریں گے کہ لوگوں کو بتا سکیں کہ بیٹیوں کو پڑھانا کوئی معیوب بات نہیں. آج جب ہم بہنیں کامیاب ہیں تو وہی سب لوگ ہماری کامیابی کو سرہاتے ہیں۔‘

’میرے ابو ہی میرے رول ماڈل ہیں۔ وہ ہمیشہ ہم بہنوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہے اور ہماری کامیابی میں ان کی بھی اتنی ہی محنت ہے جتنی ہماری تھی۔‘

نیلوفر کے مطابق ان کے ساتھ جو بھی ہو رہا تھا اس پر ان کے والد کافی پریشان ہو گئے، وہ پھر مجھے تھراپسٹ کے پاس لے گئے کیونکہ میں اپنی فیملی سے بھی کوئی بات شیئر نہیں کرتی تھی۔

نیلوفر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ تھراپسٹ یا سائیکلوجسٹ کے پاس وہی جاتا ہے جو ذہنی مریض ہو مگر یہ بات بلکل غلط ہے۔

’بعض اوقات ہمارے کچھ ایسے مسائل ہوتے ہیں جو ہمیں ذہنی طور پر تنگ کر رہے ہوتے ہیں تو تھراپسٹ کے پاس انسان اپنے ذہنی تناؤ کو کم کرنے کے لیے بھی جا سکتا ہے۔‘

سائیکلوجیکل ہیلتھ کیئر سینٹر کی کنسلٹنٹ کلینیکل سائیکالوجسٹ سحرش افتخار بتاتی ہیں کہ مسلسل تھینکنگ پیٹرن (سوچتے رہنا) آپ میں بے چینی اور ڈیپریشن کی وجہ بنتا ہے۔

’لوگوں سے نا ملنا، لوگوں سے ڈرنا، ان کا مقابلہ نہ کرنے کی ہمت ہونا اور لوگوں کا خوف دل میں ہونا اسے دراصل سوشل انگزائٹی کہتے ہے کیونکہ ایسے لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ کچھ بھی بولیں گے تو انھیں بدلے میں تنگ کیا جائے گا۔ ایسے لوگوں کی عزت نفس بھی بہت کم ہوتی ہے مگر ایسے بچوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔‘

سحرش افتخار نے مزید بتایا کہ ہر چیز برداشت کر جانا انسان کو ذہنی تناؤ کا شکار کر دیتا ہے جو کہ ڈپریشن اور انگزائٹی کی وجہ بنتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ جو لوگ سوشل انگزائٹی میں مبتلا ہوتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ اپنی سرگرمیوں کو بدلیں، روزانہ وزش کریں، ایسی سرگرمیوں میں حصہ لیں جو انھیں خوشی دیں اور اپنے آپ کو خوش رکھیں۔

والدین ایسے بچوں کا اندازہ مختلف باتوں سے لگا سکتے ہیں۔ ایسے مسائل کا شکار بچے اپنے والدین سے بھی ایک فاصلے پر رہتے ہیں اور اپنی کوئی بات شیئر نہیں کرتے۔ اس صورتحال میں والدین کو چاہیے تو وہ اپنے بچے پر توجہ دیں۔

سحرش کے مطابق اس طرح کے کیسز تقریباً ہر دوسرے گھر میں موجود ہوتے ہیں مگر والدین ان کو بھانپ نہیں پا رہے ہوتے اور وہ چیز بڑھتے بڑھتے بچوں میں ڈپریشن کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments